جالب جمہوری میلہ: انقلاب کی پہلی شرط ایمانداری ہے!

اتوار کو چھٹی کے روز کسی تقریب کے لیے نکلنا خاصا مشکل ہوتا ہے، لیکن پھربھی ”جالب جمہوری میلہ“ میں کاسمو پولٹین کلب باغ جناح لاہور میں جانا پڑا۔ ویسے جانے کا شوق اس لیے بھی تھا کہ وہاں بہت سے ”انقلابی“ دوستوں کی آمد بھی متوقع تھی اور ساتھ ایسے میلوں میں نوجوانوں خون کو گرمانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس میلے میں انقلابی شاعر حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ حبیب جالب سمیت بہت سے مقررین نے شرکت کی۔ میلے میں سرخ تھیٹر کے عنوان سے تھیٹر بھی پیش کیا گیا۔ شیما کرمانی اور ان کے گروپ کا کلاسیکل رقص پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ پشتون، بلوچ، سرائیکی، سندھی، پنجابی، گلگتی اور کشمیری گروپ بھی ثقافتی رقص بھی پیش کیا گیا۔ اور میوزیکل پروگرام کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس کے علاوہ درجن بھر مقررین نے خوب انقلابی تقریریں کیں،،، اور راقم کو بھی ”فکر جالب“ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔ مجھے جالب میلے میں بہت سے اچھی چیزیں بھی لگیں لیکن کچھ چیزوں میں بہتری لائی جا سکتی تھی۔ لیکن جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا، وہ یہ تھا کہ ہماری نوجوان نسل غالب کے انقلابی خیالات اور ”مزاحمت“ کے conceptسے ہی نابلد تھی۔ تبھی میں نے تنقیدی بھاشن بھی جھاڑ دیا کہ کونسا انقلاب؟ ہم کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں؟ کہاں سے اور کیسے آئے گا انقلاب؟ کیا کسی کو علم ہے کہ انقلاب کیسے آتے ہیں؟ کیا انقلاب کوئی گاڑی، یا ضرورت اشیاءہے جو باہر سے امپورٹ کر لیں؟ جس ملک کی مسجد کے لوٹوں کی حفاظت کے اقدامات اُٹھائے جائیں، واٹرکولرکے ساتھ گلاس کو لوہے کی زنجیر کے ساتھ باندھا جائے، ٹریفک سگنل توڑنا فیشن سمجھا جائے، جس ملک کے بچوں کو خالص دودھ نہ ملتا ہو، جس ملک میں ادویات میں چونے کی ملاوٹ کی جائے،جس ملک میں جعلی سٹنٹ ڈالے جا رہے ہوں، جس ملک میںڈاکٹرز میڈیسن کمپنیوں و لیبارٹریوں سے اپنا کمیشن وصول کریں ، کرپشن عام آدمی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو، جبکہ سرکاری سطح پر ایمانداری میں ہمارا نمبر 144واں ہو کیا وہاں انقلاب آسکتا ہے؟ یہاں ہم نے اس تقریب میں انقلاب کے بہت سے نعرے لگائے ہیں، میوزک بھی دیکھ لیا ہے، رقص وغیرہ بھی خوب دیکھ لیا ہے، گلوکاری بھی دیکھ لی ہے۔ بلکہ ہم انقلاب کے حوالے سے فل چارجڈ بھی ہوگئے ہیں لیکن ہم جیسے ہی یہاں سے باہر نکلیں گے، ہم سب کچھ بھول چکے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود انقلاب نہ لائیں، یا اس میں Participateنہ کرےں بلکہ دوسروں سے اُمید لگا لیتے ہیں، کہ وہ بارش کا پہلا قطرہ بنیں۔۔۔ اورپھر یہی نہیں بلکہ ہم گھر بیٹھ کر حکومت، سرمایہ دار، امراءاور سرکار ی افسران کو گالیاں دے کر سمجھتے ہیں کہ اب انقلاب آئے گا ہی آئے گا۔ کیا آپ جب یہاں سے نکلیں گے، اور باہر نکلتے ساتھ آپ ٹریفک سگنل توڑیں گے، اور پکڑے جانے پر مزید جھوٹ بولیں گے تو اس میں قصور آپکا ہے یا سرمایہ داروں کا؟ جب عام آدمی ایمان دار ہی نہیں ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انقلاب آئے۔ لہٰذااشرافیہ کو گالیاں دینے سے پہلے ہمیں اپنی صفیں درست کرنی چاہیے، اپنی صفوں میں موجود بے ایمانوں سے دوری اختیار کرنی چاہیے! اور پھر یہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی ورکروں کی تربیت کرنا ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو اُس کا انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ یہاں کوئی انقلابی سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے۔ یہاں کوئی سیاسی پارٹی موروثی ہے، کوئی راولپنڈی کو سلام کرکے چلتی ہے کہ جدھر کو اشارہ ملے، اُدھر ساتھ مل جاتی ہے، اس کی مثال آپ ایم کیو ایم، اے این پی، ن لیگ وغیرہ کی دے سکتے ہیں۔ ویسے ہم ماضی میں پیپلزپارٹی کو انقلابی پارٹی سمجھتے تھے، کیا اُس میں انقلابی پارٹی والی کوئی بات رہ گئی ہے؟ حالانکہ حبیب جالب اور بھٹو کا گہرا تعلق رہا ہے،بھٹو اور حبیب جالب میں گہری دوستی تھی۔جب 1967ءمیں بھٹو جنرل ایوب خان کے خلاف تھے، اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے تو جالب نے بھٹو کے لیے نظم بھی لکھی تھی۔ جس کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔ دستِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا دل تنگ کیوں ہے رات کی تاریکیوں سے تو± ہو گی صبح نو کی کرن چھوڑ کے نہ جا اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی کہ احترامِ رسم کہن چھوڑ کے نہ جا اور پھر حبیب جالب جیسی شخصیت کبھی عہدوں کی محتاج نہیں رہی۔ بھٹو ایک دفعہ لاہور آئے تو حبیب جالب کافی ہاﺅس میں بیٹھے تھے، لہٰذااُنہیں پیغام ملا کہ بھٹو صاحب، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جالب کا کہنا تھا کہ جس نے مجھے ملنا ہے، کافی ہاﺅس آ جائے۔ بھٹو صاحب، حبیب جالب سے ملنے کافی ہاﺅس پہنچے ۔بھٹو، جالب صاحب سے مخاطب ہوئے۔ ”آپ وہ نظم سنائیں جو آپ نے میرے بارے میں لکھی ہے“ جالب بولے ”آپ کے لیے کہی گئی نظم آپ کے سامنے سنانا سراسر خوشامد ہو گی، جو میری فطرت کے خلاف ہے“ بھٹو مسکرائے اور چلے گئے۔ لیکن جیسے ہی بھٹو اقتدار میں آئے اور جالب نے اُن کے غلط اقدامات پر تنقید شروع کر دی، جسے بھٹو نے سخت ناپسند بھی کیا۔ پھر ایک تقریب میں بھٹو کی موجودگی میں حبیب جالب نے ایک نظم پڑھی حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے جیل میں ڈال دیا۔ خیر جالب کے بھٹو کے خلاف ہونے کی ایک بڑی وجہ اُن کا بلوچستان پر چڑھائی کرنا بھی تھا۔لیکن انہوں نے مرتے دم تک سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا۔ اس کے لیے وہ ہر دور میں پابند سلاسل رہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہم سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے پر تلے رہتے ہیں،، ہم اپنے پارٹی قائدین یا ”باس“ کے خلاف بات کرنے سے گھبراتے ہیں، بلکہ ہر قیمت پر پارٹی کے ساتھ چلنے کو ترجیح دیتے ہیں، یا جیسے احکامات آئیں اُس پر عمل کرنے کو یقینی بناتے ہیں، خواہ وہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف گھسیٹ رہے ہوں، موروثیت کی طرف یا ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہوں۔ ہم نے اُس کی سپورٹ ہی کرنی ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں، بلکہ گزشتہ سال 8فروری کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی ، ہارنے والوں کو تو علم تھا ہی کہ اُنہیں کیسے ہرایا گیا مگر فارم 47کی مدد سے جیتنے والوں کو بھی علم تھاکہ وہ کس طرح جیتے ہیں ،،، لیکن مجال ہے کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے مستعفی ہوتے ہیں،،، ہاں! خواجہ سعد رفیق کو جب شکست ہوئی تو اُنہوں نے شکست کو نا صرف تسلیم کیا، بلکہ اپنی پارٹی سے بھی کہا کہ ہمیں عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے، ،، اور پھر اگر آپ سرکاری افسران کی بات کریں تو پنجاب میں اس سے بھی بدترین دھاندلی کروائی گئی،،، اور پورے صوبے میں سے صرف تین بیوروکریٹ نے ”سرکاری“ احکامات ماننے سے انکار کیا، باقی ہزاروں بیوروکریٹس نے ویسے ہی کیا جیسے اُنہیں کہا گیا۔ کیا انقلاب ایسے آتے ہیں؟ کیا 10،15فیصد بیورو کریسی میں بھی اتنی جرا¿ت نہیں تھی کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو سُن سکیں۔ لہٰذاجب حالات ایسے ہوں گے تو انقلاب کون لائے گا؟ انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ اسے ہم اپنے آپ سے شروع کریں، ہم رشوت خور کو عزت دیتے ہیں، سمگلرز کو ہم اُٹھ کر ملتے ہیں، جب تک ہم اس complexسے نہیں نکلیں گے، جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنا نہیں سیکھیں گے، انقلاب کیسے آسکتا ہے؟ انقلاب صرف وہاں آتا ہے، جہاں لوگ ایماندارانہ رائے رکھتے ہوں،،،جہاں لوگ خود قانون کی پاسداری کرتے ہوں،،، ابھی گزشتہ سالوں میں فرانس کے لوگ مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لیے نکلے تو انہوں نے حکومت کا جینا دوبھر کر دیا تھا،،، حتیٰ کہ کئی مہینے تک احتجاج جاری رہا، جس میں بالآخر عوام کو کامیابی ملی۔ بہرکیف جب تک ہم اپنے آپ کو ایماندار نہیں بنائیں گے، اُس وقت تک ہمیں لینن کو پڑھنے کا، موﺅزے تنگ کو پڑھنے کایانیلسن منڈیلا کو پڑھنے کایا دیگر انقلابی لیڈروں کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ معذرت کے ساتھ ماسوائے چند ایک کے یہاں حبیب جالب کے بارے میں علم ہوگا، نہ اُنہیں کسی نے پڑھا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ پڑھنا ہوگا کہ حبیب جالب کے کچھ خواب تھے۔ عدل و انصاف اور برابری کی بنیادوں پر قائم ہونے والے معاشرے کا خواب، روشنی کا خواب، اس کی تعبیر کے لیے وہ اپنے حصے کا دیا جلا کر رخصت ہو گئے۔ ایسے مصلحت اندیش معاشرے میں کہ جہاں اکثر لوگ”چلو تم ا±دھر کو ہوا ہو جدھر کی“ والے مقولے پر عمل کرتے ہیں، جالب جیسے دیوانے کی واقعی بہت ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے خود کے اندر کو ٹھیک کرنا پڑے گا،،، انقلاب لانے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو اُن اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی جو ہم دوسروں میں یا حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو دیکھ لیجیے گا کہ انقلاب اپنا راستہ خود بناتا ہوا آجائے گا!