اِدھر بھی کلمہ گو....اُدھر بھی کلمہ گو!

یہ تاریخ کے بدترین دنوں میں سے ایک ہیں جب جدید دور میں ایک مسلمان ریاست دوسری مسلمان ریاست سے جنگ کے میدان میں نبرد آزما ہے،،، دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی افواج کے یونیفارم بندوق کی نوک پر رکھ کر لہرائے جا رہے ہیں۔ فوجی شہید ہو رہے ہیں،،، دونوں اطراف اللہ اکبر کے نعرے لگ رہے ہیں،،، اور دونوں طرف کے اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستان اور افغانستان کی جنگ تاریخی عجوبہ ، ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔ سر آئینہ جو کچھ بھی ، سمجھ سے بالاتر ، یقین کامل کہ پس آئینہ جو کچھ بھی ، دل مائل ہے کہ اندر کھاتے اس آپریشن میں کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے۔ مطلب! اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ مسلمان مسلمان سے لڑ رہا ہے، ،، سمجھ یہ بھی نہیں آرہی کہ آپ کے ہمسائے کا اگر جھکاﺅ بھارت کی طرف ہے تو آپ بھی اپنی سفارتکاری مضبوط کیجئے،،، اپنے وفود افغانستان بھیجیں،،، اُن کے وفود کو اپنے ہاں دعوت دیں،،، اس میں جلنا کڑھنا کہاں سے آگیا؟ اُن کا بھی حق بنتا ہے، کہ وہ دیگر ممالک کی طرح اپنے تعلقات کو دنیا بھر میں پھیلائیں۔ ہاں ! اگر بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کےلئے وہاں انویسٹمنٹ کر رہا ہے تو اُس کے لیے بھی ٹھوس اور مربوط حکمت عملی بنائیں۔ تاکہ کوئی بھی آپ کے ملک میں دہشت گرد کارروائیاں کیوں کرے؟ لیکن جنگ کرنا اور وہ بھی ہزاروں کلومیٹر لمبی سرحد پر۔ یہ کس مشیر نے آپ کو مشورہ دے دیا؟ خیر آج سیز فائر کو دو دن مکمل ہو چکے ،،،تادم تحریر بارڈر پر امن و امان ہے،، لیکن دوسری جانب ہم نے ایک بار پھربچے کھچے افغان مہاجرین پر مزید سختی کر دی ہے، ماہرین کے مطابق بات چیت آج شروع تو ہو رہی ہے مگر رزلٹ نکلنے کے چانسز 5فیصد سے زائد نہیں ہیں۔ کیوں کہ اس بار بات کافی حد تک آگے بڑھ چکی ہے۔ اور پھر یہ ساری باتیں ایک طرف مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات اس نہج تک پہنچے کیسے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم نے آزادی مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کے لیے حاصل کی تھی؟ حالانکہ یہ وہی افغانستان ہے جس کے لیے ہم روس کے خلاف لڑے، یا جس کے لیے ہم مجاہدین تیار کیے، جس کے لیے ہم نے اپنے ملک میں پناہ گزینوں کو 40سال تک برداشت کیا، یہ وہی ملک ہے کہ جہاں امریکا کے نکل جانے کے بعد ہماری خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کابل میں بیٹھ کر فیصلے کر رہے تھے کہ کونسا وزیر کہاں لگایا جائے گا،،، یہ وہی ملک ہے کہ جس کے لیے ہم نے اپنے ملک میں کلاشنکوف کلچر برداشت کیا اور کر بھی رہے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جس کے لیے امریکا بلکہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ہم پر منافقت کا الزام لگایا اور کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کرتا رہا،،، بلکہ وطن عزیز پر یہ بھی الزام لگتا رہا کہ اس نے گڈ طالبان اپنے لیے اور Badطالبان امریکا کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ جب ہم اس قدر افغانستان کے ساتھ لگاﺅ رکھتے ہیں تو پھر ایسی کیا نوبت آن پہنچی کہ حالات جنگ تک آن پہنچے ۔اس لیے ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا،،، ایک دوسرے کو محسن کش کہنے کے بجائے مذاکرات کریں،،، ہر قیمت پر ڈائیلاگ کریں،،، اپنی جگ ہنسائی نہ کریں اور نہ دنیا کو موقع فراہم کریں کہ وہ دو ہمسایہ ممالک جن کی آپس کی سرحد کم و بیش 2640کلومیٹر ہے،،، وہ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔۔۔ بلکہ ہم نے تو دونوں جانب محاذ کھول لیے ہیں۔۔۔ ہمارا پہلے ہی بھارت کے ساتھ 3300کلومیٹر لمبا بارڈر Activeبارڈر ہے،،، اور وہاں کی جھڑپوں نے ہمارا جینا دو بھر کیا ہوا ہے،،، تو ہم اس چیز کے کیسر متحمل ہو سکتے ہیں کہ دوسری طرف کا محاذ بھی کھول لیا جائے؟ اور ان دومحاذوں کے ساتھ ساتھ آپ دو صوبوں میں بھی اندرونی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ دونوں صوبوں کے عوام بوجوہ ناراض ہیں،،، اور ایک پوری جماعت کے ساتھ بھی آپ نے ٹکر لی ہوئی ہے،،، بلکہ اب تو ایک بڑی مذہبی جماعت کے ساتھ بھی آپ نے محاذ کھول لیا ہے۔ میرے خیال میں ایک وقت میں ایک محاذ نہیں کھولنا چاہیے؟ اس لیے اگر بھارت کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں تو ہمیں باقی جگہوں پر امن رکھنا چاہیے ،،، اس لیے کم از کم افغانستان کے معاملے میں ہمیں ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا چاہیے۔۔۔ کیوں کہ ابھی کچھ بھی نہیں بگڑا۔ حالانکہ تاریخ میں اس سے بھی بڑی بڑی مسلمانوں کی جنگیں ہو چکی ہیں جن کا خاتمہ ڈائیلاگ پر ہی ہوا ہے،،، جیسے تاریخ کی سب سے خونریز جنگ جو مسلمانوں کی آپس میں ہوئی تھی وہ جنگ صفین تھی،،، جس میں ایک طرف حضرت علی ؓ کا لشکر تھا، یعنی عراق و حجاز کے مسلمان جبکہ دوسری جانب امیر معاویہ کا لشکر یعنی شام کے مسلمان ۔ یہ جنگ کئی دنوں تک جاری رہی، اور دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان ہوا۔اس جنگ میں تقریباً 70,000 کے قریب مسلمان مارے گئے یا زخمی ہوئے۔اس جنگ کے بعد بھی کیا ہوا تھا،،، مذاکرات ہی ہوئے تھے.... پھر صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا ہوا تھا؟ ڈائیلاگ ہی ہوا تھا،،، وہ تو تھے بھی کافروں کے ساتھ،،، جبکہ ہم نے تو مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں،،، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ایک فریق بھارت سے مل رہا ہے تو دوسرا فریق اُس کی مذمت کرے،،، بلکہ ہمیں بھی اُن کو ایسی آفرز کروانی چاہیے جو دونوں کے مفاد میں ہوں،،، اور بھارت کی یہ گیم بھی سمجھنی چاہیے کہ ”دشمن کا دشمن دوست ہوا کرتا ہے“،،، اس لیے بھارت افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے کہ تاکہ پاکستان کو زک پہنچائی جائے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ کبھی دیرپا تعلقات خراب نہیں کرے گا کیوں کہ اُس کی تجارت کا تمام تر انحصار پاکستان پر ہے۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نیپال کے لیے جو اہمیت بھارت کی ہے‘ افغانستان کیلئے وہی اہمیت پاکستان کی ہے۔ نیپال ہمالیائی سلسلوں سے گھرا ہوا ایک چھوٹا اور پسماندہ ملک ہے جس کی سرحدیں اگرچہ شمال مغرب میں چین اور مشرق میں بھوٹان سے ملتی ہیں مگر تجارت اور آمد و رفت کیلئے اسے اپنے جنوبی ہمسائے بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہر طرف سے خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کی سرحدیں اگرچہ چین‘ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں اور ایران سے بھی ملتی ہیں مگر پاکستانی سرحد افغانستان کیلئے جنوبی ایشیا خصوصاً بھارت اور دیگر ممالک کی منڈیوں تک رسائی کیلئے سب سے چھوٹا اور آسان راستہ ہے۔ اسی طرح ہمالیہ کی دوسری طرف سے کسی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے جس طرح بھارت نیپال میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا‘ پاکستان بھی افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کی پالیسیوں اور رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ افغانستان تجارت کیلئے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے جنگ تو بڑی دور کی بات‘ افغانستان لمبے عرصہ تک پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ میں پھر کہوں گاکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین موجود لمبی بین الاقوامی سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے درمیان گہرے مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی تعلقات قائم ہیں‘ اور وہ صدیوں سے سرحد کے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس لیے آج تعلقات خراب کر کے تاریخ کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ افغانستان ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے ، بلکہ اس جانب بھی نظر دوڑائیں کہ ہم نے حالیہ تاریخ میں اُن کے ساتھ کیا کیا۔ پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر”ڈو مور“ کو نصب العین بنائے رکھا اور چھوٹی بڑی امریکی خواہشات سے لے کر سخت احکامات اور کڑی آزمائشوں پر بھی پورے اترتے رہے۔ ماضی کے ان فیصلوں کی کاشت نے وہ فصل تیار کر ڈالی جس کی کٹائی کرتے کرتے ہماری نسلیں کٹتی اور مرتی چلی جا رہی ہیں لیکن یہ فصل ہے کہ کاٹے بھی ختم نہیں ہو رہی۔ بارود اور خون کی بو آج بھی ملک کے طول و عرض کی فضاﺅں میں رچی بسی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ پھر سوشل میڈیا پر مختلف حلقے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی سپورٹ میں مختلف عذر اور حیلے بہانے تراشتے پھر رہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اسٹیبلشمنٹ سے اپنی ناراضی کے باعث بھی اینٹی آرمی اور اینٹی پاکستان بیانیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ ان کے الزامات بہت کمزور اور غیر منطقی ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ پاکستان اس لیے ایسا کر رہا ہے کہ امریکا نے بگرام ائیر بیس واپس مانگا ہے اور پاکستان امریکی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی کو بھی دور کرنا چاہیے۔ اور اپنی سمت ایک لائن پر رکھنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے، کہ صدر ٹرمپ بگرام ائیر بیس جیسا بیان دے کر بھول بھی گیا ہو، اگر امریکا نے یہ اڈہ لینا ہے تو اس کے لیے وہ کئی دوسرے طریقے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ بہرکیف ہمیں تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اگر افغانستان ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہا ہے تو اُسے مذاکرات کے ذریعے لائن پر لانا چاہیے۔ ہم جیسے تو پوری طرح یکسو ہو کر پاکستان کی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ افغانستان کیا کھیل کھیل رہا ہے اور پاکستان کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ اچانک افغان طالبان حکومت کے دل میں انڈیا کی محبت کیسے جاگ اٹھی اور اب تو یہ یوٹرن لیتے ہوئے ملا عمر کے روایتی موقف کو ترک کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھی انڈیا کا حصہ مان گئے ہیں۔اس لیے اگر وہ راہ راست سے ہٹ گیا ہے تو آپ بھی ڈپلومیٹک طریقے سے اُسے راستے پر لائیں۔ ایسا نہ ہوکہ خدانخواستہ جنگ مزید بڑھ جائے اور افغانستان جس کا جغرافیہ ہی مشکل ترین ہے ، اُس کو فتح کرنے کے چکر میں ہم جنگ میں مزید دھنستے چلے جائیں، اس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ پاکستان کو سمجھنا چاہیے کہ کبھی کبھی مشکل دشمن بھی مل جاتا ہے بالکل اس ضرب المثل کی طرح کہ جیسے ”ہاتھوں کی لگائی گرہیں ایک دن دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں“