انٹرنیٹ بند!نوجوانوں سے بدلے کا اچھا طریقہ؟

قوم کو آزادی کا 77واں جشن آزادی مبارک ہو ، مگر ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش، سوشل میڈیا تک محدود رسائی، فائر وال، سیفٹی وال اور دیگر ”والز“ نے عوام خصوصاََ نوجوانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، اب ان پابندیوں کے بعد اس وقت عالم یہ ہے کہ عالمی آن لائن مارکیٹ پلیس کے طور پر کام کرنے والے مشہور کمپنی Fiverr نے پاکستانی فری لانسرز کو وقتی طور پر غیر دستیاب قرار دے دیا۔ مشہور عالمی مارکیٹ پلیس Fiverr نے پاکستانی فری لانسر کو انٹرنٹ کی بار بار بندش کے باعث عدم دستیابی کو دیکھتے ہوئے آفیشلی غیر دستیاب قرار دے کر کلائنٹس کو پاکستانی فری لانسرز کی جانب سے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی وسیع رکاوٹوں کی وجہ سے ممکنہ تاخیر کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن فری لانسرز کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں ہے، کیوں کہ پاکستان میں تو پہلے ہی بڑے بڑے سوشل نیٹ ورکس اور پیسوں کی ادائیگیاں کرنے والی کمپنیاں جن میں پے پال نمایاں ہے، کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ شاید یہ بات حکومت کے بھی علم میں نہ ہوکہ فری لانسنگ کی دنیا میں پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ٹیکنالوجی کی ترقی اور ڈیجیٹل لینڈسکیپ نے کام کرنے اور نوکریوں کے روایتی انداز کو بدل کے رکھ دیا ہے۔عالمی ڈیجیٹل منڈیوں اپ ورک فائیور ،ایڈ سے،پیپل پر آور۔فر ی لانسرز جیسے کئی دوسرے عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستانی فری لانسرز اپنے ہنر کے دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ پاکستانی یہاں پر ڈیٹا انٹری کر رہے ہیں، ویب ڈیزائننگ کر رہے، گرافک ڈیزائننگ، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ، ڈیجٹل مارکیٹنگ ،ویڈیو ایڈیٹنگ، ویڈیو اینیمیشن، کاپی رائٹنگ ،کونٹنٹ رائٹنگ کے ساتھ سرچ انجن آپٹیمائزیشن کی بنیادی فیلڈ میں ترقی یافتہ ملکوں کی بڑی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کو اپنی خدمات بیچ رہے ہیں۔یہ سمجھ لیجئے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیجیٹل سروسز کا کام ہو یا ڈیجیٹل پروڈکٹس کو بیچنے کا کام ہو پاکستانی عالمی منڈیوں میں پوری ہنر مندی کے ساتھ اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ یہ فری لانسرز پاکستان میں ڈالرز کا ریونیو جنریٹ کر رہے ہیں اور ڈالر کما کر اپنی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت سنوارنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی فری لانسرز کمائے ہوئے ڈالر سے اپنے ملک کے اندر بھی چھوٹے بڑے کاروبار سیٹ کر رہے ہیں جس سے پاکستان کی مقامی بازاروں میں بھی خریدو فروخت بڑھ رہی ہے اور مقامی معیشت کو بھرپور فائدہ ہو رہا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق انٹرنیٹ کے خلل اور آئے روز انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری 3.5ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چار سال تک اس کا حجم سات بلین ڈالر تک چلا جائے گا۔ جبکہ اس وقت انڈیا کی آئی ٹی انڈسٹری دس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔بھارت میں آئی ٹی انڈسٹری میں فری لانسرز کو سرکار کی طرف سے بہت سہولتیں دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے لیے ڈالرز جنریٹ کرنے والے ہمارے سینکڑوں فری لانسرز کسی غیر معمولی سپورٹ اور چھتری کے بغیر دنیا فتح کر رہے ہیں۔انہیں آئے روز کمزور اور خلل شدہ انٹرنیٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔حال ہی میں انٹرنیٹ کی بندش اور کمزور انٹرنیٹ کی وجہ سے آئی ٹی انڈسٹری میں کام کرنے والے فری لانسرز نے بہت مشکل کا سامنا کیا۔پاکستان کے فری لانسرز صرف بڑے شہروں سے وابستہ نہیں چھوٹے شہروں اور دیہات سے بھی عالمی منڈیوں میں کام کر رہے ہیں ان چھوٹے شہروں میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور انٹرنیٹ کی بندش سے ان فری لانسرز کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ مطلب! حکومت نے اپنا یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ اگر اُس نے کسی کو فائدہ نہیں دینا ،تو فائدے میں چلنے والے لوگوں کا بھی بھلانہیں ہونے دینا ۔ اور پھر جس حکومت کو امداد لینے، قرضہ لینے وغیرہ کی عادت پڑ جائے تو ایسی حکومت کو ویسے بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں ہے جو کما کر دیں، بلکہ جو لوگ جی حضوری کریں ، غلامی کریں وہ ایسے لوگوں کو بٹھا کر کھلاتی ہے، لیکن اگر ٹیلنٹڈ لوگ کچھ کما کر دینا چاہیں، آگے بڑھنا چاہیں یا کسی بھی فیلڈ میں کام کرنا چاہیں تو یہ لوگ اُس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ خیر ویسے بھی موجودہ حکومت جب سے وجود میں آئی ہے، خواہ وہ پی ڈی ایم کی شکل میں ہو یا اتحادی حکومت کی شکل میں، یا نگرانوں کی شکل میں۔ انہوں نے پاکستانی یوتھ، تحریک انصاف اور اس سے جڑے ونگز کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن حکومت اس حوالے سے پریشان تھی کہ آیا وہ جو بھی اچھا کام کرتی ہے، سوشل میڈیا پر اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو ایسے میں کیوں نہ سب سے پہلے انٹرنیٹ کو ہی کنٹرول کر لیا جائے، اسی اثناءمیں موجودہ حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں نے گزشتہ چند دنوں سے مختلف سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر اور پہلے سے بتائے بغیر فائر وال کے تجربے کا آغاز کردیا، اس کی وجہ سے ہزاروں خاندان اور لاکھوں نوجوانوں کا روزگار متاثر ہو گیا ہے۔ایسا کرنے سے حکومت نے ”فیک پروپیگنڈہ“یا اپنے خلاف چلنے والی خبروں پر تو توجہ دی تاہم ملک میں اربوں ڈالر کی آمدنی لانے والے فری لانسرز کی طرف بالکل توجہ نہیں دی، عوامی مواد کو نظر انداز کیا گیا ہے، میرے خیال میں یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ حکومت کو پہلے فری لانسرز ایسوسی ایشن کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے تھی اور بتانا چاہیے تھا کہ کب سے کب تک فائر وال کی ٹیسٹنگ ہو گی تاکہ فری لانسرز اپنا کوئی اور بندوبست کر لیتے۔ بہرحال میرے خیال میں سرکار کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں جب انقلاب آتا ہے تو اُس کی شروعات اس جیسے اقدامات سے ہی ہوتی ہے، اس کی تازہ مثال آپ کے سامنے ہے کہ بنگلہ دیش کی غلط پالیسیوں کے سبب وہاں کا نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ نظر انداز ہوتا رہا۔ وہاں کے نوجوان روشن امکانات سے قطعاََ محروم ہونے کے باوجود ریاستی جبر سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے تمام ذرائع سے محروم ہوئے تو یہ بالآخر سڑکوں پر آگئے۔ انہیں انٹرنیٹ کے تمام پلیٹ فارم بند کرکے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش ہوئی۔ تو وہاں انقلاب آگیا۔ نوجوان سڑکوں پر آئے اور سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ لہٰذاپاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے کئی طاقت ور ملک بھی اپنے ہاں انتشار وخلفشار کا واحد ذمہ دار سوشل میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ اس کی بندش سے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔آپ یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ کی بندش کے بعد عرب بہار کو سب نے دیکھا۔ جس کا انجام یہ ہے کہ اُس وقت کئی کئی سال سے موجود ڈکٹیٹر حکومتیں ختم ہو گئیں۔ بہرکیف بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے زوال سے بنیادی سبق یہ سیکھنا ہوگا کہ اگر آپ کی نوجوان نسل جو آبادی کا 60فی صد ہے اپنی روزمرہّ زندگی سے مطمئن نہیں۔ امید کھوبیٹھی ہے تو اس کے ذہن کو زور زبردستی بدلنے کے بجائے نہایت خلوص سے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ وہ اپنے دل کی بھڑاس اگر سوشل میڈیا کے یوٹیوب، فیس بک یا ٹویٹر جیسے پلیٹ فارموں کے ذریعے نکال رہے ہیں تو اس پر پریشر ککر والا ڈھنکنا لگانے سے اجتناب برتیں۔ انٹرنیٹ تاریخی تناظر میں تقریباََ گزرے دن ایجاد ہوا ہے۔ اس کی ایجاد سے قبل لیکن میری جوانی میں دو تحاریک چلیں۔ پہلی کا آغاز اکتوبر1968میں ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے ایوب خان استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی اور روایتی میڈیا پر کامل حکومتی اجارہ دار کے باوجود مارچ 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بھی اس برس ہوئے انتخاب میں دھاندلی کے الزام لگاتے ہوئے تحریک چل پڑی۔ ریاستی جبر اس پر قابو پانے میں قطعاََ ناکام رہا۔ بالآخر 5جولائی 1977کو جنرل ضیاءمارشل لاءسمیت وطن عزیز پر مسلط ہوگئے۔ ان کے خلاف بھرپور انداز میں کوئی عوامی تحریک نہ چل پائی تو وجہ اس کی معاشی میدان میں لگی وہ ”رونق“ تھی جو ”افغان جہاد“ کی بدولت ہمیں وقتی طورپر نصیب ہوئی تھی۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے آئی ٹی میں کام کرنے والے ان فری لانسرز کی پاکستان کی معیشت میں کنٹریبیوشن کو تسلیم کرے اور بغیر کسی رکاوٹ کے تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ کیونکہ یہی آئی ٹی انڈسٹری پاکستان میں روایتی انڈسٹری کے برعکس بلین ڈالرز کے فارن ایکسچینج لا رہی ہے۔معاشی اور سیاسی عدم استحکام آئے روز کی انٹرنیٹ بندش ،مہنگائی اور لوڈشیڈنگ اس ماحول میں پاکستانی نوجوانوں نے مایوس ہونے کی بجائے ڈیجیٹل دنیا میں امکانات کا ایک جہان تلاش کیا۔ آج وہ گلوبل ڈیجیٹل اکانومی میں نہ صرف اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بلین ڈالرز کا ریوینیو جنریٹ کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جس کا سب کو انتظار ہے کہ پاکستان میں اب کی بار کچھ اور نہیں بلکہ انقلاب آئے گا اور سب کچھ بہا کر لے جائے گا!