ملک کی اکثریتی پارٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے!

دوسرئے آئیکون انقلابی رہنما لینن کا تاریخ ساز قول ہے کہ ریاست اپنی ناکامی کے آخری دور میں انتہائی پُرتشدد ہو جاتی ہے۔ کیا آج ایسا نہیں ہے، ملک بھر میں پہلی بار ہر صوبے میں دفعہ 144کے نفاذ کے بعد سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں اور اُن کے گھروں میں چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں۔ آپ تحریک انصاف کو چھوڑیں جماعت اسلامی کے کارکنان تک کو پکڑا جا رہا ہے، لاہور سے امیر العظیم سمیت درجنوں کارکنوں کو صرف اس لیے اُٹھا لیا گیا ہے کہ یہ جماعت مہنگائی کے خلاف دھرنا دینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ یہ تو بھلا ہو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا کہ اُنہوں نے حکومت وقت کے ظالمانہ اقدام کے خلاف آواز حق بلند کی ورنہ تو موجودہ حکومت نے عوام سمیت ہر شعبے پر اتنا خوف پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ہر کوئی ان کے خلاف اُٹھنے کے لیے ہچکچاہٹ سے کام لے رہا ہے۔ لیکن کوئی بتائے گا کہ ہم کہاں پہنچ گئے ؟۔اب تو عوامی وسائل پر بے رحمانہ ڈکیتی مارنے والوں کے چہرے بھی لوگ خوب پہچانتے ہیں۔ نواز شریف صاحب! شکریہ آپ نے قوم کو اطلاع دی کہ وہ بجلی کا بل نہیں دے سکتے۔ یہی اطلاع اپنے چھوٹے بھائی کو پہنچائیں، جس کی حکومت نے 66روپے فی یونٹ بجلی کر دی ہے۔ اور اس کو دیںجس کی چنیوٹ پاور کو تین ماہ میں مبینہ طور پر 63کروڑ روپے سے زائد کپیسٹی پیمنٹ کا تحفہ ملا۔لیکن اس دوران قصور صرف تحریک انصاف کا ہے۔ اُسی کے کارکنان ، لیڈران اور خواتین کو جیل میں ڈال دیا گیا کہ یہ امن عامہ کی خرابی کا باعث بن رہی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ اگر آپ اُسے ایک پارٹی ہی تسلیم نہیں کریں گے تو اُس سے آپ کیسی توقع کر سکتے ہیں؟ حالانکہ اب تو الیکشن کمیشن نے بھی تحریک انصاف کو ایک پارٹی تسلیم کرکے گزشتہ روز 39اراکین اسمبلی کے نوٹیفکیشن جاری کر دیے تھے، اور باقی 41اراکین کا فیصلہ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ مطلب! جلد یا بدیر تحریک انصاف پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی بننے جا رہی ہے۔ اور پھر جب آپ سب سے بڑی پارٹی کو کھڈے لائن لگائیں گے، اُس پر پابندی کے فیصلے کریں گے تو بتایا جائے کہ آپ ملک میں کس طرح ایک ساز گار ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اور پھر سب سے اہم بات کہ یہ تمام زیادتیاں کرنے کے بعد آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف والے مذاکرات کی طرف نہیں آتے؟ کیا اس سے پہلے مذاکرات کا ماحول نہیں بننا چاہیے؟ کیا اُن کے میرٹ کو تسلیم کرناچاہیے، جو ایم این ایز تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اسمبلیوں تک پہنچ گئے ہیں، اُن کو ہی تسلیم کر لیں۔ اُس کے بعد قائدین جو غیر سنجیدہ مقدمات میں پابند سلاسل ہیں، اُن کو رہا کریں۔ جو پارٹی سربراہ ہے ، اُسے آپ نے بے شمار مقدمات میں گرفتار کر رکھا ہے، اُسے ریلیف دیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو کیسے توقع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی آپ کے ساتھ چلے۔ اور ویسے بھی چلنا تو آپ نے ہے، کیوں کہ حکومت تو آپ کی ہے۔ فی الحال تو آپ یہ کر رہے ہیں کہ جو لیڈر ہا ہوتا ہے، آپ اُس پر نیا مقدمہ بنا دیتے ہیں۔ ابھی ایک چھوٹا سا جلسہ کرنا ہے ، تحریک انصاف نے ، ہائیکورٹس آپ کو کہہ کہہ کر تھک گئی ہے ، لیکن آپ عین اُس وقت دفعہ 144نافذکرکے ماحول خراب کر دیتے ہیں۔ جب آپ ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں تو پھر آپ دوسروں سے کیسے کسی اچھے کی توقع کر سکتے ہیں۔ بلکہ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جس نے میچ جیتا ہووہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہارنے والا تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتا۔ اور نہ ہی آپ اُس سے اُمید کر سکتے ہیں۔ اور رہی بات 9مئی کے واقعات کی تو اس پر جوڈیشل کمیشن بنانے میں آخر مسئلہ کیا ہے۔ اس واقعہ کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، آپ اُس پر بضد ہیںکہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنانا۔ حالانکہ اس کمیشن کا فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ خود بھی بری الذمہ ہو جائیں گے، اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اگر تحریک انصاف واقعی اس میںملوث ہوئی تو اُسے سزا ملے گی اور اگر جو کوئی بے قصور ہوا اُسے انصاف ملے گا۔ لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو بتایا جائے کہ فیصلہ کون کرے گا؟ جبکہ اس کے برعکس اگر جوڈیشل کمیشن فیصلہ کرے گا تو میرے خیال میں بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔اس وقت موجودہ صورتحال کے جوڈیشل کمیشن نہ بنا کر خود اس ساری صورتحال کو متنازع بنا دیا ہے، جبکہ دوسری طرف آپ کسی کو ابھی تک سزا نہیں دے سکے اور 9مئی تو آپ نے خود متنازع کردیا ہے۔ پوری دنیا میں اب یہ 9مئی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ صرف اس کو اس وقت لوگوں کو جیل میں رکھنے کے لیے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے کوئی مقاصد نہیں ہیں۔ خیر اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ جیت گئے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ وقت گزر جاتا ہے، لیکن ظالم کا ظلم ہمیشہ تاریخ کا سیاہ باب بن جاتا ہے۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا،یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔لیکن وقت گزر گیا....اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا،اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا،ولیم والس ہار گیا۔وقت گزر گیا۔ اسی طرح گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی،یہ سزا 1633میں سنائی گئی۔ گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642میں وہیں اُس کی وفات ہوئی،پادری جیت گئے،سائنس ہار گئی۔وقت گزر گیا۔جیو رڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنایا گیا۔برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں،مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا،برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا۔ 8فروری1600کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا، تو برونو نے تاریخی جملہ کہا”میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوںجتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔“برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔وقت گزر گیا۔ حجاج بن یوسف جب خانہ کعبہ پر آگ کے گولے پھینک رہا تھا تو اُس وقت ابن زبیرؓ نے جوانمردی کی تاریخ رقم کی، انہیں مسلسل ہتھیار پھینکنے کے پیغامات موصول ہوئے۔ مگر آپ ؓ نے انکار کر دیا،اپنی والدہ حضرت اسما ئؓسے مشورہ کیا،انہوں نے کہا کہ اہل حق اس بات کی فکر نہیں کیا کرتے کہ ان کے پاس کتنے مددگار اور ساتھی ہیں، جاﺅ تنہا لڑو اور اطاعت کا تصور بھی ذہن میں نہ لانا،ابن زبیر ؓ نے سفاک حجاج بن یوسف کا مقابلہ کیا اور شہادت نوش فرمائی،حجاج نے آپؓ کا سر کاٹ کر خلیفہ عبدالمالک کو بھجوا دیا اور لاش لٹکا دی،خود حضرت اسماؓ کے پاس پہنچا اور کہا تم نے بیٹے کا انجام دیکھ لیا،آپؓ نے جواب دیا ہاں تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اُس نے تیری عقبیٰ بگاڑ دی۔حجاج جیت گیا،ابن زبیر ؓ ہار گئے۔وقت گزر گیا....ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضا بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا،اُس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا، مقصد اُن کی ہتک کرنا تھا،بعد ازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انہیں زہر دے کر مروا دیا گیا،نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔منصور جیت گیا،امام ابو حنیفہ ہار گئے۔وقت گزر گیا۔ بہرکیف تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا،بلکہ حق اور سچ اور باطل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام واقعات میں ظالم طاقتور تھا، مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کی کوششیں ، حق گوئی اور سچ زیادہ طاقتور تھا۔ آج بھلے ہی حکومت یہ سمجھ رہی ہو کہ وہ فاتح ہے، لیکن یاد رکھا جائے کہ اس لڑائی میں فاتح وہی ہے جو حق پر ہے۔ جو حق پر نہیں وہ یقینا یا تو ایتھنز کا حکمران ہے، یا ایڈورڈ اول ہے یا غلط فیصلے کرنے والے پوپ ہیں، یا وہ حجاج بن یوسف ہے، یا وہ ابوجعفر منصور ہے ! لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ وہ بزور طاقت اپنے جوہر دکھانے سے گریز کرے اور اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اگر کسی شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی پر خواہ آپ ظلم کریں لیکن تاریخ میں وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج سے چند برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا،مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔سو آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کیوں نہ خود کو ہم ایک بےرحم کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ تھما دیا تھا،کہیں ہم برونو کو زندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے،کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے،کہیں ہم امام ابوحنیفہ اور امام مالک پر کوڑے برسانے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے،کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے۔ قصہ مختصر کہ حکمران اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو پارٹی تسلیم کریں،اور اُس کے لیے مذاکرات کا ماحول سازگار بنائیں۔ اور ملک میں استحکام آنے دیں ورنہ سب ختم شد!