آزاد کشمیر کے ساتھ تو ایسا نہ کریں!

ایک تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں کوئی بھی پرامن احتجاج کے لیے نکلتا ہے، حکومت سے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کے لیے نکلتا ہے یا حکومت کی کسی پالیسی سے اختلاف کرتا ہے تو ہم سب سے پہلے اُسے سیاست زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،،، پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ احتجاج کرنے والا اپوزیشن کا نمائندہ ہے یا یہ تحریک انصاف کی سازش ہے،،، جب ان سب چیزوں پر عوام اعتبار نہیں کرتے تو انہیں رام کرنے کے لیے یہ بیانیہ جاری کرتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے کی ڈوریں بھارت سے ہلائی جا رہی ہیں،،، پھر بھارت کے نام پر تو ہماری ”حب الوطنی“اچھی خاصی جوش مارتی ہے،،، اور ہمیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن بہت سے کیسز میں حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے،،، آپ آزاد کشمیر ہی کو دیکھ لیں جہاں پرامن احتجاج پرتشدد احتجاج میں بدل گیا،،، اور پھر حکمرانوں کو ہوش آیا کہ مذاکرات کرنے چاہیے،،، ورنہ تو وزیرا عظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق وہاں پر احتجاج کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کو تو کسی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہ تھے،، لیکن جیسے ہی احتجاج نے تشدد کی راہ لی تو فوراََ ہیلی کاپٹر کے ذریعے مذاکراتی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد سے کشمیر روانہ ہوگئے،،، اور پھر وہاں کے عوام (خاکم بدہن) قطعاََ یہ نہیں کہہ رہے کہ اُنہیں الگ آزاد ریاست دی جائے ،،، جس طرح بھارت میں بہت سے تحریکیں جنم لیے ہوئے ہیں کہ اُنہیں آزاد ریاست کا اسٹیٹس دیا جائے،،، کشمیر میں ایسا بالکل نہیں ہورہا،،، وہاں کے عوام کے بنیادی معاملات ماسوائے اکا دکا کے معمولی نوعیت کے ہیں،،، جنہیں بھارت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے،،، جن کا ذکر تو میں بعد میں کروں گا مگر حکمرانوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہاں خیبر پختونخوا، بلوچستان یا سندھ میں حالات ٹھیک ہیں، جو ہم نے کشمیر کا چیپٹر بھی کھول لیا ہے،،، کیا پرامن احتجاج عوام کا بنیادی حق نہیں ہے؟ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ کشمیر جیسا حساس ترین علاقہ کسی نئی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا؟ کیا آپ کے علم میں یہ بھی نہیں ہے کہ مرکز کے Ignoranceکی وجہ سے چند شرپسندوں نے قومیت و علاقائیت کی آگ زیادہ بڑھکا لی تو بجھانا مشکل ہو سکتا ہے۔کیا آپ کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کو آزادکرانے کے لیے پاک فوج پانچ سے زائد چھوٹی و بڑی جنگیں لڑ چکی۔ اِس دوران پاکستان دولخت ہو گیا مگر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت پر ثابت قدم ہے جس سے پریشان بھارت اب ریشہ دوانیوں پر اُتر آیا ہے۔تو کیا آپ اپنے لوگوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے آگ کو خطے میں آگ لگانا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آزاد کشمیر میں سیاسی عدمِ استحکام ہو یا بدامنی، دونوں صورتیں بھارت کے لیے پسندیدہ ہیں؟ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آزادکشمیر میں خود نمائی کی بیماری کا شکار عناصر دانستہ یا نا دانستہ طور پر بھارتی بیانیہ مضبوط کر رہے ہیں!اگر آج پاکستان کے کشمیر میں بھی پہیہ جام، شٹرڈاﺅن یا احتجاجی ریلیوں سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گا تو ارباب اختیار بتائیں کہ مقبوضہ کشمیر اور ہمارے کشمیر میں کیا فرق رہ جائے گا؟پھر کیا یہ بیانیہ نہیں بنے گا کہ جب پاکستان سے آزاد کشمیر ہی سنبھالا نہیں جا رہا تو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کیسے سنبھال سکتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر کیا اس مسئلے کو بڑھنے سے پہلے روکا نہیں جا سکتا تھا؟ خیر آپ کشمیریوں کے مطالبات کو دیکھ لیں کہ وہ کس نوعیت کے ہیں پھر ہم آگے چلتے ہیں اور فیصلہ کریں کہ آیا ان مطالبات کا تعلق براہ راست عوام سے ہے،،، یا واقعی بھارت سے ہے۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 38 نکات پر مشتمل ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ میں جو مطالبات شامل ہیں ان میں پہلا مطالبہ وہی مطالبہ ہے جو پاکستان کے 25کروڑ عوام کا ہے،،، یعنی حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ۔ حالانکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومتی نمائندوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو حاصل مراعات کا جائزہ لینے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا، لیکن 15 ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مراعات کے فوری خاتمے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں فوری قانون سازی کی جائے۔ اور حکومتی کابینہ سے وزرا کی تعداد کم کی جائے تاکہ خزانے پر بوجھ کو کم کیا جا سکے، نیز مشیران اور پی آر اوز وغیرہ کے نام پر سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ مظاہرین کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم ”مہاجرینِ کشمیر“ کے نام پر اسمبلی نشستوں کا خاتمہ کیا جائے۔ اُن کے مطابق یہ سیٹیں اشرافیہ کی سیٹیں ہیں،،، جنہیں حکومت بنانے اور ختم کرنے کے لیے وفاق استعمال کرتا ہے۔ یعنی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا الزام ہے کہ مقامی وسائل کے بے دریغ ضیاع میں مہاجرین کے نام پر پاکستان میں موجود 12 حلقوں کا ایک بڑا کردار ہے۔اور انہی حلقوں کے ذریعے آزاد کشمیر کے ترقیاتی فنڈز ریاست باہر غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی انداز میں باہر منتقل کیے جاتے ہیں۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ آٹھ دسمبر 2024 کو ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان ہونے والے تحریری معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ 90 دن کے اندر درج کیے گئے تمام مقدمات ختم کیے جائیں گئے لیکن تاحال مقدمات منسوخ نہیں کیے گئے۔کیا یہ بات بھی بھارت نے کہی کہ ان کے مقدمات ختم نہ کیے جائیں! پھر چوتھے مطالبے پر آجائیں جس کے مطابق مفت علاج اور مفت تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے،،، یعنی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھر کے تمام ضلعی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں، دیہی ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹرز اور عملے کی ضرورت فوری طور پر پوری کی جائے۔ہر ہسپتال میں لیبارٹریز قائم کی جائیں تاکہ مرض کی تشخیص با آسانی ہو سکے، مریضوں کو فری ادویات اور فری ٹیسٹنگ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ تمام ہسپتالوں میں اوپی ڈی کا دورانیہ 24 گھنٹے رکھا جائے۔اس کے علاوہ ہر شہری کی تعلیم کا حق تسلیم کرتے ہوئے سب کو فری اور یکساں تعلیم دی جائے،،، وغیرہ ۔ پھر دیگر مطالبات میں آزاد کشمیر میں انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا قیام، اور یہ مطالبہ بھی نیا نہیں بلکہ صرف پہلے سے اعلان کردہ ”میر پور انٹرنیشنل ائیرپورٹ “ کے اعلان کو عملی جامہ پہنانا ہے،،، پھر ایک اور مطالبہ ہے کہ کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے،،، یعنی کشمیری کہتے ہیں کہ 1947 سے پاکستان میں رہنے والے کشمیری مہاجرین کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری نوکریوں میں کوٹہ یہاں بسنے والے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس لیے اس کوٹے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ میں آپ کو یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ اُسی قسم کا کوٹہ سسٹم ہے جو بنگلہ دیش میں انقلاب کا باعث بنا۔ اور وہاں کے نوجوانوں میں غم و غصے کا باعث بنا۔ ان کے علاوہ مطالبات یہ ہیں کہ کشمیر میں سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے،،، اور ایکسپائرڈ گندم فراہم کرنے سے باز رہا جائے،،، کیوں کہ فلور ملز میں ایسی ناقص گندم کی موجودگی ثابت ہوئی ہے جو کہ انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترداف ہے۔مزید یہ کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود تمام گرڈ سٹیشنز کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان کے بجائے مقامی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات میں سرکاری محکموں میں رشوت، کرپشن اور سفارشی کلچر کا خاتمے اور اصلاحات بھی شامل ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”ایسے تمام غیر ضروری محکمہ جات کو ختم کیا جائے جو ریاست کے خزانے پر بلا وجہ بوجھ ہیں۔“اس کے علاوہ حکومت کو دیے گئے مطالبات کی فہرست میں نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، روز گار کی فراہمی یا بے روزگاری الاو¿نس، ٹیکس میں چھوٹ، پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکسز اور فیسوں میں کمی، معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ، عدلیہ میں اصلاحات، بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات، طلبہ یو نین کے انتخابات، پی ایس سی کے امتحانات کا انعقاد، ایڈہاک تقرریاں بند کرنے، تاجروں کو تحفظ کی فراہمی، کم از کم اجرت ماہانہ 50 ہزار روپے مقرر کرنے اور سینٹری ورکرز کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کر کے مالکانہ حقوق دیے جانا شامل ہیں۔ اب ان مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا جائے کہ ان میں سے کونسا مطالبہ بھارت کے ساتھ منسلک ہے،،، یا جس کا بھارت کو فائدہ ہوگا۔۔۔ چلیں یہ بات بھی مان لی جائے کہ پرتشدد احتجاج کو ہوا دینے میں بھارت کا کردار ہو سکتا ہے،،، وہ تو دشمن ہے،،، اُس کا کام ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے،،، مگر ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم کیوں موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہر چیز کو بزور طاقت روکا جائے ،،، یا جس طرح تحریک انصاف کے کارکنان پر جھوٹے مقدمے دائر کیے گئے،،، یہ فارمولا دیگر تنظیموں پر بھی لاگو کیا جائے؟ ایسا کرنے سے معاملات حل ہو جائیں گے؟ بادی النظر میں اسلام آباد سے پولیس اہلکاروں کو کشمیر میں احتجاج کو کچلنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس جگ ہنسائی کا ذمہ دار کون ہے؟ اور پھر اب بھی تو آپ جوق در جوق کشمیر جا رہے ہیں،،، کہ کسی طرح مذاکرات کو کامیاب بنایا جائے،،، تو یہ کام پہلے کیوں نہ کیا گیا؟ لہٰذاخدا کا خوف کریں اور کشمیر کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں،،، ورنہ پچھتائیں گے،،، کیوں کہ دشمن ابھی تک اپنی شکست نہیں بھولا اور وہ اسی تاک میں ہے کہ کب پاکستان کے حالات خراب ہوں،،، اور کب وہ اس میں اپنا حصہ ڈالے! بہرکیف آزادکشمیر میں عدمِ استحکام اِس لیے بھی ناقابل قبول ہے کہ ہم پہلے ہی بیسیوں مسئلوں میں اُلجھے ہوئے ہیں،،، لہٰذاآپ اس خطے کو مراعات دے کر یا بجلی کے نرخ کم کرکے یہ احسان نہ کریں کہ آزاد کشمیر میں بجلی اور آٹے کے نرخ پورے ملک سے کم ہیں،،، بلکہ ان کو ماضی کی طرح سپیشل ٹریٹ کریں،،، اور انہیں دی جانے والی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ یہ بات ہرگز نہ بھولیں کہ بھارتی بھیڑیے مسلسل اِس تاک میں ہیں کہ آزاد کشمیر کو ہڑپ کر لیں اِس لیے اشرافیہ اپنے محدود مفاد کے لیے آزاد خطہ کو سیاسی عدمِ استحکام کی پاتال میں دھکیلنے سے گریز کریں کہ اس سے نقصان صرف پاکستان ہی کا ہوگا!