فکر نہ کریں! ملزمہ نتاشا کو کچھ نہیں ہوگا!

ملک میں قانون کی اہمیت اور اس کی اوقات کا اگر آپ نے مظاہرہ دیکھنا ہو تو اُس وقت دیکھیں جب ہمارے ملک کی اشرافیہ پر کوئی مصیبت آن پڑے، پھر یہ اشرافیہ سیاستدانوں کی شکل میں ہو، سرکاری ملازمین کی شکل میں ہو، سکیورٹی اداروں کی شکل میں ہو یا صنعت کاروں کی شکل میں۔ یہ ملک کے قانون کو جھاڑو لے کر سرے سے ہی اس کا صفایا کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے رات کو عدالتیں بھی کھل جاتی ہیں اور دیت کا قانون بھی فوری حرکت میں آجاتا ہے۔ ان کے لیے شراب کی بوتلیں شہد بن جاتی ہیں اور مجرم ”مریض“ بن کر سزا سے بھی بچ جاتا ہے۔ آپ کراچی کے علاقے کارساز میں ہوئے گزشتہ روز کے واقعے کو ہی دیکھ لیں، جس میں تین افراد کی موقع پر ہی جان چلی گئی، جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہوگئے۔ واقعہ کی ذمہ دار ایک نتاشا نامی خاتون تھیں جن کو فرار ہونے کی کوشش میں شہریوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس واقعہ کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا۔ جس کے بعد علم ہوا کہ موصوفہ ایک بڑی گروپ آف کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کی بیوی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملزمہ حادثے کے وقت نشے کی حالت میں تھی ۔جس نے کئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو روند کر باپ بیٹی کو کچلنے کر جائے وقوعہ سے بھاگنے کی کوشش کی، اس وقت ہجوم میں ایک اور خاتون نظر آرہی تھیں۔ عینی شاہدین کے مطابق حادثے کی ذمہ دار گاڑی میں دو خواتین تھیں مگر ایک کو منظرنامے سے غائب کرا دیا گیا، آخر یہ دوسری خاتون کون تھی اور فون پر کس کس کو احکامات دیتی رہی، آناً فاناً پیش آنے والے پروٹوکول نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ پیلے کپڑوں میں ملبوس یہ خاتون کون ہیں اور یہ موبائل پر کس کو احکامات دے رہی ہیں، خاتون کے فون پر کیسے پولیس اوررینجرز جائے وقوعہ پہنچی؟ اب کیس تو رجسٹرڈ ہے مگر خاتون منظر نامے سے غائب ہیں، نہ تو اس خاتون کو عدالت پیش کیا گیا اور نہ ہی تھانے میں نظر آئیں، تو آخر گئیں کہاں؟جبکہ ملزمہ نتاشا کی تھانے میں بھی خوب آﺅ بھگت کی گئی اور آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ صبح عدالت میں ملزمہ کو پیش کرنے کے بجائے اُن کا وکیل پیش ہوا ، جس نے پہلی رپورٹ ہی یہ جمع کروائی کہ ملزمہ شدید ڈپریشن میں ہیں، وہ ذہنی مریضہ بھی ہیں اس لیے اُنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیاہے۔ یعنی پولیس نے ذہنی توازن ٹھیک نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور وکیل کے ذریعے ملزمہ کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کرا دیا۔عدالت نے ملزمہ کا ہسپتال ہی میں ایک روزہ ریمانڈ منظور کیا اور اُس کے بعد سب کچھ نارمل کردیا۔ اب آگے بھی سن لیں کہ ہوگا یہ کہ کچھ دن تک یہ کیس سب کی نظروں میں رہے گا پھر سب کچھ پہلے سے لکھے گئے سکرپٹ کے مطابق طے پائے گا، جس کے بعد ملزم اپنے گھر اور مظلوم کو چند روپے تھما دیے جائیں گے اور وطن عزیز کا قانون ایک بار پھر منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ نہیں یقین تو ماضی میں جھانک کر دیکھ لیں کہ مشہورز مانہ شاہزیب قتل کیس میں طاقتور خاندان نے اپنے سپوت شاہ رخ خان جتوئی اور دیگر ملزمان کو باعزت بری کر والیا ۔ ویسے تو ہمارا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ، لیکن ریاست کے یہ تماشے دیکھ کر خون ضرور کھولتا ہے۔ آپ اس کیس کو چھوڑیں، ناظم جوکھیو کیس کو ہی دیکھ لیں، جس میں ناظم جوکھیو کو ممبران اسمبلی جام اویس اور جام عبدالکریم نے مبینہ طور پر قتل کیا، مگر دیت کا قانون سامنے آیا اور معاملات لے دے کے ساتھ ختم ہوگئے اور ملزمان باعزت بری ہوگئے۔ پھر کوئٹہ میں مجید اچکزئی کیس کا تو سب کو علم ہوگا، اگر نہیں یا د تو میں بتاتا چلوں کہ20جون 2017کو موصوف نشے میں دھت گاڑی چلا رہے تھے، اسی اثنا میں ٹریفک پولیس انسپیکٹر عطا اللہ کو روند ڈالا، عبدالمجید اچکزئی اُس وقت بلوچستان کی اسمبلی کے رکن اور اس وقت پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے ، مقدمہ چلا لیکن 4 ستمبر کو بلوچستان کی ماڈل کورٹ نے عبدالمجید خان اچکزئی کو عدم ثبوت پربری کر دیا۔یقین مانیں مجھے اُس وقت اتنی حیرت ہوئی اور بے اختیار ہنسی بھی آئی کہ کیا اب ہمارے ملک میں ایسا بھی ہوگا۔ قاتل اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہوگا، معافی بھی نہیں مانگے گا، دیت کی رقم بھی نہیں دے،،، اور تب بھی وہ بری ہو جائے گا۔ خیر چھوڑیں سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے؟ اس واقعے نے سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا، اُس کے بھی تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ اس کیس کے ملزمان کو بھی شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا گیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ جس پولیس آفیسر پر سانحہ ساہیوال پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ،اسی کو ہم نے گزشتہ 23مارچ کو تمغہ شجاعت سے بھی نواز دیا۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے کون واقف نہیں اُس کے بھی تمام ملزمان کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ پھر اسامہ ستی کیس میں بھی کسی ملزم کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی ، حد تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے شرجیل میمن کے کمرے سے جب وہ دوران قید ہسپتال داخل تھے، شراب کی بوتلیں پکڑیں تو کچھ ہی دیر بعد وہ شہد کی بوتلوں میں تبدیل ہوگئیں! پھر راﺅ انوار کو آج تک کون بھولا ہے جس نے 4سو سے زائد افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارا مگر وہ آج بھی شایان شان گھوم پھر رہا ہے۔ مطلب! جب یہ سب کچھ ”صلح صفائی“ سے ہی ختم ہونا ہے تو ریاست خود ہی ایک ایسا ادارہ بنا دے جس کا نام ”باہمی صلح صفائی اتھارٹی “ رکھ دے۔ جس میں ہر قتل کا ملزم، ہر کرپٹ ملزم پیش ہو اور لے دے کر صلح کا راستہ اختیار کر لیا جائے! ورنہ تو یقین مانیں جن طاقتوروں پر الزامات لگتے ہیں، ایسے لوگ تو ریاست کے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ یعنی ریاست کو اُن کے تمام پروٹوکول کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اُن کے اُٹھنے، بیٹھنے، سونے ، جاگنے کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ نہیں یقین؟ تو آپ خود دیکھ لیں کہ چند ماہ قبل جب اسی کیس میں یعنی شاہزیب قتل کیس میں شاہ رخ خان جتوئی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو اُس کے بعد ڈھائی سال تک ملزمان ایک نجی ہسپتال کو اپنا ”گھر“ بنا کر رہتے رہے اور لگژری لائف سٹائل کے ساتھ وہاں رہائش پذیر رہے۔ مطلب! یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے بقول بہادر شاہ ظفر ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں اب آپ دیکھ لیجئے گا کہ ملزمہ نتاشا کو بھی کچھ نہیں ہوگا، کہا جا رہا ہے کہ وہ بہت اثر و رسوخ والے لوگ ہیں! اگر ایسا ہے تو پھر اس پاکستان کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیں کہ اشرافیہ کا پاکستان الگ ہو اور عام آدمی کا پاکستان الگ۔کیوں کہ غریب آدمی کے لیے یہاں دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کو بھی حتمی فیصلہ نصیب نہیں ہو تا، اور کئی لوگوں نے بغیر سزا ہوئے سزا جتنی قید کاٹ لی ہے۔ بیسیوں کو جیل میں ہی اُن کی وفات کے بعد ہی بے گناہی ثابت ہوئی۔ تاریخ پر تاریخ ہی انصاف کے متلاشی کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس لئے ایک عام تاثر یہ بھی بن گیا ہے، جس معاملہ کو حل کرنا مقصود نہ ہو اسے عدالت لے جائیں خودی عدالتی نظام میں مر جائے گا۔لیکن طاقتور گروہ کا معاملہ حل ہونے پر آئے تو ایک ہی دن میں حل ہو جا تا ہے۔ ضمانت ملے تو چھٹی والے دن مل جائے۔چلیں یہ سب باتیں تو ایک طرف مگر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کیا کہتی ہیں؟ کیا اُس میں یہ دفعات نہیں ہیں کہ آپ نے بغیر لائسنس گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔ آپ یقین مانیں امریکا میں آپ بغیر لائسنس کے یا شراب پی کر گاڑی چلانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں ایسا کرتے آپ پکڑے گئے تو سیدھی جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ جبکہ یہاں ریاست کی رٹ ہے کہ نظر ہی نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ایسے کیسز میں مدعی کو تحفظ فراہم کرتی ہے؟ یا وہ صلح کے لیے مظلوموں پر دباﺅ ہی ڈالنے کے لیے رہ گئی ہے۔ کیوں کہ ساری زندگی خوف اور تنہائی میں اندرون و بیرون ملک گزار نے اور بااثر جاگیر داروں، وڈیروں کے انتقام سے بچنے کے لیے ریاست کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔اس لیے میرے خیال میں سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جینے کے طریقے دو ہیں طاقت، دولت اور اختیار کے زور پر اندھیر مچائے رکھو، قتل، ڈکیتی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کو شعار کرو یا پھر ان قاتلوں، اغواءبرائے تاوان کے مجرموں، وحشی درندوں اور عزتوں، عصمتوں کے لٹیروں سے تصفیہ کرلو، باقی سب کہنے کی باتیں ہیں۔ بہرکیف ریاست خود تو ریمنڈڈیوس کی رہائی کے لئے دباﺅ بھی ڈالتی ہے اور خون بہا بھی دیتی ہے عام آدمی بے چارہ کیا کرے۔ ریاست خود جتوئی فیملی، جام فیملی اور دیگر وڈیرہ فیملیز کو سپورٹ کرتی ہے وہ عام آدمی کو کیا انصاف دے گی؟ لہٰذاحالیہ حادثے میں مرنے والے غریب غربا تھے، تبھی وہ موٹرسائیکل پر سوار باپ بیٹی کسی خواب کی تلاش میں جا رہے تھے۔ کہ اشرافیائی آفت نے اُنہیں آن لیا۔ خیر تبھی یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پاکستان میں طاقتور اور وڈیراشاہی کب ختم ہو گی، وڈیرے اور بااثر افراد ایسے ہی انسانیت کی تذلیل کر کے دندناتے پھرتے رہیں گے؟ کیا انصاف کا یہی معیار ہے؟ غریب اور لاچار لوگوں کو اس دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے یا پھر انہیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی جینا ہو گی اور کتوں کے برتنوں میں پانی پینا اور زمین پر ناک رگڑتے اور ٹسوے بہاتے زندگی کے ایام گزارنا ہوں گے۔ اس کا جواب اس ملک کے کرتا دھرتاﺅں کو دینا پڑے گا ورنہ یہاں نفرت کے بیج ہمیشہ کی طرح بوئے جاتے رہیں گے اور ریاست کمزور ہوتی رہے گی!