اُمید وار میئرنیویارک ممدانی:” تبدیلی“ کی ہوا چل پڑی!

اس ہفتے امریکا کے ”سیاسی ایوانوں“ میں ایک عجیب سے ”واقعہ“ پیش آیا کہ یہودی لابی کے گڑھ نیویارک میں ، جہاں مسلمان کم و بیش 5فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، وہاں پر ایک مسلمان اُمیدوار ظہران ممدانی کے جیت جانے سے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیلی لابی اور ایلیٹ کلاس حیران بھی ہیں، پریشان بھی ہیں، انگشت بدندان بھی ہیں اور سب سے اہم بات کہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے،،، کیوں کہ یہ وہاں کے عوام کا فیصلہ ہے! صورتحال کچھ یوں ہے کہ رواں سال حلف اُٹھانے والے ریپبلکن پارٹی کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ہی ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سرفہرست غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینا، غیر ملکی تارکین وطن کو بے دخل کرنا، میڈیا کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ، غیر سفارتی زبان کا استعمال اور اُن کی شخصیت کو لے کر بہت سے مسائل ہیں۔ ایسے میں اُن کی مخالف پارٹی ڈیموکریٹک کا نیویارک میں میئر کے انتخاب کے لیے پرائمری الیکشن یعنی جماعت کے اندر الیکشن ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹس کی جانب سے میئر نیویارک کا اُمیدوار کون ہوگا،،، یہ مقابلہ نیویارک کے سابق گورنر،تجربہ کار سیاستدان اینڈریو کومو اور 33سالہ ظہران ممدانی کے درمیان تھا،،، جس میں ممدانی نے 43فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ اُن کے مخالف کومو نے 36فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی شکست تسلیم کی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ظہران ممدانی کو جو ووٹ ملے وہ صرف مسلم ووٹ نہیں بلکہ یہودی یوتھ، عیسائی یوتھ، مسلم یوتھ اوردیگر مذاہب کی 90فیصد یوتھ نے ووٹ دیا جو امریکی پالیسیوں سے تنگ اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ یہاں کی مسلمان آبادی بھی مختلف مسلکوں اور ضمنی شناختوں میں بٹی ہوئی ہے، اور اگر یہ پوری برادری مل کر بھی انھیں ووٹ دیتی، تب بھی کامیاب نہ ہوپاتے۔ خیر ممدانی کامیاب ہونے کے بعد بعد نیو یارک شہر کے میئر کے انتخاب کے لیے ظہران ممدانی باقاعدہ ڈیموکریٹ امیدوار منتخب ہو گئے ۔ اگر ظہران ممدانی نومبر میں ہونے والے میئر کے الیکشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں(جس کے 99فیصد چانسز اس لیے ہیں کہ نیویارک میں ہمیشہ ڈیموکریٹک اُمیدوار ہی کامیاب ہوتا ہے) تو وہ نیویارک کی قیادت کرنے والے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی میئر ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوا کہ نیویارک جیسے دنیا کے سب معروف کاروباری شہر میں جہاں دنیا سوتی نہیں ہے،،، بلکہ 24گھنٹے کاروبار ہوتا ہے۔۔۔ وہاں پر ایک مسلمان اُمیدوار کامیاب ہوگیا اور نیویارک جیسے شہر کا اگلے چار سال کے لیے کنٹرول سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ ظہران ممدانی نے غزہ جنگ کے حوالے سے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ یہ ”جرا¿ت“ انہوں نے یہودی لابی کے درمیان میں رہ کر دکھائی۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ نریندر مودی بھی صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کی طرح جنگی مجرم ہے ان دونوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اگرنیتن یاہونیویارک کے دورے پر آئے تو وہ جنگی مجرم کو عالمی عدالت انصاف کے حکم پر گرفتار کرلیا جائے گا۔ظہران ممدانی کے اس بے باک اور واضح موقف سے اسرائیل اور انڈیا کے سفارتی حلقوں میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ اور امریکی سیاسی ایوانوں میں ایسی ہلچل پیدا کردی ہے کہ نیویارک کے موجودہ میئر جو ڈیموکریٹک پارٹی ہی سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اپنی ہی جماعت کے آئندہ اُمیدوار سے خائف ہو کر اُن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ ممدانی کو ”پاگل“ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اتنے زیادہ دباﺅ کے باوجود ممدانی کا کامیاب ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اب موسم بدل رہا ہے،،، امریکی پینٹاگون اور اسرائیل کی پالیسیوں سے خائف ہو چکے ہیں۔ اور اسی چیز کی پریشانی اسرائیل اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ہے کہ وہاں کی یوتھ اب جنگی پالیسیوں سے تنگ آچکی ہے۔ لوگ اب غزہ میں پونے دو سال سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اور پھر صرف امریکی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ ایسا چاہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ دنیاکے ہر ملک میں اب 90فیصد سے زائد لوگ ایسے ہیں،خاص طور پر مڈل مین جو اسرائیل کی پالیسیوں کو اچھا نہیں سمجھ رہے اور اس سے نفرت کرتے ہیں۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ ممالک میں بڑے بڑے جلوس نکالے، لیکن اگر کچھ لوگ بوجوہ احتجاج نہیں کر سکے، وہ بھی اسرائیل مخالف ہیں۔ دراصل ظہران ممدانی کی کامیابی امریکی سیاست میں اخلاقی اور سیاسی بغاوت کا پہلا کامیاب اور کھل کے ایک اظہار ہے، جس میں بائیں بازو سے وابستہ یوتھ کی ایک بڑی مگر خاموش کلاس ہے، جو طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر دبی ہوئی تھی، خاص طور پر اسرائیل اور غزہ سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے تناظر میں اس یوتھ نے امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ کی حمایت کرنے پر سٹوڈنٹس کے خلاف پولیس کی ظالمانہ کارروائیاں دیکھیں۔ آخر یوتھ کا غصہ تو نکلنا تھا۔ممدانی، جو ایک ڈیموکریٹک پارٹی میں سوشلسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی فوجی اقدامات کے دیرینہ ناقد ہیں، انھوں نے ایک ایسا منشور بھی پیش کیا جس میں امریکی معاشرے میں معاشی انصاف کو غزہ پر بمباری کے خلاف ایک بے لاگ اخلاقی مو¿قف کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ لہٰذااب ایلیٹ کلاس ،اسرائیل اور امریکی اسٹیبشلمنٹ کو پریشانی یہ آرہی ہے کہ وہاں کی تمام یوتھ ان کی پالیسیوں کے برخلاف ہو چکے ہیں۔ اور خاص طور پر ری پبلکن پارٹی کو اپنی حکومت کے پہلے 6ماہ میں ہی سخت قسم کی مخالفت کا سامنا ہے۔ میرے خیال میں امریکا اور اسرائیل کے ڈاﺅن فال کا پہلا سٹیپ اسرائیل ایران جنگ میں ایران کی فتح،،، جبکہ دوسرا سٹیپ وہاں کی یوتھ کا اپنی حکومت کی ”جنگ“ پالیسیوں سے متفق نہ ہونا ہے۔ بہرحال یہ خوش آئند بات ہے، کہ امن کے حوالے سے تبدیلی کی پہلی بنیاد نیویارک شہر نے رکھی،،، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ میں جب بھی اس شہر میں جاتا ہوں تو کبھی گھٹن محسوس نہیں کرتا۔ یہ لوگ کھلے دل سے آپ کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ شہر بنیادی طورپر کھلے ذہن کا حامل ہے۔ یہاں ہر مذہب اور نظریہ کے انتہا پسند کثیر تعداد میں موجود ہونے کے باوجود ”اقلیت“ ہی شمار ہوتے ہیں۔ شہر کا مزاج کھلاڈلا ہے۔ یہ ہر اجنبی کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ظہران ممدانی اسی شہر میں بڑا ہوا ہے۔ اس کے والد یوگنڈا سے وظیفے پر پڑھنے امریکہ آئے تھے۔ آبائی تعلق ان کا بھارت کے گجرات سے ہے۔ ظہران کی والدہ میرانائر ہیں جو مشہور فلمساز ہیں اور اپنی روشن خیالی کے لئے معروف۔ ظہران اپنے والد کی وجہ سے خود کو بھی مسلمان کہتا ہے اور اس پہچان کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں۔ جیسا کہ میںاوپر ذکر کیاکہ مسلمان نیویارک کی آبادی کا محض 5فی صد ہیں۔ ظہران مگر اس کے بارے میں کبھی فکر مند نہیں ہوا کیونکہ نظریاتی اعتبار سے وہ خود کو ”سوشلسٹ“ کہتاہے جو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہوئی تقسیم سے بالاتر ہوکر غریب انسانوں کی یکجہتی کے خواب دیکھتا ہے۔ 33سال کا جوان ہوتے ہوئے وہ بے تحاشہ توانائی کا حامل ہے۔ غالباََ اپنی فلمساز والدہ سے اس نے ابلاغ کا ہنر ورثے میں پایا۔ اس ہنر کو استعمال کرتے ہوئے وہ سوشل میڈیا کے لئے بنائی کلپس کے ذریعے نیویارک کے عام رہائشیوں تک اپنا پیغام پہنچاتا رہا۔ بنیادی پیغام اس کا یہ ہے کہ اپنی محنت ومشقت سے نیویارک کو کبھی نہ سونے والا شہر“ بنانے والے اس شہر کے غریب باسیوں کے پاس دووقت کے کھانے کے پیسے بھی کیوں نہیں ہوتے۔ ہزاروں افراد کو کھلے آسمان تلے کیوں سونا پڑتا ہے۔ ان کے لئے سستے مکانات کیوں نہیں بنائے جاتے۔ ان کے علاج ومعالجے کی سہولتیں کیوں موجود نہیں۔ بہرحال امریکی میڈیا اس فتح کو ”حیران کن“ فتح قرار دے رہا ہے۔ جو اسرائیل کے بارے میں ڈیموکریٹس کے اندر پائے جانے والے اتفاق میں گہری دراڑوں کو ظاہر کرتی ہے۔ وہاں کی یوتھ اب یہ سوچ رہی ہے کہ غزہ کی جنگ اب صرف خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں رہی، یہ اب نوجوان امریکی ووٹرز، جس میں یہودی نوجوان بھی شامل ہیں، ان سب کے لیے ایک اخلاقی تقسیم کی لکیر بن چکی ہے۔ ممدانی کا پیغام ان ووٹرز میں خاص طور پر مقبول ہوا جو غزہ پر دونوں جماعتوں کی خاموشی سے بددل ہو چکے تھے۔ خود ممدانی نے کہا:”جب میں نے فلسطینی انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کی، تو یہ اس یقین کے تحت کیا کہ انصاف اگر سب کے لیے نہ ہو تو وہ انصاف نہیں رہتا۔“ اس قسم کی اخلاقی کلیریٹی، خاص طور پر ایک ایسے شہر میں جو طویل عرصے سے اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ تسلط رہا ہے، عوام کے لیے نہایت پرکشش ثابت ہوئی۔ بہرکیف ماہرین کے مطابق اگر آپ 2025 کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو دیکھیں کہ نیویارک میں کیا ہوا۔ ڈیموکریٹس اگر اس تبدیلی کو نظرانداز کریں گے، تو اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔” ممدانی کی فتح ایک انتباہ بھی ہے اور ایک مثال بھی۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینی حقوق کے لیے حمایت اب ترقی پسندوں کے لیے سیاسی بوجھ نہیں رہی بلکہ مناسب قیادت کے تحت یہ ایک کامیاب انتخابی حکمت عملی بن سکتی ہے۔شاید یہ الیکشنز امریکہ کے قومی رجحان کو ظاہر نہ کرتے ہوں لیکن یہ اتنا پیغام ضرور دیتے ہیں کہ اگر ایک طرف مغربی سوسائیٹیز میں قوم پرستی اور اینٹی امیگرنٹس رجعت پسندی بڑھ رہے ہیں تو وہیں کچھ جگہوں پر بائیں بازو کے ایسے رجحانات بھی تقویت پکڑ رہے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔قصہ مختصر کہ ممدان کی جیت یہ پیغام دیتی ہے کہ پرخلوص اور سچی نیت سے اگر غریب انسانوں کی فلاح کے لئے کوئی شخص سیاسی میدان میں ڈٹ کر کھڑا ہوجائے تو مختلف دھندوں کے اجارہ دار سیٹھ، نسل پرست اور متعصب گروہ اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ دنیا کو بھلائی کے لئے ایک نہیں ہزاروں ظہران ممدانی درکار ہیں۔