”روداد ستم“ حامد میرکی بہترین فکر انگیزتصنیف!

حامد میر کا شمار پاکستان کے بہترین صحافیوں میں ہوتا ہے،،، جنہوں نے ہر قسم کے حالات میں بھی سچائی کا دامن نہیں چھوڑا،،، وہ کبھی اپنے نقطہ نظر سے پیچھے نہیں ہٹے،،، حالانکہ کئی جگہوں پر اور اُن کے کالموں میں مجھے اُن سے بارہا اختلاف بھی رہا ،،، مگر اختلاف رائے ہونا اچھی بات ہے،،، ناکہ آپ بغض سے کام لیں،،،لیکن حامد میر کے مخالفین بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ بے باک صحافت کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ تبھی اس بے باکی کی وجہ سے اُن پر حملے بھی ہوئے، اُنہیں گولیاں بھی لگیں،، اور اُن کی گاڑی کے ساتھ بم بھی باندھا گیا۔ خیر یہ انہی کا حوصلہ ہے کہ یہ سب کچھ برداشت بھی کرتے ہیں،،، اور اپنے قلم میں تبدیلی بھی نہیں لاتے،،، حالانکہ ہم تھوڑا سا ”حکمرانوں“ کے خلاف لکھتے ہیں تو ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں،،، جبکہ حامد میر کی ویوور شپ بھی کروڑوں میں ہے تو یقینا وہ یہ سب آسانی سے نہیں سہتے ہوں گے۔ اور ایک اور بات جو ان کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ وہ ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں،،، اس کے لیے انہوں نے ماریں بھی کھائیں،،، انہوں نے ہر ہر حکمران کی خامیوں کو ڈسکس کیا،،، فضول کاسہ لیسی کبھی نہیں کی،،، آپ حامد میر کے متعلق کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ نواز شریف کی تعریف کرتے ہیں،،، یا شہباز شریف کے لیے صحافت کرتے ہیں،،، یا عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ،،، یا زرداری صاحب کے دربار میں حاضری دیتے رہے ہیں،،، انہوں نے ہمیشہ جس کی جہاں تعریف بنتی تھی،،، وہاں تعریف کی اور جہاں انہوں نے غلط فیصلے کیے اُن پر سخت تنقید بھی کی۔ وہ مقتدرہ کے بھی کبھی ہم زلف نہیں رہے،،،اور نہ ہی اُن کے لیے کبھی لکھا،،، مشرف دور پر اُن پر پابندی بھی لگی رہی،،، لیکن وہ اس یقین کے ساتھ جمہوریت کی بات کرتے رہے کہ ملک میں شاید کبھی نہ کبھی اصل جمہوریت ضرور قائم ہوگی۔ آپ عمران خان کے بارے میں حامد میر کی حالیہ سالوں میں رائے کو دیکھ لیں،،، کہ جب وہ اقتدار میں تھے،،، تو اُن کے سخت ناقد رہے،،، لیکن جیسے ہی انہوں نے اقتدار چھوڑا اور موجودہ سرکار نے اُن کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روایات قائم کی ،،، بلکہ تحریک انصاف پر پابندیوں کے حوالے سے بھی اُنہوں نے کھل کر مخالفت کی،،،انہوں نے بانی تحریک انصاف کی اچھی باتوں کو بھی اُجاگر کیا۔۔۔ بلکہ اُنہوں نے کہا کہ اصل جمہوریت کا ایک دن ڈکٹیٹر شپ کے سو سالوں سے بہتر ہے۔ خیر یہ تعریفیں میں میر صاحب کی اس لیے نہیں کر رہا کہ میرے اُن سے کوئی ذاتی تعلق ہے،،،یا وہ میرے کسی رشتے دار کے تعلق والے ہیں،،، بلکہ ہمارا محض صحافتی رشتہ ہے،،، اور گزشتہ دنوں اُن کی کتاب ”روداد ستم“ پڑھ کر تو میں اُن کا مزید گرویدہ ہوگیا۔۔۔ یہ کتاب محض یادداشتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ پاکستان میں طاقت کے مراکز اور آزاد صحافت کے درمیان جاری ایک طویل اور خونی کشمکش کی مستند دستاویز ہے۔گزشتہ دنوں اس حوالے سے کراچی اور لاہور میں اُن کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں مقررین نے بڑے خوبصورت انداز میں حامد میر کی خدمات کو سراہا،،، جبکہ اس موقع پر حامد میر کا کہنا تھا کہ جمہوریت، آئین کی بالادستی اور آزادی صحافت کی جدوجہد کسی سیاسی جماعت کے کارکن بن کر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر کی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کا تعلق پارلیمان کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔حامد میر نے بتایا کہ کتاب کا عنوان غزہ سے متعلق ہے اور یاد دلایا کہ قراردادِ پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین کی حمایت میں بھی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے سینئر صحافی حامد میر کو ایک بے باک اور نڈر صحافی قرار دیا اور کہا کہ وہ وہ اپنی جان کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود مسلسل سچ پر مبنی صحافت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حامد میر نے دباﺅ کے باوجود کبھی سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ ناانصافی کے خلاف توانا آواز بلند کی۔ ملک احمد خان نے کہا کہ یہ کتاب معاشرے میں موجود ناانصافیوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ حامد میر آئندہ بھی سچ کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ وہ حامد میر کے کردار کی گواہی دے سکتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے کبھی کرپشن یا عوامی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے کہا کہ ”رودادِ ستم“ حامد میر کے کالموں کا مجموعہ ہے جس میں مظلوموں کی آواز کو موثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ سعد رفیق کے مطابق ،،، تمام سیاسی جماعتیں جو ماضی میں اقتدار میں رہیں،،، یا ابھی اقتدار میں ہیں،،، انہیں مقتدرہ نے ہر دور میں ”مائنس“ کرنے کی کوشش کی،،، لیکن یہ مائنس نہیں ہوئیں،،، اور پھر ان سب کو مائنس کرنے والا ایک ہی ہے،،، وہ کبھی کسی کو سکیورٹی رسک بنا دیتا ہے،،، کبھی کسی کو،،، اس لیے سیاسی جماعتوں کو خود خیال کرنا چاہیے،،، کہ جب تک سیاسی جماعتیں جب تک خود متحد ہو کر جدوجہد نہیں کرتیں،،، یہ مشکل ہمارے سروں پر منڈلاتی رہیں گی،،،انہوں نے کہا اگر ہم اصلاح ِ احوال چاہتے ہیں توہمیں اپنے کئے پر شرمندہونا پڑیگا، میں نے کبھی کسی سیاستدان جرنیل یا جج کو اپنے یا اپنے اداروں کے کئے پر نادم ہوتے نہیں دیکھا،،، اپنی غلطیوں کو مانے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا ،،، ایک دوسرے کیلئے قوت برداشت پیدا کرنا ہوگی ، اگر مخالفانہ موقف سننے کی سکت پیدا نہیں ہوگی توہم ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں گے اور ریاست ہچکولے کھاتی رہے گی۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر کاظم خان نے کہا کہ بہت جلد حامد میر کو روداد ستم کے بعد ”روداد رحم“لکھناپڑے گی اور یہ رحم وہ لوگ مانگ رہے ہونگے جو آج جبر و ستم کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے ایک پرانا واقعہ یاد دلایا جب آئی ایس آئی سے بھاری رقوم لینے والوں کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ کے ریکارڈ سے ایک اہم دستاویز کو غائب کر دیا گیا اور پھر یہ دستاویز انہیں میں نے ڈھونڈ کر فراہم کی تھی،،، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے،،، بہرحال سبھی مقررین نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو خیال کرنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوں،،، ہمیشہ آمریت ایک سیاسی جماعت کو ساتھ ملا کر آتی ہے،،، اگر بے نظیر زندہ ہوتیں تو کبھی 27ویں یا 18ویں ترمیم نہ ہوتی،،، اگر عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتی تو آج کبھی بھی اُن کا گروپ حکومتی سپورٹر کا کردار ادا نہ کر رہا ہوتا،،، لہٰذاہمیں استعمال ہونے سے زیادہ ملک کے لیے کام کرناچاہیے۔۔۔ اگر ہم ایک بار پھر کتاب روداد ستم کی بات کریں تو یہ کتاب ہمیں اس تلخ حقیقت سے روبرو کراتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سوال اٹھانا، تحقیق کرنا اور سچ بیان کرنا آج بھی ایک خطرناک عمل ہے۔حامد میر نے اس کتاب میں اپنے صحافتی سفر کا آغاز ایک عام رپورٹر کی حیثیت سے کیا ہے، جہاں وہ بتاتے ہیں کہ صحافت میں آنے کا مقصد شہرت یا طاقت نہیں بلکہ معاشرتی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ مگر جیسے جیسے ان کی آواز طاقتور ہوتی گئی، ویسے ویسے ان کے خلاف دباو¿، الزامات اور دھمکیوں کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔ ”رودادِ ستم“ میں بیان کیے گئے واقعات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ پاکستان میں صحافی کو صرف خبر نہیں لکھنی پڑتی بلکہ اپنی جان، عزت اور خاندان کی سلامتی کا حساب بھی رکھنا پڑتا ہے۔ کتاب کا ایک اہم پہلو وہ تفصیل ہے جس میں مصنف ریاستی اداروں، خفیہ دباو¿، اور غیر اعلانیہ سنسرشپ کا ذکر کرتے ہیں۔ حامد میر یہ واضح کرتے ہیں کہ سنسرشپ صرف خبر روکنے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک منظم ذہنی جنگ ہے، جہاں صحافی کو یا تو خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر اسے متنازع بنا کر عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔”رودادِ ستم“ کا سب سے دردناک باب وہ ہے جس میں قاتلانہ حملے کی روداد بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعہ کسی فلمی منظر سے کم نہیں، مگر افسوس کہ یہ حقیقت ہے۔ کتاب میں یہ سوال شدت سے ابھرتا ہے کہ اگر ایک معروف صحافی پر دن دہاڑے حملہ ہو جائے اور آج تک اصل مجرم سامنے نہ آئیں تو عام شہری کے لیے انصاف کی امید کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے؟یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ حب الوطنی کا نعرہ کس طرح اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو سوال کرے وہ غدار، جو تحقیق کرے وہ ایجنڈا رکھتا ہے، اور جو طاقتور کو آئینہ دکھائے وہ ملک دشمن قرار پاتا ہے۔ حامد میر اس رویے کو فکری جبر قرار دیتے ہیں جو قوموں کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ بہرکیف حامد میر جیسے صحافی یقینا پاکستان کے لیے نعمت کا درجہ رکھتے ہیں،،، اور یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے پاکستان میں صحافت کا تھوڑا بہت جو معیار رہ گیا ہے،،، اُسے قائم رکھا۔ یہ واحد صحافی ہیں جن سے ہر حکومت ناراض بھی رہتی ہے ،،، اس کتاب میں اہم بات یہ ہے کہ مصنف خود احتسابی سے بھی نہیں کتراتے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بعض مواقع پر ان سے غلطیاں بھی ہوئیں، مگر وہ اس مو¿قف پر قائم رہتے ہیں کہ صحافت میں غلطی کا حل گولی نہیں بلکہ دلیل اور جواب ہونا چاہیے۔ یہی بات “رودادِ ستم” کو ایک سنجیدہ اور معتبر تحریر بناتی ہے۔یہ کتاب نوجوان صحافیوں کے لیے رہنمائی بھی ہے اور انتباہ بھی۔ رہنمائی اس لیے کہ یہ بتاتی ہے کہ سچ کی تلاش کیسے کی جاتی ہے، اور انتباہ اس لیے کہ یہ راستہ آسان نہیں۔ “رودادِ ستم” ہمیں باور کراتی ہے کہ اگر معاشرے میں صحافت کو خاموش کر دیا جائے تو اندھیرا صرف نیوز روم تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ”رودادِ ستم“ دراصل پاکستان میں آزادی اظہار کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھی گئی کتاب ہے۔ یہ کتاب قاری سے سوال کرتی ہے:کیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں سچ بولنے والا محفوظ نہ ہو؟اگر جواب نفی میں ہے تو پھر “رودادِ ستم” محض پڑھنے کی نہیں بلکہ سمجھنے اور اس پر سوچنے کی کتاب ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں حامد میر جیسے صحافیوں کو لمبی زندگی عطافرمائے اوراللہ انہیں ہر قسم کے ”شر“ سے محفوظ رکھے(آمین)