آپ سیاستدانوں کو اقتدار میں نہ لایا کریں!

جب سے ہوش سنبھالا ہے ، ہماری سیاسی زندگی میں تماشے ہی لگے رہتے ہیں۔ آج کل بھی ایک شخص اور اُس کی پارٹی اغلوں کے لیے ”درد سر“ بنی ہوئی ہے،،، انہوں نے اس مذکورہ شخصیت کے خلاف پریس کانفرنس کیا کی پورا سوشل میڈیا، عوام، دانشور اور دیگر حلقے برسر اقتدار حکمرانوں کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں،،، حالانکہ اس سے پہلے تمام احتیاط کر لی گئی تھیں،،، قوانین میں ناقابلِ تصور تبدیلیاں بھی کر دی گئی تھیں،،، ایسے میں تو اعتماد بڑھنا چاہیے،،، چھوٹی موٹی چیزوں کا پریشر ذہن پر سوار نہیں رہنا چاہیے،،، لیکن یہاں ایک عجیب سی گھبراہٹ نظر آتی ہے۔ تبھی سیاسی حالات ہیں کہ نارمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے،،، فیصلہ کرنے والی قوتیں ایک مسئلہ ختم کرتی ہیں تو دوسراُٹھا لیتا ہے،،، لیکن اس میں قصور صرف سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ مقتدرہ بھی اس میں برابر کی شریک ہے،،، کہ سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضور ! آپ یونیفارم پہنتے وقت اس چیز کا حلف لیتے ہیں کہ آپ سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے،،، مگر پھر آپ کسی نہ کسی کو گود میں بٹھا کر اقتدار میں لے آتے ہیں،،، پھر سارے مسائل اسی سے پیدا ہوتے ہیں،،،کیوں کہ اسی سے آپ کا اختلاف ہوجاتا ہے،،،اور پھر وہ غدار قرار دیا جاتا ہے،،، جیسے آپ نے وطن عزیز کے جینئن سیاستدانوں کو غدار کہا ، جن میں محترمہ فاطمہ جناح ، جی ایم سید، عبدالولی خان، عبدالغفار خان، لیاقت علی خان، شیخ مجیب الرحمن، ڈاکٹر عبدالقدیر، اکبر بگٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو، الطاف حسین وغیرہ نمایاں ہیں۔ اور ان سب کے بعد بانی تحریک انصاف عمران خان بھی غدار کہلانے لگ گئے ہیں،،، جس کے بعد اب آپ کی صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ساری زندگی ہمیں اس بات کا درس دینے والے کہ فوج ہے تو ملک ہے، سب کچھ ہے،،، آپ فوج کے بغیر اس خطے میں Surviveنہیں کر سکتے،،، وغیرہ جیسی باتیں کرنے والے سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی جنہوں نے ساری زندگی آپ کی صحافت کی،،، وہ بھی حالیہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی کانفرنس کے بعد پھٹ پڑے ہیں،،، کہ کروڑوں لوگ جس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ غدار ہوجاتا ہے۔ اس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہوجاتا ہے، یہ کیسا ملک ہے کہ اکثریت سے ملک کو خطرہ ہوتا ہے، یہ تماشا ختم ہونا چاہیئے! مطلب! آپ آج تک کسی سیاستدان کے ساتھ بھی کمفرٹ زون میں نہیں رہے،،، حالانکہ سبھی کو آپ خود لے کر آئے ہیں،،، بھٹو سے لیکر آج تک ،،، لیکن پھر بھی آپ کی کسی سے نہیں بنی،،،، کتنی مرتبہ آپ نے بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کو بدلا، محمد خان جونیجو کو آپ نے نکالا ، ظفر اللہ جمالی کو آپ نے نکالا، عمران خان کو آپ نے نکالا،،، آپ کسی ایک سیاستدان کا نام بتائیں جس سے آپ Comfirtableہیں؟ اور اس حکومت میں جو تاریخ کی چپکو ترین حکومت ہے،،، جس نے ”جی حضوری“ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں،،، اُس سے بھی لگتا ہے آپ کی نہیں بن رہی،،، اگر معاملات ٹھیک ہوتے تو کبھی نوٹیفکیشن میں اتنی دیر نہ لگتی۔ لہٰذاآپ سیاستدانوں کو اقتدار میں نہ لایا کریں،،، یہ عوام کا کام ہے،،، اُنہی پر چھوڑ دیں،،، اگر آپ حد سے تجاوز کریں گے تو پھر معاملات خراب ہوں گے۔ اس لیے میرے خیال میں اب خدا کا خوف کریں، عوام کے حال پر رحم کریں، اُنہیں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے دیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ ملک کو کچھ ہو جائے گا تومعاف کیجئے گا ،،، ملک کو کچھ نہیں ہوگا،،، ملک صرف آپ کا مرہون منت نہیں ہے،،، ملک کو صرف فوج نہیں بچاتی،،، ملک کو عوام بھی بچاتے ہیں،،، اگر ملک کو فوج بچاتی تو بنگلہ دیش ہم سے الگ نہ ہوتا،،، بلوچستان میں حالات آج اس قسم کے نہ ہوتے،، آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے کے پی کے،،، گلگت، آزاد کشمیر میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے،،، لہٰذاعوام کو اپنے نمائندے لانے دیں،،، عوام جو بوئے گی وہ کاٹ بھی لے گی،،، وہ اچھے حکمران لائیں یا برے،،، آپ کون ہیں ، بیچ میں دخل اندازی کرنے والے۔۔۔ آپ خود اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہیں،،، اور ملک میں برا ہوتا ہی تب ہے جب آپ حد سے تجاوز کرتے ہیں،،، اس وقت 20سے زائد محکموں پر آپ نے اپنے حاضر سروس افسران بٹھائے ہوئے ہیں،،، آپ 50سے زائد کاروبار کر رہے ہیں،،، آپ سویلین کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں،،، تو بتائیں کہ حد سے تجاوز کون کر رہا ہے؟ عمران خان کی جب حکومت تھی تب مریم نوا ز کہا کرتی تھیں کہ اسلام آباد کو ایک کرنل چلا رہا ہے،،، خوش آپ تب بھی نہیں ہوئے تھے،،، اور آپ کی آج تک بنی کس سے ہے؟ اور پھر یہی وجہ ہے کہ آپ جتنا مرضی اچھا کام کر لیں شام تک وہ سوشل میڈیا پر اس برے انداز میں پٹ جاتا ہے، کہ ان کی راتوں کی نیندیں اُڑی رہتی ہیں،،، حالانکہ بھارت کے ساتھ جنگ میں پاکستانی ہوائی افواج کی بہادری کے چرچوں کا ذکر عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے،،، جس سے پاکستان کا تشخص بہتر ہوا ہے،،، پھر امریکا میں پاکستانی فوج کے چرچے عام ہیں،،، اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت پاکستان امریکا کی آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے تو اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے،، پھر پاکستان کے چین کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں،،، پھر سعودیہ، عرب امارات ، روس الغرض تمام بڑے ممالک کے ساتھ اس وقت پاکستان کے مثالی تعلقات قائم ہیں ،،، لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ یہ سب کچھ عوام کی نظر میں زیرو ہے،،، اگر عوام کی نظر میں زیرو ہے تو پھر آپ چاہے سونے کے بن کے آجائیں ،،، آپ صفر ہی رہیں گے،،، اور اندر ہی اندر ان فیصلہ کرنے والوں کو صرف ایک یہی پریشانی لاحق ہے، کہ وہ کوئی بھی اچھا کام کیوں نہ کر لیں مگر دن ڈھلنے تک اُس کا سارا اثر اُس کی مخالفت میں نکل جاتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت اس کا توڑ نکالنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی،،، بلکہ انہوں نے چین سے فائر وال بھی منگوا کر دیکھ لی، وی لاگرز، یوٹیوبر اور صحافیوں کو سزائیں بھی دے کر دیکھ لیں،،، اُنہیں جیلوں میں بند کر کے بھی دیکھ لیا،ظلم کر کے دیکھ لیا، سوشل میڈیا پر جزوی پابندیاں بھی لگا کر دیکھ لیں ، مگر مجال ہے کہ ان کا زور ٹوٹا ہو،،، اور پھر کم از کم یہ ضرور دیکھیں کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بیٹھا کہاں ہے اور اُس کے اور اُس کی جماعت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بس یہ تکرار کہ وہ ذہنی مریض ہے۔آئین و قانون کا سب اہتمام ہو گیا اور مرضی کی شقیں ڈال دی گئیں۔ دیکھنے والا سمجھے کہ اب تو کوئی فکر یا پریشانی کی گنجائش نہیں رہی اوریہاں دنیا کے سامنے ببانگ دہل مسئلہ بالکل اُلٹا کہ اضطراب کی ایسی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جس کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا۔ کہنا یہ ہے کہ وہ ذہنی مریض دشمن کا بیانیہ بنا رہا ہے۔ جیل کا کوئی ذکر نہیں سلاخوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں۔ دو سال سے زائد عرصے سے آزادی سے محروم ہے۔ میڈیا سے کوئی رابطہ نہیں‘ ٹی وی چینلوں پر اُس کے نام اور ذکر پر قدغنیں‘ انٹرنیٹ کے گرد فائر وال کا اہتمام‘ جماعت زیر عتاب، بے شمار اُس کے نمائندے اور لیڈر زیر حراست ہیں۔ کہیں عرصے بعد کوئی ٹویٹ اُس کی آ جاتی ہے تو مطلب اُس کا یہ نکلتا ہے کہ ریاست کا تمام زور اور تمام اختیارات ایک طرف اور ایک ٹویٹ آ جائے تو اس پر بے چینی کا یہ عالم کہ ذہنی مریض نے یہ کیا کردیا۔ اتنے جبر کے بعد دریاﺅں کارُخ تبدیل ہو جاتا اور پتھر پگھل جاتے پر یہاں ایک آدھ ٹویٹ اور میڈیا میں چھوٹا موٹا بیان ایسی کیفیت پیدا کردیتا ہے جو کم از کم ہم جیسے کم عقل والوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ حضورِ والا اتنا تو دیکھا جائے کہ اس سے کیا تاثر قائم ہوگا۔ اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ عرصہ دراز سے قیدِتنہائی کے باوجود مقید شخص کے الفاظ میں اتنی قوت ہے کہ باہر بیٹھے لوگوں کے لیے پریشانی کی ایک گہری صورتحال پیدا ہو جائے۔ سرکارکے کاسہ لیس تو یہ راگ الاپ رہے تھے کہ قیدی کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ گھبراہٹ کے عالم میں گرفتار ہے۔ اس بات پر پریشان ہے کہ اُس کی جماعت موثر احتجاج نہیں کر سکی۔لگتا یوں تھا کہ سرکارکی جانب جھکاﺅ رکھنے والے ایسے شوشے چھوڑنے میں مصروف ہیں کہ قیدی نمبر فلاں فلاں ٹوٹا تو نہیں لیکن ٹوٹنے کے قریب پہنچنے والا ہے۔ قوم کو جو ذہنی مریض کی نوید سنائی گئی ہے اس سے تو بالکل دوسرا تاثر ابھرتاہے۔ اتنا تو پھر ثابت ہو گیا کہ جبر کی تمام داستانیں رائیگاں ثابت ہورہی ہیں۔ اقتدار سے محرومی‘ زیر عتاب ہونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘ قومی انتخابات کا فارم 47 کے کرشمات کی نذر ہونا، لیڈر کی قیدِ تنہائی اور ملاقاتوں کے سامنے رکاوٹیں اور پابندیاں لیکن پھر بھی مقصد حاصل نہ ہوا۔شیکسپیئر کے لازوال ڈرامے 'میک بیتھ‘ کا وہ کیا مرکزی سین ہے کہ میک بیتھ مخالفین کا صفایا کرکے بیگم کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھا ہے اور بینکو (Banquo) کا بھوت میز کی دوسری طرف آن بیٹھتا ہے اور میک بیتھ خوف میں مبتلا ہو جاتاہے۔ صدر ٹرمپ کی تھپکیوں کی اپنی اہمیت ہوگی مگر پاکستان کے غریب عوام نے ا±ن تھپکیوں سے کیا لینا ہے؟ بلوچستا ن کے عوام کو سیندک کے تانبے کے ذخیروں اور ریکودِ ک کے سونے کے ذخائر سے کیا ملنے کی توقع ہے کہ کوئی امید لگائے بیٹھے کہ نادر معدنیات کے ممکنہ معاہدوں سے ہماری کایا پلٹ جائے گی۔ضمنی انتخابات حکومتی نمائندے جیت رہے ہیں اور پریشانی بھی سرکاری حلقوں کو لگی ہوئی ہے۔ اشتہاربازی اور شعبدہ بازی پہ کام چلتا تو وطنِ عزیز ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہوتا۔ یہاں لاچار طبقات کے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں اور عوام کو کھوکھلے بیرونی معاہدوں کے سہانے سپنے سنائے جا رہے ہیں۔ پریشانی کے عالم سے البتہ اتنا پتا چلتا ہے کہ جو اندرونی سیاسی جنگ جاری ہے ‘ جس کو سرکار اپنی مرضی اور منشا کے مطابق حل نہیں کر پا رہی‘ کا کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ضیا اور بھٹو کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا تھا ‘موجودہ کشمکش میں بھی آر ہے یا پار۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے،،، کیوں کہ یہ جو سیاسی قیدی ہیں، یہ آج کے قیدی اور کل کے ہیرو ہیں، انہیں نیلسن منڈیلا نہ بنائیں، انہیں رہا کریں،،، ملک کا ایک اچھا سیاسی امیج بھی دنیا کو دکھائیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہارے ہوئے لوگ ہیں،،، چلیں آپ لوگوں کو چھوڑیں اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کریں گے کہ آپ کا بیانیہ عوام میں مکمل طور پر پٹ چکا ہے،،، اور وہ کسی طرح بھی آپ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں!