ہمارے آئینی بینچ کا سربراہ امریکی چیف جسٹس کو لگا دیں!

آج کل ملک میں ایک طبقہ یعنی تحریک انصاف کے کارکن ، چاہنے والے اور ان کے ہمدرد بہت خوش نظر آرہے ہےں، وہ 20جنوری کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اُٹھائیں گے تو ساتھ ہی وہ اپنے ملک کے مسائل کو ایک طرف رکھ کر، اور دنیا کے 200ممالک کے مسائل کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے وہ بانی تحریک انصاف کو ریلیز کرنے کے آرڈر جاری کریں گے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ،ہم جنس پرست اور نیشنل انٹیلی جنس کے سابق قائم مقام ڈائریکٹر، رچرڈ گرینل کو ”ایلچی برائے خصوصی مشنز“ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رچرڈ گرینل پاکستانیوں کے درمیان زیادہ مشہور اس لیے ہوئے ہیں کیوں کہ انہوں نے 26نومبر کو ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے بلوم برگ کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھاکہ ”عمران خان کو رہا کیا جائے“۔ ان کے اس مطالبے پر پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری نے شکریہ بھی ادا کیا تھا۔اور اب ایک بار پھر ایلچی مقرر ہونے کے بعد انہوں نے ایکس پر ہی دوبارہ لکھا کہ ”عمران خان کو رہا کرو“ ۔ جس کے بعد ہمارے ہاں اس حوالے سے خاصی لے دے ہو رہی ہے کہ کیا امریکا عمران خان کے حوالے سے احکامات جا ری کر سکتا ہے یانہیں؟ جبکہ اس حوالے سے دفتر خارجہ بھی خاموش ہے کہ وہ امریکا کو شٹ اپ کال بھی نہیں دے رہا اور یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ بھئی! یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے،،، آپ اس حوالے سے ڈکٹیشن یا مشورہ نہ دیں۔ وغیرہ ویسے ہمارے حکمران ایسا کریں گے بھی کیوں؟ اُنہیں تو اس ٹویٹ کے بعد سانپ سونگھ گیا ہے،،، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہمیں بطور نیشن اپنی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے، ہمیں اپنے اداروں کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہونا چاہیے، ،، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ امریکا کون ہوتا ہے، ہمیں ڈکٹیٹ کرنے والا کہ اُس کو رہا کر دو، اس کو رہنے دو۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ عمران خان رہا ہوجائے، اُس کے اوپر سے جھوٹے کیسز کاخاتمہ ہو، لیکن یہ فیصلہ ہمارے اداروں کو کرنا ہے، ہمارے فیصلہ کرنے والوں کو کرنا ہے۔امریکا کیوں کرے؟ لیکن اگر پھر بھی امریکا نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر پاکستان کو امریکا کی51ویں ریاست ڈکلیئر کردیں۔ اور ساتھ ہی ان ہماری عدالتوں میں لگے ان سیاستدانوں کے کیسز بھی وہاں منتقل کردیں،،، تاکہ امریکا کو ہمارے بارے میں فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہماری عدلیہ کا آئینی بینچ ہے، اُسے امریکا شفٹ کردیتے ہیں، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کا چیف جسٹس ہی ہمارے آئینی بینچ کا سربراہ بن جائے۔ اور ویسے بھی نیا نیا بینچ ہے، کسی کو مسئلہ بھی نہیں ہوگا! بہرحال خدا کے لیے امریکا کی من مانیوں کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بس کردیں، کیوں کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ امریکا کے کہنے پر عمران خان کو چھوڑ دیا جائے گا یا نہیں،،،، حالانکہ یہ کام تو پہلے بھی امریکا کر چکا ہے، جب کلنٹن کے کہنے پر نواز شریف کو جلا وطن کیا گیا تھا۔ اور یہ کام اُس وقت بھی ہوا تھا جب نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لیے لانگ مارچ مارچ نکالا تھا تو اُسی لمحے مشرف کو ہیلری کلنٹن کا فون آگیا تھا اور افتخار چوہدری کو ”ری سٹور“ کرنا پڑا تھا۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا ہمارے سیاستدانوں اور فیصلہ کرنے والوں کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتا ہے،،، اور یہ لت اُسے 75سال سے پڑی ہوئی ہے، یعنی ہم تو لیاقت علی خان سے لے کر آج تک ذلیل ہو رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان بننے کے بعد سے ہی امریکا کی جھولی میں بیٹھنے کو بہتر سمجھا، ہم نے روس کو یکسر مسترد کیا۔ جنرل ایوب خان پاک امریکہ تعلقات کے بانی تھے،انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کو متوازن رکھنے کی بجائے نئے پاکستان کو مکمل طور پر امریکہ کے حوالے کر دیا ، ان کے دور میں پاکستان امریکہ کی کالونی بنا رہا۔ اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا عروج تھا،اس دور میں دنیا کے ترقی پذیر ممالک بڑے محتاط رہے، لیکن جنرل ایوب خان امریکہ نوازی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے امریکہ کو پشاور کے قریب ایک اڈہ دے دیا جہاں سے امریکی فوجی روس کی جاسوسی کر سکتے تھے۔ روس نے ایک امریکی جاسوس طیارے کو مار گرایا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے امریکی اڈوں کو بند نہ کیا تو روس نے پاکستان کے ارد گرد سرخ نشان لگا دیا ہے اور اسے اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے، جب جنرل ایوب خان کو امریکہ کے فریب دھوکہ اور بے وفائی کا اندازہ ہوا اور انہوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ لکھی اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ پاکستان پوری طرح امریکہ کی گرفت میں آ چکا تھا۔ جنرل ایوب خان کو اپنی سنگین غلطی کا اندازہ پاک بھارت جنگ 1965 کے دوران ہوا جب امریکہ نے پاکستان کو طیاروں اور ٹینکوں کے فالتو پرزے بھی دینے بند کر دئیے اور امریکہ کی جانب سے پاک فوج کو دیا ہوا اسلحہ پاکستان کے دفاع کے لئے پوری طرح استعمال بھی نہ ہو سکا۔ جبکہ دوسری جانب روس نے اپنا بدلہ 1971ءکی جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دے کر لیا۔ اور پاکستان چاروں شانے چت ہوگیا۔ لیکن ہمیں روس پر بھی افسوس نہیں کیوں کہ اُس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ جس کی بھی مخالفت یا حمایت کرتا ہے، وہ کھل کر تا ہے، امریکا کی طرح ڈپلومیسی نہیں کھیلتا۔ یا اندر کی گیمیں نہیں کھیلتا۔ اس کی مثال آپ یہ لے لیں کہ ایک دور ایسا بھی آیا کہ ہم انڈیا سے کشمیر لے سکتے تھے، لیکن امریکا نے ہمیں ایسا کرنے سے منع کیے رکھا۔ نہیں یاد تو بتاتا چلوں کہ چین کے ہاتھوں 1962ءمیں شکست کھانے کے بعد ہندوستان کمزور ہو چکا تھا اور عسکری طور پر ہم اُس پر بازی لے سکتے تھے۔لیکن صاحب بہادر نے ہمارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ خیر پھر پاکستان کے دوسرے آمر جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کے قومی مفادات اور سلامتی کو یقینی بنائے بغیر امریکہ اور چین کے تعلقات استوار کیے تو اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ ہمیں فکر تھی کہ نہ جانے اس کے بدلے میں پاکستان ہم سے کیا مطالبہ کرے گا، لیکن ماسوائے پاکستانی فیصلہ کرنے والوں کے ذاتی فائدوں کے پاکستان نے کچھ ڈیمانڈ نہ کی۔ پھر پاکستان کے تیسرے آمر جرنیل ضیاءالحق نے تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنے آپ کو ہی امریکا کے آگے بچھا دیا، اور روس کے خلاف ملک کو ”جہادستان“ بنا دیا۔ آپ مشرف دور کو دیکھ لیں، المشہور ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “میں ہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، افغانیوں کو اپنا دشمن بنا لیا، ہم نے امریکا و اتحادیوں کو اپنے اڈے فراہم کیے، اور بدلے میں کیری لوگر بل کے تحت سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ملتا رہا، جبکہ اُس سے دوگنا ہمارا دہشت گردی کے خلاف خرچہ ہوتا رہا۔ یہی نہیں بلکہ ہم دہشت گرد اپنے ملک میں لے آئے، دنیا بھر میں دہشت گردی میں ہماری الگ ہی پہچان بن گئی، کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ دہشت گرد حملہ نہ ہوتا ہے، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، فیصل آباد الغرض کوئی شہر دہشت گردی سے نہیں بچا تھا۔جبکہ ساتھ میں 90ہزار انسانی جانوں کی قربانی بھی دی۔ جبکہ بدلے میں مشرف کو کیا ملا؟ صرف اُس کے Tenureمیں اضافہ یا ذاتی مراعات؟ جبکہ اس کے برعکس مصر نے اپنے اڈے دینے کے بدلے اپنے تمام قرضے معاف کروا لیے۔اور ہمارے سیاستدان محض اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ لہٰذااگر تو کوئی ایسی ہی ڈیل کرنی ہے تو پھر جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دیں، کیوں کہجو کیسز عمران خان پر بنائے گئے ہیں وہ تمام سیاسی نوعیت کے ہیں، جن کی وجہ سے آج نہیں تو کل اُن کی ضمانت ہو جانی ہے، لہٰذااُسے امریکا کے احسان تلے نہ دبنے دیں۔ کیوں کہ اگر خان بھی امریکا کے احسان تلے دب گیا تو وہ بے کار ہو جائے گا۔ اور پھر امریکا کے لیے ہمدردی، یا امریکا کی خوشنودی حاصل کرنا، یا اُس سے ڈکٹیشن لینا، یا اُس کو اپنے ملک کے اندرونی فیصلوں کا حق دینا، یا اُسے دعوت دینا کہ وہ آئے اور عمران خان کو ریلیز کروائے۔ درحقیقت یہ رویہ ہمارے سیاستدانوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اور یہ خودغرضی اوپر سے نیچے شفٹ ہو رہی ہے۔ ہمارے افسران بالا خواہ وہ سول اداروں سے ہوں، سکیورٹی اداروں سے یا پرائیویٹ۔ آپ سبھی کے بارے میں یہ بات سنیں گے کہ یہ امریکی نیشنل بن چکے ہیں ، یا ان کا خاندان امریکا میں سیٹل ہے۔ تو پھر اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے، کہ یہ لوگ امریکا کے پیروکار نہ ہوں۔ اسی لیے یہ ذاتی مفاد کے لیے امریکا کی گڈ بک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اُس سے ذاتی فائدے لینا چاہتے ہیں،بلکہ امریکا بھی اب تو یہ جان چکا ہے کہ یہ ہمارے بغیر نہیں رہ سکتے، یہ آگے سے زبان بھی نہیں چلاتے، نہ ہی گردن اُوپر کرتے ہیں، اور ہم ان کی مجبوری بن چکے ہیں، تو پھر وہ جان بوجھ کر پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اپنی بات منواتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مشرف دور میں اسی طرح ایک دو امریکی قتل ہوئے، جس طرح آج کل چینی مسائل کا شکار ہیں، لیکن اُس وقت امریکن قونصلیٹ نے آکر ہمارے تمام بڑوں کی بے عزتی کی تھی اور یہ گردن نیچی رکھ کے سنتے رہے تھے۔ الغرض ہم تو امریکا کے کہنے پر چلتے ہیں۔ اگر یہی روش رہی تو ہم بہت جلد امریکی ریاست بن جائیں گے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرکے اُن پر یقین رکھنا چاہیے، امریکا پر نہیں، اگر ہم امریکا سے توقعات لگانا شروع کردیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اُسے اپنے ملک میں مداخلت کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ آپ ان سیاستدانوں یا افسران پر نہ جائیں کیوں کہ یہ تو ریٹائرڈ ہو کر جاتے ہیں وہاں پر ہیں، ان سے کیا گلہ!بلکہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے کبھی امریکہ کو لفٹ نہ کروائیں ،،، اور رہی بات امریکی ایلچی کی تو وہ بہت متنازعہ شخصیت ہے، تبھی اُسے شمالی کوریا، وینزویلا، یا پاکستان جیسے ٹوٹے پھوٹے ممالک کا ایلچی لگایا ہے،،، یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ امریکا کی نظر میں ہماری اہمیت کیا ہی رہ گئی ہے!!!