ملائیشین ماڈل ضرور اپنائیں ، مگر صحیح قیادت کا بھی انتخاب بھی کریں !

اس وقت وطن عزیز میں ہر چیز سے سختی سے نمٹا جا رہا ہے، کہیں کسی پارٹی کو احتجاج نہیں کرنے دیا جا رہا ، کہیں کوئی پارٹی خاص طور پر اپوزیشن پارٹیاں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں،،، میڈیا کے ادارے اور صحافیوں کو زور زبردستی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے، صحافیوں پر پابندیوں سے بین الاقوامی ادارے بھی چیخ اُٹھے ہیں مگر حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، سیاسی و مذہبی جماعتوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں،،، سیاسی کارکنوں پر تاریخ کا بدترین تشدد کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اُن پر ایسے ایسے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں کہ جس سے اُن کے خاندان پر بھی اثر پڑے۔ آپ عدلیہ دیکھ لیں،،، کہیں چین نہیں ہے،،، الیکشن کمیشن تو ویسے ہی ان کا اپنا ادارہ بن گیا ہے۔ الغرض ریاستی ادارے سب کے ساتھ سختی سے یا” حکمت عملی“ سے اپنے مطابق چلانے کی کی کوشش کر رہے ہیں،،، اور اس کے لیے کسی بھی جگہ زور زبردستی سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ۔ آپ سانحہ مریدکے کی مثال لے لیں،،، جس کے بارے میں کوئی کہہ رہا ہے،،،ریاستی اداروں کے ہاتھوں ایک ہزار بندہ مارا گیا، کوئی پانچ سو کا Figureدے رہا ہے، کوئی دو سو کا تو کوئی پچاس کا،،، جبکہ سرکار اور میڈیا اس حوالے سے مکمل خاموش ہے،،، بالکل ایسے ہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ چلیں آپ دستیاب ویڈیوز اور اعداد و شمار کی روشنی میں ہی فیصلہ کریں تو کم و بیش دس بیس بندہ تو مارا ہی گیا ہوگا،،، چلیں آپ وہ بھی چھوڑ دیں،،، اور مان لیں کہ وہاں پر صرف ایک ایس ایچ او نے جام شہادت نوش کیا لیکن بقول ڈی آئی جی آپریشن کہ کہیں کہیں ہمیںمظاہرین کے ساتھ ”دوسرے“ طریقے سے بھی نمٹنا پڑا ۔ مطلب سیدھی گولی چلائی گئی۔۔۔ ریاست بتائے کہ اپنی قوم پر سیدھی گولیاں کون چلاتا ہے؟ کیا ہماری فورسز بارڈر پر کھڑی ہیں؟ جو دشمن پر سیدھے فائر کر رہی ہیں۔ خیر اب اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ ریاست ہر کسی سے سختی سے نمٹنے کا فارمولا بنائے بیٹھی ہے۔۔۔ اور اس پر عمل درآمد بھی کر رہی ہے،،، میرے نزدیک یہ ماڈل ملائیشین ماڈل ہے، اگر اس ماڈل کا سرسری جائزہ لیا جائے تو جب 1981ءمیں مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالا تو ساتھ ہی وہ سخت گیر لیڈر بن گئے۔ داخلی سیکیورٹی ایکٹ کے تحت انہوں نے اپوزیشن کے کئی لیڈروں کو جیل میں ڈالا۔ اپنے نائب وزیرِاعظم انور ابراہیم کو برطرف کرکے انہیں کرپشن اور جنسی جرائم کے الزام میں جیل بھجوایا۔ مہاتیر نے پہلے دورِ اقتدار میں صحافیوں پر بھی سختی برتی، حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات بند کئے، عدالتوں کے اختیارات پر بھی قدغن لگائی، کئی ججوں کو برطرف کیا۔ مہاتیر محمد نے صرف اندرونی طور پر ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی سخت گیر رہنما کا رویہ رکھا۔ لیکن یہ ساری سختیاں اُنہوں نے اُس وقت کیں،،، جب خود ایمانداری کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ یعنی ڈاکٹر مہاتیر محمد چونکہ ایماندار تھے، اور ”قانون کی حکمرانی“ اور ”ریاستی نظم و ضبط“ کو اپنی پالیسی کا مرکز سمجھتے تھے۔اس لیے اُن پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا رہا تھا کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں وغیرہ ....خیر اس حوالے سے تو بعد میں بات کرتا ہوں لیکن پاکستان پر ملائیشین ماڈل کا پاکستان میں استعمال کرنے والے شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ یہ اُسی صورت کامیاب ہوگا جب اوپر قیادت ”رول آف لاء“ پر یقین رکھے گی۔یہاں تو مذکورہ ماڈل کے برعکس رول آف لاءExist ہی نہیں کر رہا۔ تو ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں ہوگا کہ یہ آپ کے گلے بھی پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ قوم پر اجتماعی سختی ہمیشہ انقلاب کو جنم دیتی ہے۔ اور رہی بات مہاتیر محمد کی تو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے موجودہ حکمرانوں کی طرح اقتدار میں 30، 35سال کرپشن کرکے نہیں آئے تھے۔ بلکہ بالکل فریش تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے اینٹی کرپشن ایجنسی (ACA) کو مضبوط کیا ، وزیروں اور سرکاری افسروں کو ‘اپنے ایسٹس ڈکلیئر کرنے کا پابند کیا۔ اپنے ہی اتحادیوں پر بھی کارروائی کی ،، انہوں نے واضح پیغام دیا کہ ”دوستی یا عہدہ نہیں دیکھوں گا، قانون سب پر لاگو ہوگا۔“ادارے بتائیں کہ کیا انہوں نے بیوروکریسی پر سختیاں نہیں کی تھیں؟ ملائشیا میں کام میں تاخیر یا لاپرواہی پر سخت کارروائی کی جاتی تھی۔وزارتی میٹنگز میں”وقت پر آنے“ اور”نتیجہ دینے“ کو لازمی قرار دیا۔انہوں نے کام چوری، رشوت یا بدعنوانی کے الزام میں درجنوں افسران معطل کیے ۔انہوں نے کسی کو گریڈ 16سے گریڈ 18یا 19میں براہ راست ترقی نہیں دی تھی،،،بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر پروموشن کا تصور رائج کیا۔جب انہوں نے دیکھا کہ کسی حد تک بیوروکریسی ، عدلیہ اور سیاسی سطح پر کرپشن پر کنٹرول ہو چکا ہے تو اُس کے بعد انہوں نے عوامی سطح پر بھی سختی کی۔ لیکن یہاں سب کچھ اُلٹ ہے،،، یہاں سب سے پہلے عوام پر سختی کردی گئی ہے۔۔۔ اور انہوں نے ایسا بالکل نہیں کیا تھا کہ کسی سانحہ 9مئی کا انتظار کیا، پھر مقدمات درج کرکے لوگوں کو غائب کر دیا،،، بلکہ عوام سے ٹریفک قوانین کی سختی سے پابندی کروائی گئی (جرمانے اور سزا دونوں بڑھائے گئے)۔منشیات کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنائی گئی۔ حتیٰ کہ منشیات سمگلنگ پر سزائے موت دی گئیں۔ سکولوں میں نظم و ضبط، یونیفارم، اور سزاو¿ں کا سخت نظام رائج کیا۔شہریوں کو بتایا کہ ”ترقی کے لیے نظم، صفائی، اور قانون کی پابندی لازمی ہے۔“ مہاتیر نے 6سال تک ملک میں سخت ترین ماحول قائم کرکے حالات کو 30فیصد تک بہتر کر لیا۔۔۔ اس دوران اُن پر ایک الزام بھی نہیں لگا کہ انہوں نے کسی پراجیکٹ میں ہیر پھیر کیا ،،، یا کہیں سے کمیشن کھایا یا کہیں بیرون ملک انہوں نے جائیدادیں بنائیں،،، لہٰذااس دوران ملکی صنعت ترقی کرنے لگی۔ اور عوام نے بھی قدرے بہتر محسوس کیا۔ لیکن اس کے برعکس مجھے بتایا جائے کہ یہاں پر آپ کی صنعت ترقی کر رہی ہے؟ کیا آپ کی نظر سے گزشتہ روز کی وہ خبر نہیں گزری جس کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ 34 فیصد بڑھ گیاہے اور برآمدات میں بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔ یعنی خبر کے مطابق پاکستان کی برآمدات رواں سہ ماہی کے ابتدائی تین مہینوں میں 30 کروڑ ڈالر (4 فیصد) کم ہو گئی ہیں، جبکہ درآمدات میں 2 ارب ڈالر (14 فیصد) اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 2.4 ارب ڈالر (34 فیصد) بڑھ گیا ہے، جو ماہرین کے مطابق معیشت کے لیے انتہائی تشویشناک اشارہ ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں آمدنی اور سیلز ٹیکس کی شرح دنیا میں بلند ترین سطح پر ہے جبکہ بجلی اور گیس کے نرخ بھی خطے اور ہم پلہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان بلند لاگتوں کے باعث پاکستانی کمپنیاں عالمی منڈی میں مسابقت برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ بہرحال واپس ملائیشین ماڈل کی طرف آجائیں،،، کہ شروع کے چند سالوں میں معیشت ترقی کر رہی تھی،،، وہ صرف سختی سے نمٹ ہی نہیں رہا تھا بلکہ نہ خود کرپشن کر رہا تھا بلکہ اپنی کابینہ پر بھی پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ لیکن کیا ایسا کچھ یہاں ہے؟ نہیں! بالکل نہیں،،، یہاں پہلے پہلے حکومتی سال میں ایک ایک صوبے پر دس دس کھرب روپے کی کرپشن کی بے ضابطگیاں پائی جا رہی ہیں،،، کیا اس طرف اداروں کا دھیان نہیں جا رہا؟ یا ادارے اپنی تمام تر توانائیاں اڈیالہ جیل پر صرف کیے ہوئے ہیں۔ یا اُن لوگوں کو زدو کوب کرنے پر صرف کر رہے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ اگر آپ مہاتیر محمد کی حکومت کو سٹڈی کرتے ہیں تو اُس میں بھی اُنہوں نے سیاسی مخالفین پر سختی کے لیے 1987ءمیں ”لالنگ آپریشن“ کے ذریعے 100 سے زائد سیاسی رہنماو¿ں، صحافیوں اور کارکنوں کو ”قومی سلامتی“ کے تحت حراست میں لیا تھا۔اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی، مگر مہاتیر کا مو¿قف تھا کہ ”ملک میں انتشار اور نسلی فسادات سے بچانے کے لیے نظم ضروری تھا۔“ خیر عوام اس لیے اس پر خاموش ہو گئے کہ ملک سے کرپشن ختم ہو رہی ہے،،، اور حقیقت میں بھی کرپشن کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی،،، عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد بڑھ رہا تھا، تیز رفتار صنعتی ترقی سے عوام کو روز گار مل رہا تھا۔ ملک میں میرٹ پر بھرتیاں ہو رہی تھیں،،، ایک نعرہ مشہور ہو رہا تھا کہ ”محنت اور ایمانداری سے ترقی ممکن ہے،سفارش سے نہیں“ ۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ملائیشیا کو ایک ”ڈسپلنڈ، صاف، اور ترقی یافتہ ملک“ کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا،،، جبکہ اس کے برعکس بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کا اندازہ اس خبر سے لگا لیں کہ امریکی صحافتی ادارے ڈراپ سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سانحہ مریدکے کو کوریج نہ دینے پر پاکستانی اور عالمی میڈیا پر سنگین سوالات کھڑے کردئیے۔۔اور ہلاک شدگان کے نمبرز جاننے کے حوالے سے آج بھی ابہام پایا جا رہا ہے،،، جسے اگر دور نہ کیا گیاتویہ حکومت کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ بہرکیف مہاتیر محمد کا ”ہر طبقے سے سختی سے نمٹنے“ کا مطلب یہ تھاکہ چاہے سیاست دان ہو، افسر ہو، تاجر ہو یا عام شہری قانون، نظم، اور دیانت کے معاملے میں سب برابر ہیں۔جبکہ موجودہ حکومت صرف اس ایک نکتے پر سختی کر رہی ہے کہ حکومت یا حکومتی ادارے جو کچھ مرضی کریں ،،، مگر سوال پوچھنے والے ، تنقید کرنے والوں کو عبرت کانشان بنا دیا جائے گا۔ آپ یقین مانیں انہوں نے صرف نعرے نہیں لگائے، بلکہ عملی نظام، فوری احتساب، اور نتائج پر مبنی انتظام قائم کیا ۔ اسی وجہ سے ا±نہیں ”ایشین آئرن مین“ یا ”ڈسپلن پرائم منسٹر“ جیسے خطابات سے دنیا نے نوازا۔ جبکہ اس کے برعکس ”آپ “نے جن کو ہم پر مسلط کیا ہے کیا دنیا نے ماسوائے ”کرپٹ سیاستدانوں“ کے کبھی انہیں کسی اور نام سے پکارا؟ یقین مانیں یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ چائنہ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں چینی ماڈل لا رہے ہیں،،،، ملائشیا جاتے ہیں تو کہتے ہیں ملائشین ماڈل لارہے ہیں جبکہ ٹرمپ کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم آپ سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں ، اس لیے پاکستان کو آپ کے ”گورنمنٹ ماڈل“ کی اشد ضرورت ہے! آپ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ ہم پر کون لوگ مسلط ہیں اور ادارے ہم پر کونسا اور کن لوگوں کے ذریعے ”ماڈل “ مسلط کر رہے ہیں! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! آمین