وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی وفاق سے تعاون ضرور کریں مگر کیسے ؟

جیل سے صرف ایک حکم پر وزیر اعلیٰ کے پی کے کو بدل دیا گیا، کے پی اسمبلی سے سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ، اُنہیں 90 اراکین صوبائی اسمبلی نے منتخب کیا۔وفاق اس اہم پیش رفت پر ناراض دکھائی دے رہا ہے،،، تبھی مرکز سے جڑے لوگ نئے وزیر اعلیٰ کی راہ میں رخنے ڈال رہے ہیں،،، کیوں کہ تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ استعفیٰ دے رہا ہے اور اپوزیشن ہیلے بہانوں سے اُس کے استعفے کو نہیں مان رہی ، نہ گورنر مان رہا ہے اور نہ ہی وفاق۔ بلکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللّٰہ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ علی امین کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا، ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرے کا انتخاب نہیں ہو سکتا،،، اس کے لیے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے،،، بندہ پوچھے جس جماعت کا وزیر اعلیٰ ہے، اُس کو نہیں مسئلہ، جو سابق وزیر اعلیٰ ہے، اُس کو نہیں مسئلہ ، کے پی اسمبلی کو نہیں مسئلہ تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ مطلب! پھر یہ لوگ تو خود ہی نشانہ بنتے ہیں کہ یہ لوگ کسی کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ اور پھر یہ لوگ اس کو سیاسی اس لیے بھی بنا رہے ہیں کہ یا بادی النظر میں شاید اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ پرانا وزیر اعلیٰ ان کے ہاتھ میں شاید ”سیٹ “ہو گیا تھا، جبکہ نیا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے کہ ان کو ٹف ٹائم دے اور ان کے کہنے پر نہ چلے اس لیے بھی ان کا شور جائز لگ رہا ہے۔ ویسے غلطی تو ان کی اپنی ہے،،، ابھی صرف سہیل آفریدی کے نام کا ہی اعلان کیا گیا تھا تو ساتھ ہی وفاق نے کے پی کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور دوسری جانب غلطی کے طور پر یا جان بوجھ کر ڈی جی آئی ایس پی آر نے پشاور میں پریس کانفرنس کر ڈالی۔ لیکن خیر اب جب کہ وہ قانونی طور پر وزیر اعلیٰ بن گیا ہے تو اب وفاق کیا کرے گا؟ کیا ماضی قریب کی طرح قانونی موشگافیوں کا سہارا لے گا؟ یا آئین میں نئی ترامیم کروا دے گا؟ یا آخری حل کے طور پر گورنر راج لگا دیا جائے گا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر وفاق نئے وزیر اعلیٰ سے کس منہ سے ڈائیلاگ کرے گا؟ یا کس منہ سے آفیشل بات چیت ہوگی،،، کیوں کہ کئی مرحلوں پر آپ کو ان وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے،،، بات چیت کرنی پڑی ہے تو ایسے میں کیا وفاق بائیکاٹ کر دے گا؟ اور پھرجب وفاق کا رویہ ایسا ہوگا تو پھر وزیر اعلیٰ کے پی کے اُن سے کیوں تعاون کرے گا؟ چلیں ہم یہ نہیں کہتے کہ اُسے وفاق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے،،، بلکہ دینا چاہیے،، صدق دل سے دینا چاہیے،،، لیکن وفاق کو بھی نیک نیتی سے نئے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہم آہنگی سے چلنا چاہیے،،، کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے،،، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک جماعت کے لیے آپ ہزار پابندیاں لگا دیں اور کہیں کہ مذکورہ پارٹی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی! میرے خیال میں تصادم کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ ہمیشہ مسئلے کا حل ڈائیلاگ ہی ہوتا ہے۔ وفاق کو بھی اپنے آپ کو سہیل آفریدی کی جگہ پر رکھ کر سوچنا چاہیے،،، کیوں کہ اس کے لیے بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جس پارٹی نے اُسے چیف منسٹر بنایا ہے، اُس پارٹی کے آگے مسائل ہی مسائل ہیں،،، یعنی پہلے یہ سوچیں کہ سہیل آفریدی اب عمران خان کا انتخاب کیوں ہیں؟ کیا وہ صوبائی اراکینِ اسمبلی میں سب سے زیادہ نیک اور پرہیزگار ہیں؟ کیا وہ امانت اور دیانت میں ممتاز ہیں؟ کیا سب سے زیادہ باصلاحیت اور حکیم ہیں؟ کیا کے پی کی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے وہ سب سے بہتر منصوبہ ساز ہو سکتے ہیں؟ کیا سیاسی اعتبار سے ان کا حلقہ اثر دوسروں سے زیادہ ہے؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ بلکہ اُن کا واحد ایجنڈا پارٹی کو اور اُس کے قائدین کو جیسے تیسے کرکے مشکلات سے نکالنا ہے۔ اُس پارٹی کو نئے وزیر اعلیٰ سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں،،، کیوں پی ٹی آئی کا پورے ملک میں کوئی جھنڈا نہیں لگا سکتا، کوئی اُس پارٹی کے منشور کی تشہیر نہیں کرسکتا، کوئی اُس پارٹی کی کارنر میٹنگ نہیں بلا سکتا،،، کوئی ریلی نہیں نکال سکتا، کوئی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر کوئی جلوس نہیں نکال سکتا، کوئی سیمینار نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ ان کے جلسے جلوسوں میں کیٹرنگ والوں تک کو منع کر دیا جاتا ہے کہ اگر اُنہوں نے سامان مہیا کیا تو اُن کا سامان بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔ پھر نئے وزیر اعلیٰ کے لیے سب سے کٹھن مرحلہ خان کی رہائی کے لیے اداروں پر دباﺅ ڈالنا ہے۔ جب آپ نے باقی پاکستان میں اُس کی جماعت کا جینا مشکل کیا ہے تو وہ پھر اپنے صوبے میں آپ کا جینا مشکل کرے گا۔ مطلب! یہ تو پھر نیوٹن کے قانون کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل کے طور پر سخت ردعمل آئے گا،،، یعنی آپ چاہتے ہیں کہ آپ تینوں صوبوں اور مرکز میں ان کو جینا نہ دیں، اُن پر ہر روز نئے مقدمات بنائیں، لیکن وہ فرنٹیئرمیں بیٹھاآپ کے ساتھ تعاون کرے،،، اللہ کی شان! لہٰذاآپ تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر ملک میں کام کرنے کی اجازت دیں، تاکہ پھر وہ بھی آپ کے ساتھ تعاون کریں،،، لیکن اگر آپ نے اُسے کچلنے کا سلسلہ نہیں چھوڑنا، تو اُس کے پاس کیا آپشن بچتا ہے۔ لیکن ان کے لیے ہم بتا دیں کہ ٹکراﺅ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوگا، کسی کا ذاتی نقصان شاید کم ہو، مگر اجتماعی طور پر پورے پاکستان کا نقصان سب سے زیادہ ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت ہمارے دونوں بڑے بارڈرز پر آگ لگی ہوئی ہے،،، اس لیے گھر کے اندر امن ہونا بہت ضروری ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں سہیل آفریدی کو ہٹانے کے لیے نہ تو عدالتوں کا سہارا لیا جائے، نہ آئینی ترامیم کی جائیں،،،اور نہ ہی کوئی نیا راستہ نکالا جائے،،، کیوں کہ ایسا کرنے سے پاکستان کا ہی نقصان ہوگا،،، بالکل ایسے ہی جیسے اب تک ہوتا آیا ہے،،، اگر تحریک انصاف کی 2018ءمیں پاپولیرٹی 60فیصد تھی، تو آج اس کی 80فیصد سے زائد ہو چکی ہے،،، یعنی ایک چیز تو کلیئر ہے کہ تحریک انصاف کو جتنا دبایا جا رہا ہے،، اُسکی پاپولیرٹی میں اُتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے،،، آج بھی آپ اُن کو جلسے کی اجازت دیتے ہوئے ڈرتے ہیں،،، کیوں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آج بھی اُن کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے۔ لیکن فرض کریں کہ اُن کے پاس آپ سے کم ووٹ بینک ہے،،، لیکن پھر بھی ووٹ بینک تو ہے ناں۔ کیا آپ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہیں دیتے،،، کیا جماعت اسلامی روز جلسے نہیں کرتی؟حالانکہ اُس کی ایک سیٹ بھی پاکستان میں نہیں ہے،،، اور پھر کیا کوئی دوسری پارٹی جلسے جلوس نہیں کر رہی۔ اس لیے آپ اس بڑی پارٹی کو قومی دھارے میں لائیں،،، اُن کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کے اصول پر آگے چلیں،،، تاکہ معاملات حل ہوں۔ ورنہ نقصان تو پاکستان ہی کا ہوگا۔ اور رہی عمران خان کی بات تو اُن کے یہ انتخاب، ان کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ بادی النظر میں علی امین گنڈاپور کو جب وزیراعلیٰ بنایا گیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتے تھے۔ خان صاحب ایک طرف سیاسی دباﺅ بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے مفاہمت کا دروازہ بھی بند نہیں کیا تھا۔ اس کے لیے انہیں علی امین جیسے کسی شخص کی ضرورت تھی۔ وہ جو اسٹیبلشمنٹ سے ربط وضبط رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ڈیل میں معاون بن سکے۔ عمران خان صاحب کا مستقل موقف رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے مگر اس ہائبرڈ نظام کے سیاسی فریق سے کوئی مکالمہ نہیں کریں گے۔ لیکن اسٹیبشلمنٹ یک طرفہ مذاکرات چاہتی تھی،،، جبکہ ہمیشہ مذاکرات کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر کامیاب ہوتے ہیں ،،، اس لیے لگتا ہے کہ گنڈا پور بھی اب مفاہمت مفاہمت کھیل کر تنگ آچکے تھے،،، اور پھر اس کے بعد خان صاحب کے پاس واحد راستہ مزاحمت کا ہے۔ ان کی افتادِ طبع کا مطالبہ بھی یہی ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ دوسرے صوبوں سے کوئی مزاحمتی تحریک نہیں اٹھ سکتی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں ان کی حمایت موجود نہیں۔ ان سے محبت کرنے والے ہیں مگر بوجوہ مزاحمت نہیں ہو سکی۔ ایک وجہ مخالف صوبائی حکومتیں ہیں جو ہر احتجاج کو انتظامی قوت سے ناکام بنا دیتی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پی ٹی آئی کا تنظیمی انتشار ہے جس کے سبب کوئی احتجاج منظم نہیں ہو سکا۔ اس لیے مزاحمت کے لیے اب کے پی کا صوبہ ہی باقی ہے۔ اگر وہاں سے مرکز پر چڑھائی کی جائے تو‘ ان کا خیال یہ ہے کہ ریاست کو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ طالبان کی طرف خان صاحب کا جھکاﺅ سے بھی ریاست مزید مشکلات میں گھر جائے گی۔ اس مزاحمت کے لیے خان صاحب کا انتخاب ایسا آدمی ہو سکتا ہے جو دباﺅ کو انتہا تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو احتجاج کرے، پھر مذاکرات کرے۔ بہرکیف سہیل آفریدی خان کا ”ماسٹر سٹروک“ قرار دے رہے ہیں یا ان کے حامی اسے ان کی سیاسی بصیرت کا نمونہ بتا رہے ہیں تو یہ مقدمہ اسی صورت میں قائم کیا جا سکتاہے جب اس فیصلے کو اقتدار کی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اس سیاست میں ”ماسٹر سٹروک“ وہی ہوتا ہے جو آپ کو ایک بہتر سیاسی کھلاڑی ثابت کرتا ہو۔ لیکن جو بھی ہے عمران خان نے ایک بار پھر پاکستان کی سیاست میں بڑا جوا کھیل دیا جسکے اثرات نہ صرف تحریک انصاف بلکہ مجموعی طور پر ملک کے سیاسی نظام، وفاقی ڈھانچے اور سول ملٹری تعلقات پر بھی گہرے ہوں گے۔ اب یہ جوا کامیاب ہوتا ہے یا ناکام، دونوں صورتوں میں پاکستان کی سیاست ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہوگی۔ یا تو عمران خان کے خواب کے مطابق ایک ”انقلاب“ برپا ہوگا، یا پھر تحریک انصاف کو ایک شدید سیاسی دھچکا لگے گا، یہاں تک کہ وہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بھی کھو سکتی ہے۔لیکن خان صاحب کے پاس اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کہ وہ ملک کی خاطر ایسے فیصلے کریں،،، اگر وہ اس قسم کے بولڈ فیصلے نہیں کرے گا تو یہ بات اُسے بھی معلوم ہے کہ وہ بھلا دیا جائے گا،،، اس لیے وفاق ہٹ دھرمی چھوڑے اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے اُس سیاست کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بھرپور موقع فراہم کرے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے!