سپریم کورٹ فیصلہ! اب سیاسی استحکام آجانا چاہیے!

اس بار پھر جمعہ مبارک کو ایک اہم ترین سیاسی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آیا ہے ، اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا ہے۔یہ فیصلہ 8-5کے تناسب سے آیا۔جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس شاہد وحید،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اورجسٹس محمد علی مظہر نے اکثریت میں فیصلہ دیا۔جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب،خیبرپختونخوا او ر سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔ آگے چلنے سے پہلے مخصوص نشستوں کے بارے میں بتاتا چلوں کہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن کے ایک فارمولے کے تحت دی جاتی ہیں۔ مثلا قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 70 مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہر3.5 یا 4.5 جنرل نشستوں پر ایک مخصوص نشست ملے گی۔2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے 116 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں اور اسے 33 مخصوص نشستیں ملی تھیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کو 64 جنرل نشستوں پر 18 مخصوص نشستیں اور پیپلز پارٹی کو 43 جنرل نشستوں پر 11 مخصوص نشستیں ملی تھیں۔ یہ ہر 3.5 جنرل نشستوں کے بدلے ایک مخصوص نشست کا تناسب بنتا ہے۔ اور بیشتر لوگ اسی بنا پر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہوتا یوں ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی کل نشستوں کو 60 پر تقسیم کیا جاتا ہے۔جو بھی عدد آئے اس سے جماعت کی حاصل کردہ نشستوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ مثلا اگر سیاسی جماعتوں کی کل نشستوں کی تعداد 256 ہے اس کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا جس کا جواب 4.26 ہوگا۔ اب اگر ن لیگ کی نشستوں کی تعداد 80 ہے تو 80 کو 4.2 پر تقسیم کیا جائے گا جس کا جواب 18.77 ہے۔ اس کا مطلب ہے ن لیگ کو 19نشستیں ملیں گی۔اسی طرح اگر اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی بات کی جائے تو آئین پاکستان کے تحت قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستیں اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ جس طرح خواتین کی مخصوص نشستیں صوبوں میں ایک خاص تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ یعنی پنجاب کو خواتین کی 32، سندھ کو 14، خیبرپختونخوا کو 10 اور بلوچستان کو 4 نشستیں دی گئی ہیں۔لیکن اقلیتوں کی نشستوں پر اس نوعیت کی پابندی نہیں اور کسی بھی صوبے سے کم یا زیادہ اقلیتی رکن قومی اسمبلی آسکتے ہیں۔ اب الیکشن 2024کی اگر بات کی جائے تو سنی اتحادکونسل (تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کی گئی۔334 نشستوں کی پارٹی پوزیشن کے مطابق مسلم لیگ ن 123 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بنی ، الیکشن 2024 میں مسلم لیگ ن نے 75 جنرل نشستیں سیٹیں جیتیں، مسلم لیگ ن میں 9 آزاد اراکین شامل ہوئے، اسے خواتین کی 34 اور اقلیتوں کی 5 نشستیں ملیں۔ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 82 ہے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 73 ہو گئی ہے، پیپلز پارٹی نے 54 جنرل نشستیں جیتیں، اسے خواتین کی 16 اور اقلیتوں کی 3 نشستیں ملیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی مجموعی تعداد 22 ہے، متحدہ قومی موومنٹ نے17 جنرل نشستیں جیتیں، اسے خواتین کی 4 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست ملی ہے، جمعیت علماءاسلام کے ارکان کی مجموعی تعداد 11 ہے، اس نے 6 جنرل نشستیں جیتی ہیں، خواتین کی 4 مخصوص نشستیں اور اقلیت کی 1 نشست حاصل کی ،مسلم لیگ ق کے ارکان کی تعداد 5 ہے، ق لیگ نے تین جنرل نشستیں جیتیں، ایک آزاد رکن پارٹی میں شامل ہوا، خواتین کی مخصوص نشست 1 ملی، استحکام پاکستان پارٹی کے مجموعی ارکان کی تعداد 4 ہے، اس نے تین جنرل نشستیں جیتیں اور خواتین کی ایک مخصوص نشست حاصل کی۔ مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے، مسلم لیگ ضیا کی بھی1، بلوچستان عوامی پارٹی 1، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل 1، نیشنل پارٹی 1 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بھی 1 نشست ہے،اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد 8 ہے، قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 8 باجوڑ میں الیکشن نہیں ہوا جب کہ این اے 146 خانیوال کا نوٹیفیکشن رکا ہوا ہے۔ اب چونکہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص سیٹیں نہیں دی گئی تھیں تو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے 21 فروری کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی، 28 فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا، 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر 1-4کے تناسب سے فیصلہ سنایااور سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیلئے دائر درخواستیں خارج کر دیں۔ جس کے بعد 2 اپریل کو مخصوص نشتوں کیلئے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ 6 مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ تین رکنی بنچ نے آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔ 31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔فل کورٹ نے 3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی، جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکی سربراہی میں فل کورٹ نے 9 سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا اور گزشتہ روز 12جولائی بروز جمعہ کو بالآخر تحریک انصاف کو انصاف ملا اور اُسے مخصوص نشستیں دینے کا حکم جاری کیا گیا۔ اب الیکشن کمیشن اس فیصلے کو چیلنج کرے یا نہ کرے مگر یقینی طور پر پی ٹی آئی کے لیے یہ دن جیت کا دن ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ہم تو یہ بات شروع سے ہی کہتے آئے ہیں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا جو کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا، اورجو لوگ پی ٹی آئی کو مٹانا چاہتے تھے انہیں بھی پیغام مل گیا۔اس فیصلے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی ریزرو سیٹیں دی جائیں گی، اور ملک میں کہیں نہ کہیں سیاسی استحکام ضرور آئے گا۔ لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ تحریک انصاف کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، یقینی طور پر انہوں نے عدالتی جنگ جیت لی ہے لیکن اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی سیاسی جنگ لڑنا باقی ہے، اس سیاسی جنگ میں ابھی کارکنوں کو آزادی دلانا باقی ہے، قیادت کو جیلوں سے باہر لانا باقی ہے، اور سب سے اہم بانی تحریک انصاف کو رہائی دلوانا اور عوام کے درمیان لانا باقی ہے۔ تحریک انصاف والے ابھی بھی زیادہ خوش نہ ہوں کیوں کہ اُنہیں ایک لمبا سفر طے کرنا ہے، انہیں الیکشن کمیشن کے ساتھ سینگ پھنسانے ہیں، انہیں الیکشن 2024ءکا مکمل آڈٹ کروانا ہے، اور اپنا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے قانونی و سیاسی جنگ لڑنی ہے، اور یہ جنگ بھی ایسے پیرائے میں لڑنی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرکیف ماہ محرم ہے ، باطل ہر بار مٹ جاتا ہے، پوری قوم بانی پی ٹی آئی کے ساتھ حسینؓ کے انکار کی طرح کھڑی ہوجائے۔چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کرے، اور کہے کہ الیکشن کمیشن جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، اور پھر اس وقت یہی نہیں ملک کو مسائل سے نکال باہر کرنے کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے، ہمیں اس کے لیے متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے، تبھی ہم معاشی طور پر بھی بہتر ہوسکتے ہیں، اخلاقی طور پر بھی اور سب سے اہم اصولی طور پر بھی۔ اُمید ہے اللہ تعالیٰ عدلیہ کے اس بلند فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام لائے اور ملک ترقی کرے (آمین)