”جنگ نہیں امن “سیفما کی ایک اور کاوش!

پاکستان کے 77ویں یوم آزادی پر جہاں ہر طرف گہما گہمی تھی وہیں ساﺅتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن”سیفما“کے زیر اہتمام پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے تقریبات کا اہتمام کیا، یہ تقریب سیفما کے آفس اور واہگہ بارڈر پر منعقد کی گئی، آگے چلنے سے پہلے سیفما کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ تنظیم جنوبی ایشین ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے 2002ءمیں بنائی گئی تھی، جس کے پہلے صدر محمد ضیاءالدین تھے، اس تنظیم کا کام برصغیر میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کام کرنا ہے، اس تنظیم کے موجودہ سیکرٹری جنرل امتیاز عالم ہیں جبکہ ماروی سرمد، نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی بھی اسی تنظیم سے وابستہ رہی ہیں۔ اور عاصمہ جہانگیر (مرحومہ ) بھی اس تنظیم کی فعال کارکن تھیں، صرف میڈیا ہی نہیںبلکہ مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی اس تنظیم کا حصہ رہے ہیں۔ خیر حالیہ یوم آزادی پر سیفما اور دیگر امن پسند تنظیموں نے امن کی شمعیں روشن کیں،اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی ،عوامی ، سماجی ، تجارتی رابطوں کی فوری بحالی اور ویزا قوانین میں نرمی کا مطالبہ کیا اور ”جنگ نہیں امن چاہیے “ کے نعرے لگائے۔یہ تقریب 14 اور15 اگست کی درمیانی شب ہوئی جبکہ بھارت کی جانب سے بھی وفد آیا اور خیر سگالی کا پیغام دیا۔ اس موقع پر ان لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کو یاد کیا گیا جو 1947ءمیں ہجرت کے دوران مارے گئے ، اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ویسے تو واہگہ بارڈر پرشمع جلانے کی یہ ”رسم“ 1996 ءمیں شروع ہوئی۔ جسے بھارت کے معروف صحافی کلدیپ نئیر نے شروع کیا تھا۔ بھارت کی امن پسند تنظیمیں ہرسال اٹاری بارڈر پر 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب شمعیں روشن کرتی رہی ہیں تاہم پاکستان کی طرف سے گزشتہ چند برسوں سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا جسے ایک بار پھرسے بحال کردیا گیا ہے۔ اور یہ خصوصاََ اُس وقت ہوا ہے جب پاکستان کے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد دونوں اطراف سے خیر سگالی کے بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔ خیر سیفما کی یہ ایک اچھی کاوش ہے جسے سراہا جانا چاہیے ، اور اس قسم کی تقریبات سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتربنانے میں مدد ملتی ہے، اور پھر یہ دونوں ممالک کے مفاد میں بھی ہے، آپ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ دیکھ لیں کہ یہ آپس میں تجارت کرتے ہیں، جیسے چین اور انڈیا گہرے دشمن ہی سہی مگر تجارت نہیں رکنے دیتے، امریکا و چین کی دیرینا دشمنی ہے مگر مجال ہے کہ وہ اُن کی کھربوں ڈالر کی ٹریڈ کبھی بند ہوئی ہو۔ جبکہ پاکستان کے درمیان بھی اربوں ڈالر کی تجارت ہو سکتی ہے لیکن ہم نے تو آپس کے ویزے بھی نہیں کھولے ہوئے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت دبئی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت 15-20ارب ڈالر ہے۔انڈیا نے اپنی پالیسی کے تحت پاکستان سے درآمدات پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے لیکن برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اسے کہتے ہیں ”سیانا پن“ یعنی بھارت نے پاکستان کی ایکسپورٹ کو پروموٹ کرنے کے بجائے اپنی ایکسپورٹ کو ترجیح دی۔ اسے کہتے ہیں اپنے مفادات کو ترجیح دینا۔ اور اسے ہم بھارت کی ہٹ دھرمی نہیں کہیں گے، بلکہ دنیا کی تجارت کا یہی اصول ہے کہ سب سے پہلے اپنے مفادات کو دیکھا جائے۔ اس وقت ہم بھارت سے ادویات سے لے کر مشینری تک کا میٹریل خرید رہے ہیں، یہ ہماری ضرورت ہے، بھارت اپنا سامان دبئی کی منڈی میں لے کر آتا ہے، ہم وہاں سے خرید لیتے ہیں، لیکن اگر یہی مال ہم براہ راست بھارت سے خریدیں جس پر دونوں حکومتوں کی طرف سے پابندی لگا رکھی ہے تو یہ یقینا عوام کے لیے بہترین ہوگا۔ کیوں کہ اُسے یہی چیزیں مزید سستے داموں دستیاب ہوں گی۔ لہٰذااگر پاک بھارت امن ہو جاتا ہے تو یہ فائدہ بھارت کو ہوگا یا پاکستان کو؟ تو یقینا فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا! قصہ مختصر کہ انڈیا ہر سال 60 سے 70 ارب ڈالر کا ریفائنڈ پیٹرول اور ڈیزل دنیا کو برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھ سکتی ہے۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جی 20 ممالک کا چیئرمین ہے۔ اور پاکستان کو جی 20ممالک سے اُس وقت تک امداد نہیں مل سکتی جب تک بھارت نہیں چاہے گا۔ میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ ہمیں فضول ”انا“ رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر کہیں کوئی مسئلے ہیں تو ہم مل بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں؟ دنیا کے کونسے ایسے مسئلے ہیں جو مل بیٹھ کر حل نہیں ہو تے۔ اور پھر اس انا کی وجہ سے ہم پہلے ہی بہت نقصان کر چکے ہیں۔ اگر ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے تو وہاں موجود 30کروڑ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بھی اچھے کر سکیں گے۔ عوام کے لیے چیزیں سستی دستیاب ہوں گی۔ دنیا بھر میں ہمسائے آپس میں تجارت کرکے بہت سا زرمبادلہ بچاتے ہیں۔ اگر دنیا میں ہم تجارت کے کامیاب ماڈلز کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی تجارت یعنی ریجنل ٹریڈ سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ ”نافٹا“جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68فیصد ہے۔ یورپی یونین ،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔ آسیان ممالک (فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ ) کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ لیکن آج ہم نے دشمنی میں ماسوائے کشمیری مسلمانوں کو تکلیف دینے کے کچھ نہیں کیا۔ اگر دوستی ہو جائے تو شاید اُن پر بھی ظلم کم ہو جائے۔ کیوں کہ ایک چیز تو بڑی واضح ہے کہ ہم کشمیر آزاد کروانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ اور پھر جب جنگ کا راستہ نظر نہ آرہا ہوتو پھر صلح کے راستے پر چلتے ہیں۔ اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں، ہمیں ایسی تجارت کو فروغ دینا چاہیے جس میں ہمیں فائدہ ہو۔ نا کہ انڈیا کو فائدہ ہو۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا کسان بھوکا مرنا شروع ہو جائے۔ کیوں کہ ہمارے کسان کو کھیتوں میں انڈیا کے کسانوں کی نسبت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ جو چیزیں پہلے سے ہی ملک میں وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں، ہم اُنہی کو امپورٹ کرکے مزید سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جس سے ہمارا کسان دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس حوالے سے ایک ایسا تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس پر کام کرے۔ اور یہ سب کچھ فی الوقت میڈیا سے چھپا کر کرنا چاہیے اور پالیسی بنا کر میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ ہم عوام کی مشکلات کم ہوں اور ہم بہت سے مسائل سے بچ سکیں! بہرکیف حالیہ امن کاوش کا کریڈٹ یقینا سیفما کو جاتا ہے، کہ اُس کی کاوشوں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں، اور یہ خالصتاََ دوستی دونوں ممالک کے ہی مفاد میں ہے، کیوں کہ دونوں ممالک کی حکومتیں چاہے جتنا بھی اختلاف رکھیں مگر دونوں کے عوام کا دل نیرج چوپڑا کی والدہ جیسا ہے، جو دل میں نیک خیالات کے ساتھ اُمید بھی رکھتی ہیں کہ دوبارہ امن قائم ہو!