نوابزادہ نصراللہ خان: سیاسی تاریخ کا درخشندہ ستارہ !

پاکستان میں عوامی ، جمہوری حقوق اور آئین وپارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کے سپہ سالار ، بابائے جمہوریت اگر کوئی ہے تو وہ ہیں،نوابزادہ نصر اللہ خان۔ آپ آئین وقانون کی پاسداری ، پختہ سوچ اور ثابت قدمی کے کوہ گراں تھے۔ صحافی تھے ، شاعر بھی تھے، مہمان نواز تھے، نگہ بلند ،سخن دلنواز اور بے داغ ماضی رکھتے تھے۔لیکن ایسے سیاستدان کو بھول جانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے، جبکہ لٹیروں کے گن گانا ہماری اولین ذمہ داری بن چکی ہے۔ یعنی نوابزادہ صاحب کی برسی ابھی گزشتہ روز یعنی 26ستمبر کو گزری لیکن گزشتہ18سالوں کی طرح اس سال بھی نہ تو اپوزیشن کو وہ یاد آئے اور نہ ہی حکومت کو۔ حالانکہ اُنہیں سیاسی تاریخ میں ”بابائے جمہوریت “کہا جاتا ہے۔ بابائے جمہوریت اس لیے کہ انہوں نے تمام زندگی جمہوریت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا، نوابزادہ کے والد محترم سیف اللہ کو 1910ءمیں انگریزوں نے ”نواب“ کے خطاب سے نوازا اور 11گاﺅں الاٹ کیے مگر نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی خاندانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے انگریز حکومت سے تعاون کی بجائے ان کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت ”یونینسٹ پارٹی“ میں شامل ہونے کی بجائے مجلس احرار میں شمولیت اختیار کی۔ اسی لیے ان پر انگریز دور میں غداری کا مقدمہ بھی بنا۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب مغربی پاکستان میں انتخابات ہوئے تو انہوں نے 2 نشستوں پر انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئے مگر جب مسلم لیگ کی قیادت ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوئی تو علیحدگی اختیار کرلی اور عوامی لیگ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی ایوب خان کے آخری دنوں تک جاری رہی۔ مگر جب ایوب خان کی منعقدہ گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے 6 نکات رکھے تو انہوں نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے ہمیشہ سیاسی جنگ لڑی، لیکن سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں کبھی ڈھلنے نہیں دیا۔ وہ جب تک زندہ رہے، ہر سیاسی اتحاد کا اہم ترین حصہ رہے۔ 1962میں جیسا کے میں نے پہلے بتایا کہ اُن کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) وجود میں آیا۔ ایوب آمریت کے خلاف اُن کی مسلسل جدوجہد نے ہی ایوب خان کو گول میز کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کیا، نواب صاحب اُس اتحاد کے کنوینر تھے۔ 1970میں اُنہوں نے غلام مصطفیٰ کھر سے شکست کو قبول تو کر لیا لیکن جیسے ہی بھٹو صاحب نے حکومت بنائی، نواب صاحب نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں بھٹو کے خلاف تمام اپوزیشن کو یکجا کر لیا اور 1977کے انتخابات سے قبل 9جماعتوں کا قومی اتحاد(پی این اے) بنا کر بھٹو صاحب کی مقبول شخصیت اور مستحکم حکومت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔پھر پاکستان نیشنل الائینز اور بھٹو حکومت کے درمیان نئے انتخابات کرانے کے معاملے پر اپریل تا جون تھکا دینے والے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوااس میں پی این اے کی جانب سے مولانا مفتی محمود ، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد جبکہ پیپلز پارٹی کی سہہ رکنی مذاکراتی ٹیم میں بھٹو کے علاوہ مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ شامل تھے۔ جب 2جولائی کو سمجھوتہ ہوا تو اس کا حتمی مسودہ پروفیسر غفور اور حفیظ پیرزادہ نے تیار کیا تھا۔لیکن ان کامیاب مذاکرات کی خبر جب جنرل ضیاءالحق کو دی گئی تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور پھر مارشل لاءلگا دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے راقم کو بتایا کہ یہاں جنرل ضیاءالحق نے زیادتی کی تھی۔ اگر اُس وقت جنرل ضیاءالحق دوبارہ الیکشن کے لیے مان جاتے تو بھٹو بھی زندہ رہتے اور قوم کے 11سال بھی مارشل لاءکی نذر نہ ہوتے۔ ویسے تو میری اُن سے کئی ایک ملاقاتیں تھیں، کبھی اُن کے گھر لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرائے کے مکان میں، جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کیلئے آتے تھے۔ تو کبھی ماڈل ٹاﺅن میں ہمارے ایک ”مشترکہ“ ڈینٹسٹ ہوا کرتے تھے، وہاں اکثر ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ اُن سے ایک بار میں نے پوچھا کہ آپ جب کسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں اوروہ اقتدار میں آجاتی ہے تو آپ اُس جماعت کی مخالفت کیوں شروع کر دیتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ جمہوریت کی سپورٹ کرتا ہوں اور حق کی بات کرتا ہوں، اور ہمارے ہاں روایت ہے کہ لوگ اقتدار میں آکر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں، ”بادشاہ“ بن جاتے ہیںاور غیر ضروری اکڑ میں آکر کوئی گندہ کھیل کھیلتے ہیں تو میں اُسی وقت پیچھے ہٹ جاتا ہوں ، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری ساری زندگی گند صاف کرتے ہوئے گزر گئی ہے۔ پھر انہوں نے اپنی بات کو طول دیتے ہوئے اس دکھ کا اظہار کیا کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو کچھ اور رویے رکھتی ہیں، لیکن جب یہی اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے تیور ہی بدل جاتے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی ضیاءالحق کے مارشل لاءکی تو جن دنوں ہم جیالوں اور پوری بھٹو کابینہ کو گرفتار کر کے ”قلعوں“ کی سیر کروائی جا رہی تھی، انہی دنوں پی این اے کے رہنماﺅں کو بھی حراست میں لیا جا رہا تھا، اسی وجہ سے نوابزادہ سخت نالاں بھی نظر آئے، پھر بھٹو کو پھانسی ہوگئی، اورتب ہی نوابزادہ نصراللہ خان جنرل ضیاءالحق کے بھی خلاف ہوگئے اور بحالی جمہوریت کے لئے ”ایم آرڈی“ کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیاءالحق کو 1985میں انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔اُس وقت ایک دوسرے کے بدترین مخالف بیگم نصرت بھٹو، اے آر مارشل خان اور سردار شیرباز مزاری کو ایک میز پر بٹھانے کا ناقابلِ یقین کارنامہ بھی نوابزادہ صاحب نے ہی انجام دیا۔پھر 1988کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے سے ملک میں جمہوریت آگئی لیکن، محترمہ اپنے کہے اور کیے ہوئے سے مکر گئیں تو نوابزادہ صاحب نے اِس مرتبہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن کو اکٹھا کیا اور صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو رخصت کردیا۔ 1990میں میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو نوابزادہ صاحب ایک مرتبہ پھر اُن کی حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے اور پی پی کے ساتھ مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھ دی اور نواز شریف کی رخصتی کے بعد بے نظیر دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو اس مرتبہ اُنہوں نے نوابزادہ صاحب کو تمام مراعات اور اختیارات کے ساتھ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت رخصت ہوئی تو انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے لیکن اِس مرتبہ بھی وہ نوابزادہ صاحب سے نہ بچ سکے ۔پھر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نوابزادہ صاحب نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو یکجا کر کے بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آرڈی شروع کی اور پھر 2003ءمیں ان کا انتقال ہوگیا۔ بہرکیف نوابزادہ نصر اللہ خان رہنماﺅں کے رہنما تھے۔ ہر وہ حکمران جس نے اقتدار میں ان کی مخالفت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا کہا،اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کے آستانے پر حاضری دیتا نظر آیا۔ ان کی وفات سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور آئینی طرز حکومت کی جدوجہد کو ایک بڑا دھچکا لگا اور پاکستان ایک حقیقی جمہوری رہنما سے محروم ہوگیا۔ آپ نے اپنی شاعری سے بھی آمروں پر طنز کے تیر برسائے، قوم کی محرومیوں کا شکوہ کیا، مگر سوچ کے پختہ اس شاعر کو کبھی جواب شکوہ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔وہ ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاءکہتے ہیں اگر اُن کی کرپشن کی بات کی جائے تو نوابزادہ صاحب کی سیاست اور اجلے کردار کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اہم ترین سیاسی عہدوں پر رہنے کے باوجود کبھی کوئی اہم سرکاری عہدہ یا وزارت قبول نہیں کی۔ لالچ ، طمع اور اقتدار کی ہوس سے کوسوں دور تہجد گزار نوابزادہ مرحوم نے زندگی بھر نہ تو کسی حکمران کو ملاقات کی درخواست دی اور نہ ہی کسی کو ان کی ایمانداری پر انگلی اٹھانے کی جرا¿ت ہو سکی۔اور اگر کشمیر کمیٹی کے کروڑوں روپے کا آڈٹ ہو تو اس میں ان کے حقے کی چلم کے لیے تمباکو کا خرچہ بھی شاید نہ نکلے۔ سیاست کے ذریعے مال کمانا، فیکٹریاں لگانا دور کی بات،وہ تواپنی زمینیں بیچ کرسیاسی سفر کی مسافتوں کو طے کرتے رہے۔ ہمیشہ صاف ستھری ،چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیض میں ملبوس دلآویز شخصیت کے مالک نوابزادہ نصر اللہ خان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور آخر وقت میں اپنی سیاسی یاداشتیں بھی لکھ رہے تھے۔ اچکن، ترکی ٹوپی اور حقہ ان کی ذاتی شناخت تھے۔ الغرض نوابزادہ جیسے بااصول، کھرے اور پرعزم سیاستدان کو ہر سال یاد کیا جانا چاہیے تاکہ جمہوریت کے خلاف پنپنے والی قوتوں کو یاد رہے کہ جمہوریت کے خلاف استعارہ آنے والی نسلوں کو یاد رہے گا اور مستقبل میں جب کبھی حریت فکر کی بات ہوگی، جب کبھی عوام اور جمہوری حقوق کا سبق دہرایا جائے گا،جب کبھی اسیروں کی کہانی سنائی جائے گی، تو نوابزادہ مرحوم ضرور یاد آئیں گے۔ ان کی عظمت ودانائی اور علم واستقامت کا تذکرہ تادیر زندہ رہے گا(آمین) #nawabzada nasarullah malik #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan