محترمہ بے نظیر اور آج کی پیپلزپارٹی !

دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہنے والی دنیا کی واحد خاتون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کو آج ہی کے دن 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔آج اُن کی 18ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے اور معتمدین آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہیں ، کیوں کہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں،انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر بھی تھیں۔انہوں نے پاکستان کے طول وعرض میں سیاسی فراست، ذہانت اور سوجھ بوجھ کے انمٹ نقوش ثبت کیے اور وقت کے ساتھ ان کی عزت و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیا۔وہ ایک ایسی قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ بی بی شہید عالمی سطح کی شخصیت تھیں اور پاکستان کی نمایاں آواز تھیں۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں ،وہ لوگوں میں فاصلے کم کرنا اور انہیں قریب لانا جانتی تھیں۔وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ہر معاملے میں فاصلوں کو کم کرنا اور مثبت اندازِ فکر کو اپنانا ہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ ان کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے عالمِ اسلام کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔ لیکن اُن کے بعد پیپلزپارٹی نے جو اپنا حشر کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے،،، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ راولپنڈی میں محترمہ قتل نہیں ہوئی تھیں بلکہ پاکستان کی ایک قومی جماعت کی روح بھی لہولہان ہو گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی باقی تو رہی، مگر وہ پیپلز پارٹی نہ رہی جو لاہور، فیصل آباد، پشاور اور کوئٹہ کے گلی کوچوں میں زندہ تھی۔ آج پیپلز پارٹی عملی طور پر سندھ کی جماعت بن چکی ہے۔ وہ پارٹی جو کبھی پورے پاکستان کے غریب، مزدور اور متوسط طبقے کی آواز تھی، اب کراچی سے کشمور تک تو حکومت کرتی ہے مگر لاہور سے خیبر تک اس کا وجود برائے نام ہے۔ پنجاب، جو بھٹو اور بے نظیر کا اصل سیاسی میدان تھا، وہاں پارٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ صدر آصف علی زرداری پر اس حوالے سے اکثر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے اقتدار کے لیے پارٹی کے نظریات کو دفن کر دیا،،، مفاہمت، ڈیلز اور اسٹیٹس کو کے ساتھ جینے کی سیاست نے انہیں اقتدار تو دیا، مگر عوام سے دور کر دیا۔ پارٹی کا بیانیہ، جو کبھی ”روٹی، کپڑا اور مکان“ تھا، اب فائلوں، وزارتوں اور اتحادی سودوں تک محدود ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ طاقت کے مراکز سے ٹکرانے کے بجائے ان سے ہم آہنگ ہو گئی۔حالانکہ بھٹو خاندان کی تاریخ مزاحمت سے بنی تھی، مگر موجودہ قیادت نے مفاہمت کو بقا کا راستہ بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی اقتدار میں تو ہے، مگر کردار میں نہیں۔آج پیپلز پارٹی کے پاس وزارتیں ہیں، لیکن تحریک نہیں۔پارلیمنٹ میں نشستیں ہیں، مگر سڑکوں پر عوام نہیں۔میڈیا میں نمائندگی ہے، مگر دلوں میں جگہ نہیں۔ بے نظیر کے بعد پیپلز پارٹی ایک قومی تحریک سے ایک علاقائی اقتداری جماعت بن گئی ہے۔ یہ وہی انجام ہے جو دنیا بھر میں اس جماعتوں کا ہوتا ہے جو اصول چھوڑ کر اقتدار سے محبت کرنے لگتی ہیں۔ حالانکہ اگر پیپلزپارٹی کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو جب جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو صرف ایک وزیراعظم نہیں مارا گیا، بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی عوامی جماعت کو یتیم کر دیا گیا۔ جیلیں، کوڑے، پھانسیاں، اور جلا وطنیوں سے پیپلز پارٹی ٹوٹنے کے قریب تھی۔ ایسے میں ایک نوجوان، ناتجربہ کار، مگر فولادی ارادے والی خاتون سیاست میں اتری جو واقعی ”بے نظیر“ بن گئیں،،، وہ کسی تیار شدہ سیاسی ماحول میں نہیں آئیں۔ وہ جیلوں سے، نظربندیوں سے اور قبرِ والد سے سیاست میں داخل ہوئیں۔ جنرل ضیاءکا پورا ریاستی نظام، فوج، خفیہ ادارے اور عدلیہ ایک طرف تھے، اور ایک لڑکی دوسری طرف۔ مگر اسی لڑکی نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے مرد سیاست دان نہ کر سکے۔ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کو صرف زندہ نہیں رکھا بلکہ انہوں نے اسے تحریک بنایا۔انہوں نے پارٹی کو دوبارہ گلیوں، کالجوں، کسانوں، مزدوروں اور خواتین سے جوڑا۔ وہ ہر گرفتاری کے بعد مزید طاقتور ہو کر نکلتیں۔ ہر جلسہ ان کے لیے زندگی اور موت کا معرکہ ہوتا۔ ضیاءآمریت کے لیے بے نظیر صرف ایک سیاستدان نہیں تھیں، بلکہ ایک خوف بن چکی تھیں۔1986 میں ان کی وطن واپسی پر لاہور کی سڑکیں گواہ ہیں کہ ایک جماعت کو کس طرح عوام نے اپنی بانہوں میں اٹھایا۔ وہ استقبال نہیں تھا، وہ ایک عوامی ریفرنڈم تھا۔بے نظیر نے پیپلز پارٹی کو صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی جواز دیا۔ وہ بھٹو کی وارث ضرور تھیں، مگر انہوں نے خود کو عوام کے سامنے لڑ کر منوایا۔ انہوں نے جمہوریت کی قیمت جیل، تنہائی اور جان کے خطرے کی صورت میں ادا کی۔ انہوں نے ایک ٹوٹی ہوئی، خوف زدہ جماعت کو ایک بار پھر یہ یقین دیا کہ ”طاقت بندوق سے نہیں، عوام سے آتی ہے۔“جب وہ 1988 میں وزیراعظم بنیں تو یہ صرف ایک حکومت نہیں تھی، یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک آمریت کو ایک عورت بھی شکست دے سکتی ہے، اگر اس کے پیچھے عوام ہوں۔ انہوں نے آج کے برعکس پارٹی کو اقتدار نہیں، وقار دیا۔اور تاریخ میں صرف اقتدار نہیں، وقار ہی زندہ رہتا ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ اُن سے بہت غلطیاں بھی ہوئیں مگر اُنہوں نے غلطیوں سے ناصرف سیکھا بلکہ بہترین حکمت عملی بھی اختیار کیے رکھی۔ جیسے 1988ءکا الیکشن جیسے ہی آیا محترمہ اپنے تمام تروعدے بھول گئیں، اور فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں آگئیں، اُنہوں نے امیر، برادری والے اور مضبوط اُمیدوار تلاش کیے ،محترمہ نے اس دوران کسی کی پرواہ نہیں کہ کس کس نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، کس کس نے کوڑے کھائے اور کون کون جیلیں کاٹتا رہا، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ 1988ءمیں پیپلزپارٹی کا ورکر پہلی مرتبہ Damage ہوا، تو اس میں کوئی دو آراءنہیںہیں۔پھر 90کی دہائی میں نواز شریف کی حکومت کے دوران اُن پر مقدمات بھی بنے لیکن وہ ثابت قدم رہیں۔ پھر مشرف حکومت کے دوران انہوں نے ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جس جرا¿ت مندی کا مظاہرہ کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن اُن سے یہاں ایک غلطی ضرور ہوئی کہ انہوں نے مشرف کو اقتدار سے نکالنے کے لیے عالمی طاقتوں کا ساتھ ملایا اور نواز شریف کو بھی ملک میں بلا لیا جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ پھر محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور 2008ءمیں پیپلزپارٹی کو حکومت مل گئی۔ جس کے بعد بظاہر تو یہی لگا کہ یہ وہ پیپلزپارٹی نہیں ہے جو محترم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تھی۔ میں تو یہی کہوں گا کہ بی بی کے بعد پیپلزپارٹی کو جب جب عوام میں آنے کا موقع ملا، اُس نے اختیارات کے غلط استعمال کی دھجیاں اُڑائیں۔نہیں یقین تو حالیہ 26ویں، 27ویں ترامیم کو دیکھ لیں۔ اپنے کیسز ختم کروانے کے لیے تمام اختیارات ن لیگ کے حوالے کر دیے۔ پھر یہی نہیں بلکہ جب 2008ءمیں زرداری صاحب کو حکومت ملی تو انہوں نے خود پنجاب کو ن لیگ کے حوالے کر دیا۔ حالانکہ یہ ق لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا سکتے تھے۔ لیکن یہ لوگ مل جل کر کھانے کے عادی ہوگئے۔ جس کا فائدہ تحریک انصاف نے اُٹھایا اور دونوں پارٹیوں کا چاروں صوبوں میں صفایا کر دیا۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ بی بی کے بعد پیپلزپارٹی دراصل ”مفاد پرست پارٹی“ بن کر رہ گئی۔ جو صرف اپنے چند فوائد حاصل کر کے ملک کو داﺅ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ بلکہ دوران حکومت اپنی تمام تر توانائیاں یا تو کمیشن وصول کرنے میں خرچ کر تی ہے یا اپنے کیسز ختم کروانے میں۔ آپ کو اس حوالے سے بھی یاد کروا دوں کہ پیپلزپارٹی کے 2008سے 2013ءکے دور میں پیپلزپارٹی نے اپنا ایک وزیر اعظم بھی اسی چکر میں گنوا دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سوئٹزر لینڈ کو خط نہیں لکھا ۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ وہی خط تھا جس کی تاریخ کے مطابق اُس وقت الزام تھا کہ آصف زرداری نے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں کروڑوں غیر قانونی ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ خیر پیپلزپارٹی کی اب پوزیشن یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا حصہ بننے اور منتخب حکومت کو گھر بھیج کر اپنی پوزیشن کو پی پی نے خود ہی خراب کر لیا ہوا ہے۔ آج پیپلزپارٹی جو ہر سازش کا حصہ بن رہی ہے،،، اس پر یقینا بے نظیر شہید سوچتی ہوں گی کہ وہ اقتدار کن لوگوں کے ہاتھ میں دے آئی ہیں۔ خیر قصہ مختصر کہ کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی دو طرح کی رہی ہے، جب پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جب یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مفاد پرست آجاتے ہیں، تبھی یہ پارٹی آج ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، لہٰذااگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو یقینا وہ مزید پالش ہو چکی ہوتیں، اُن میں نکھار آچکا ہوتا، لیکن اب محترمہ نہیں ہیں تو پیپلزپارٹی کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور عوام کی اُمنگوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ ورنہ صوبہ سندھ بھی اُن کے ہاتھ سے جانے میں دیر نہیں لگے گی!