آزاد کشمیر سیاسی بحران: ہم پھر غلطی کر رہے ہیں!

ویسے مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت نے کبھی آزاد کشمیر کی سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، کیوں کہ ہم 1985ءسے دیکھتے آئے ہیں کہ ہر انتخاب کے بعد ہمیشہ وہ جماعت ہی برسر اقتدار میں رہی جو اسلام آباد میں حکومت میں ہوتی۔ اس لیے ہم بھی آنکھیں بند کر کے تمام نتائج تسلیم کرتے آئے ہیں کہ ہو سکتا ہے اسی میں کوئی ”حکمت“ چھپی ہو،،، چلیں یہ بات تو ماننے والی ہے کہ 1985ءسے 2018ءتک ن لیگ اور پی پی پی برسراقتدار رہی تو اُن کی ہی وہاں پر حکومت بنتی رہی ہے،،، لیکن 2018ءمیں بننے والی تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کی بھی آزاد کشمیر میں حکومت بن جائے گی،،، یہ یقینا ہمارے لیے حیران کن تھا۔ یعنی عمران خان کے پاکستان کا وزیر اعظم بن جانے کے بعد آزادکشمیر کے 2021کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کا پلڑا حیران کن حد تک بھاری رہا، اور پھر بانی تحریک انصاف کو اقتدار میں ”نئے چہرے“ متعارف کروانے کی عادت ہے۔اس عادت کی وجہ سے انہوں نے عبدالقیوم نیازی کو آزادکشمیر کا وزیر اعظم منتخب کروایا۔ مگروہ عثمان بزدار یا محمود خان کی طرح زیادہ عرصہ چل نہیں پائے۔ ان کے خلاف ”بغاوت“ ہوگئی اور جب وفاق میں تبدیلی کی ہوا چلنے لگی تو وزارت عظمی کے امیدوار سردار تنویر الیاس نے جوڑتوڑ کرکے اراکین کو اپنے ساتھ ملا لیا اور مئی 2022 میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بن گئے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ عام انتخابات میں بھی وزارت عظمی کے امیدوار تھے لیکن بانی پی ٹی آئی نے ان کی جگہ عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم بنا دیا تھا۔ مرکز میں تحریک انصاف نہ رہی تو آزاد کشمیر میں بھی تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بن گئے۔ تحریک انصاف کے اراکین وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ مل گئے۔ تحریک انصاف کے منحرف رکن اسمبلی چوہدری انوارالحق ن لیگ میں شامل ہو گئے اور 20 اپریل 2023ءکو وزیراعظم بن گئے ،،،لیکن اس دوران عوامی مسائل پر آزاد کشمیر کے عوام میں زبردست عوامی بیداری کی ایک لہر چلی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی معرض وجود میں آئی جس نے خوفناک عوامی احتجاج کے ذریعے سب کچھ مفلوج کرکے رکھ دیا۔ دراصل یہ احتجاج مہنگے آٹے اور مہنگی بجلی کے خلاف تھا اسکے علاوہ حکومتی عہدیداروں کی ہوشربا مراعات پروٹوکول اور عوام کو نظر انداز کرنے بارے عوام کا شدید غیض وغضب تھا۔ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کی حکومت کے ساتھ مل کر اس احتجاج کو دبانے کی کوشش کی لیکن ناکامی کی صورت میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرکے ہڑتال ختم کروانی پڑی۔ آزادکشمیر میں نئے انتخابات غالباََ8سے 10ماہ بعد ہوں گے۔ ان مہینوں میں ”اپوزیشن“ کا رول ادا کرتے ہوئے نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان کی کابینہ کے دس ارکان منحرف ہو کر پیپلزپارٹی میں جاچکے ہیں۔ اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد اپنی ایڈجسٹمنٹ کے لیے معاملات طے کر چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کو حکومت سازی کے لیے 40 اراکین کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کے لیے 27 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ دراصل یہ تبدیلی عوامی دباﺅ کا نتیجہ ہے جس کے سامنے سب بے بس دکھائی دیتے ہیں،،، آزاد کشمیر میں نئی سیاسی طاقت جنم لے چکی ہے اور آئیندہ انتخابات میں آزاد کشمیر کی صورتحال یکسر مختلف نظر آئیگی۔ معاملات روائتی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جسے پیپلزپارٹی سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔لہٰذااس امید کے ساتھ کہ وفاق میں شہباز حکومت کے ہوتے ہوئے آئندہ انتخابات اسے آزادکشمیر کی حکومت بھی دلوادیں گے۔ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر واقعتا سیاست نے یہ رخ اختیار کرنا ہے تو پیپلز پارٹی آزادکشمیر میں فقط چند مہینوں کی حکومت لینے کو کیوں بے چین ہے؟ اس کے علاوہ حکومت لینے کی خواہش میں مبتلا ہوئی پیپلز پارٹی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عوامی ایکشن کمیٹی سے کچھ وعدے ہوئے ہیں۔ فرض کیا پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم ان وعدوں کو نظرانداز کرتا نظر آیا تو آزادکشمیر میں ایک نیا ”بحران“ کھڑا ہوسکتا ہے جسے حل کرنے لئے وفاق میں بیٹھی شہباز حکومت شاید زیادہ دلچسپی نہ دکھائے۔ جو سوالات میرے ذہن میں اٹھے ہیں انہیں پیپلز پارٹی کے کسی رہ نما کے روبرو رکھے بغیر اس کالم میں بیان کردئیے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید کہیں سے تشفی بخش جوابات مل جائیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ جب آزاد کشمیر کے فیصلے اُس خطے سے باہر اسلام آباد میں ہوں گے، تو یہاں کی اندرونی سیاست میں ہلچل پیدا نہیں ہوگی؟ اور پھر پیپلزپارٹی کی قیادت کیا سوچ رہی ہے، جب اُسے چند ماہ کی حکومت والا لالی پاپ مل رہا ہے،،، کیا اسے عملی طور پر کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا اُسے علم نہیں کہ یہ ایک علامتی اقدام ہے۔ اور کیا اُسے یہ بھی علم نہیں کہ اُس کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہی نہیں ہے،،، تو کیا جو کام وفاق میں کیا جاتا رہا ہے،،، اب وہ آزاد کشمیر میں ہوگا،،، یعنی روایتی طریقے کے ذریعے وفاداریاں تبدیل کروا کر لوگوں کو ساتھ ملانا پڑےگا؟ کیا یہ شیم فل بات نہیں؟ اور پھر اگریہ حکومت بن بھی گئی تو اس کی کابینہ 20 سے زیادہ نہیں ہو سکتی، کیونکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ معاہدے میں عیاشیوں اور فضول خرچیوں کو روکنے کی شق شامل کی گئی ہے۔ ایسے میں سب کو خوش کرنا ممکن نہیں، نتیجتاً حکومت مذاق بن کر نہیں رہ جائے گی؟ بہرحال چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت ایسے سیاسی اقدامات کرتی جس سے عوام کو مطمئن کیا جاتا،،، لیکن آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے اس پر توجہ نہ دی اور معاملات مزید بگڑ گئے۔ اور اب ایک بار پھر جوائینٹ ایکشن کمیٹی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے،،، اورچونکہ آزاد کشمیر بڑا حساس علاقہ ہے اس لیے وہاں اس طرح کی من مانی نہیں کی جا سکتی ،،، اس لیے ان سیاسی معاملات کو ایک طرف رکھ کر عوام کے بارے میں سوچنا چاہیے،،، اگر پالیسی میکر عوام کی رائے کو ایک طرف رکھ کر اقدام کریں گے تو اس سے سراسیمگی میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کو ماضی قریب سے سبق سیکھتے ہوئے عوام دوست اقدام کرنے چاہیے،،، چوہدری انوارالحق جیسے اقدامات سے وہاں مزید مسائل بڑھیں گے،،،، ایسی صورتحال میں پیپلزپارٹی نے آگے بڑھ کر معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اور اب موجودہ ایوان کے چوتھے سال میں چوتھے وزیراعظم کا انتخاب ہونے جا رہا ہے،،،تو اس سے یقینا پیپلزپارٹی سیاسی فائدہ تو حاصل کر لے گی مگر اُسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی ،،، اور یہ بالکل وفاق والا ”ماڈل“ بن جائے گا۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اگر پیپلزپارٹی کی نئی حکومت نے ایسے اقدامات کر لیے جس سے عوام مطمئن ہو سکے تو اگلے انتخابات میں شاید موجودہ روائتی سیاسی جماعتوں کی گنجائش باقی بچ جائے ورنہ معاملات موجودہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی نئی حکومت کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا ،لیکن توقع ہے کہ انھیں ایوان میں فرینڈلی اپوزیشن ملے گی۔ انکے راستے میں صرف عوامی دباﺅ ہو گا۔ مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کی حکومت سازی کیلئے تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے باقیماندہ 5ارکان بھی اپوزیشن میں ہونگے۔ چونکہ ن لیگ کے ارکان کی تعداد زیادہ ہو گی اس لیے اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا ہو سکتا ہے۔ اب پالیسی سازوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آزاد کشمیر میں کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت بنا کر دوسرے نمبر والی جماعت کو اپوزیشن بینچوں پر بٹھایا جائے، تاکہ عوام کو مطمئن رکھا جا سکے۔تو میرے بھائی! عوام ایسے مطمئن نہیں ہوںگے،،، وہ باشعور ہو گئے ہیں،،، وہ ان نام نہاد اقدامات سے راضی نہیں ہوں گے۔،،، اور پھر جب ”منتخب سیاسی قیادت“ میں ”اپوزیشن“ کا وجود ہی نہ رہا تو عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک ایک بار پھر کھڑی ہوجائے گی اور بھارت اسے مبینہ طور پر سپورٹ کرے گا،،، اس لیے وہاں پر عوامی حکومت بنائی جائے،،، کیوں کہ گزشتہ چند مہینوں میں زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل اس کمیٹی نے دوبار آزادکشمیر کی ”منتخب حکومت“ کو جس کی اسمبلی میں ”اپوزیشن“ دکھاوے کو بھی موجود نہیں اپنے احتجاج سے دھول چاٹنے کو مجبور کیا ہے۔ حال ہی میں جو تحریک چلی اس پر قابو پانے کے لئے وفاقی حکومت کے نمائندوں کو عوامی ایکشن کمیٹی سے آزادکشمیر کے مسائل حل کرنے کے لئے مذاکرات کرنا پڑے۔ ان مذاکرات کے بعد آزادکشمیر کی ”منتخب اسمبلی“ اور وزیر اعظم کا عہدہ بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود آزادکشمیر کے بے وقعت دِکھنے والے وزیر اعظم کے دفتر میں نجانے کونسی ”کشش“ باقی رہ گئی ہے جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ عہدہ حاصل کرنے کو اُکسایا ہے۔ بہرکیف ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جونہی وفاق میں تبدیلی آتی ہے آزاد کشمیر میں اچھی بھلی چلتی حکومت ڈانواں ڈول ہو جاتی ہے۔ کشمیری اراکین اسمبلی وفاقی حکومت کے اشارہ آبرو کے منتظر ہوتے ہیں اور فوری طور پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔اس سے شائبہ یہ جاتا ہے کہ وہاں جو کچھ کروا رہا ہے،،، وہ وفاق ہی کروا رہا ہے،،، ہمیں سب سے پہلے اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے،،، اور ضرورت ہے کہ وہاں کہ حقیقی نمائندوں پر مشتمل حکومت قائم کی جائے اور اقلیت کو اکثریت پر فوقیت نہ دی جائے،،، ایسا کرنے سے معاملات کبھی نہیں سنبھلیں گے،،، یہ بات خواہ آپ لکھ کے رکھ لیں!