ہم ”انتشار“ میں ہیں اور رہیں گے؟

کیا آپ کو علم ہے کہ ہم ایک بار پھر دنیا کی نظروں میں شرمسار ہوئے ہیں، بھلا وہ کیسے؟ گزشتہ ہفتے جب ہم سخت سیاسی ماحول میں حکمرانوں، سیاستدانوں، عدلیہ، ایوانوں اور مقتدرہ کے بارے میں تجزیے کر رہے تھے، سن رہے تھے، پڑھ رہے تھے تو عین اُسی وقت صوبہ سندھ میں ایک لاش کو قبر سے نکالا گیا، گھسیٹا گیا، بے حرمتی کی گئی اور پھر جلا دیا گیا۔ اور قتل ہونے والے شخص کے رشتہ دار اُس ادھ جلی لاش کو ہاتھوں میں اُٹھائے کبھی ادھر بھاگ رہے تھے تو کبھی اُدھرلیکن لوگ اُس کو چھین رہے تھے، اور دوبارہ جلا رہے تھے۔ جی ہاں ! یہ سب کچھ مملکت خداداد میں ہوا۔ یہ سب کچھ پولیس کی چھتر چھایہ تلے ہوا۔ اگر یہ پولیس کے زیر سایہ نہ ہوا ہوتا تو کبھی ڈی آئی جی ، ایس ایس پی معطل نہ کیے جائے۔ اس واقعہ کی تفصیل کا ذکر تو بعد میں کریں گے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی مان سکتا ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں؟ جہاں ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے،،، ایٹمی طاقت کا تو ایک رعب دبدبہ ہوتا ہے، وہاں قانون کی بالادستی ہوتی ہے، مگر ہم کیسی ایٹمی طاقت کی حامل ریاست ہیں کہ اندرونی حالات تو ایک طرف مگر ہم نے ہمسایہ ملک کو بھی بارہا کہا کہ بھائی آپ کی سرزمین سے مداخلت ہو رہی ہے، اور ہمارے جوان شہید کیے جا رہے ہیں، مگر اُن پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ پاﺅں کسی نے باندھ رکھے ہیں اور ہمیں اپنے دفاع کی بھی اجازت نہیں اور ایسا کرنے کیلئے ہمیں اجازت درکار ہے۔ پھر میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چھوڑدینا چاہیے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم ”غلام“ ہیں اور رہیں گے! پھر یہاں اگر قانون کی بالادستی کی بات کریں تو یہاں عام آدمی کیسے قانون کی پابندی کرے گا کہ جب سپریم کورٹ کے احکامات نہ تو الیکشن کمیشن مان رہا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ۔ سپریم کورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں بنتی ہیں، لہٰذااُسے عنایت کر دی جائیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ”مشاورت“ کا عمل جاری ہے،،، اس لیے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے۔ جبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ میں اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں نئی پوزیشن جاری کرتے ہوئے ایک بار پھر تحریک انصاف کو غائب کر دیا ہے۔ اب اگر ادارے ہی ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ عام آدمی قانون کا احترام کرے۔ تبھی ہم لوگ ایک ہجوم بن کر اپنے فیصلے خود کر رہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں! مذکورہ بالا واقعہ کی تفصیل میں اگر جاﺅں تو یہ وقوعہ بھی کسی ہجوم کے فیصلے کا شاخسانہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ سندھ کے شہر میر پور خاص کے رہائشی ڈاکٹر شاہنواز نے مبینہ طور پر آپ کی شان میں گستاخی والی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی(جبکہ ڈاکٹر شاہنواز کے مطابق اُن کا اکاﺅنٹ ہیک کر لیا گیا تھا اور مبینہ مواد کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے) جس کے بعد اُن کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی تاہم 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر سامنے آئی ۔(اب عام آدمی تو میری طرح یہی سوچے گا کہ اچھا ہوا اس خبیث کے ساتھ جس کے ناپسندیدہ عمل کی یہی سزا ہونی چاہیے تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک قانون بنا ہوا تو پھر اُس پر عمل درآمد کیوں نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ ریاست کی رٹ کہاں ہے؟) خیر آگے چلیے! کہ ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے خطیب کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور اُن کی شان میں گستاخی کی، ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے سول ہسپتال میں ملازم تھے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔جبکہ رپورٹس کے مطابق ان کے رشتہ دار بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر شاہنواز ذہنی مریض تھے اور ان کا آغا خان میں علاج بھی جاری تھا۔ وہ ڈپریشن اور ہائپرٹینش کی ادویات لیتے تھے۔ اب اگر اس حوالے سے پولیس کے کردار پر روشنی ڈالیں تو شاہنواز کو جب اُس کے رشتہ داروں نے ہجوم میں مارے جانے کے ڈر سے روپوش کر دیا تو پولیس اُس کے بوڑھے باپ کو تھانہ میں لے آئی اور کہا کہ شاہنواز گرفتاری دے دے۔ جس کے بعد شاہنواز نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اور رشتہ داروں کا بھی حوصلہ بڑھایا گیا کہ اب وہ پولیس حراست میں ہے اس لیے آپ پریشان نہ ہوں، اب وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ رشتہ داروں کے بقول کہ وہ بے فکر ہوگئے اور گھر آگئے۔ لیکن اُسی رات ہمیں خبر ملی کہ شاہنواز کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت واقعہ ہو چکی ہے۔جس پر انہوں نے سوچا کہ کیسے اُن کے ساتھ ریاست نے اتنا بڑا دھوکہ کردیا ہے۔ خیرگزشتہ ایک ہفتے میں پولیس کے ہاتھوں اس نوعیت کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔اس واقعے سے چند ہی روز قبل پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو حوالات کے اندر ایک پولیس اہلکار نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مبینہ مقابلہ کرنے والے پولیس اہلکاروں پر مقامی افراد نے پھول کی پتیاں نچھاور کیں ۔ اب اگر آپ کی نظر میں شاہنواز کی بیٹی کے بین سنیں تو آپ کی روح کانپ جائے گی، ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان بین کر رہا ہو۔ خیر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ اُس کی نعش کو دفنانے کی اجازت مقامی کیا ،،، کسی دور دراز قبرستان میں بھی نہیں ملی۔ اس حوالے سے وہاں کے مقامی صحافیوں کے مطابق شاہنواز کی کزن کے بقول کہ ’ہم خواتین بے پردہ گھر کی چار دیواری سے کبھی نہیں نکلیں لیکن لاش لینے لیکن آخری بار میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے صحرا میں ننگے سر اور ننگے پاو¿ں دوڑتی رہیں۔ انھیں پتہ چلا کہ لاش کو گاو¿ں کے اندر نہیں آنے دیا جا رہا، تو وہ اور گھر کی دیگر خواتین بنا چپلیں پہنے اور ننگے سر وہاں دوڑیں۔ پہلے ہم گاو¿ں کے وڈیرے کے گھر گئیں تاکہ ان کی مدد لے سکیں لیکن انھوں نے دورازے نہیں کھولے، اس کے بعد مساجد کے خطیبوں کے گھروں پر گئے انھوں نے بھی دروازے نہیں کھولے۔ اس کے بعد ہم ایمبولینس کی طرف گئے ،لیکن ہمارے ماموں کار میں لاش لے گئے اور ہم واپس آ گئے۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب وہ گھر واپس آئے تو انھیں پتہ چلا کہ لاش کی بے حرمتی کر رہے ہیں اس کے بعد خواتین دوبارہ اس طرف زمین کی طرف دوڑیں جہاں لاش لے کر گئے تھے۔خاندان والے ابھی راستے میں تھے تو لوگ وہاں بھی پہنچ چکے تھے، جن کے پاس اسلحہ، پیٹرول، کلہاڑیاں تھیں اور وہاں انھوں نے لاش جلا دی تھی۔ اس دوران ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ ’ماموں نے پانی ڈال کر آگ بجھائی اور وہ ہاتھوں میں لاش لے کر کبھی اس طرف جا رہے تھے، کبھی اس طرف۔ ہمیں چہرہ بھی نہیں دیکھنے دیا گیا۔ ہم کزنز اور دیگر خواتین روتے پیٹتے واپس آ گئیں۔انہوں نے بتایا کہ جب انھیں کسی مقامی قبرستان میں ڈاکٹر شاہنواز کی تدفین کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے لاش کو اپنی ملکیتی زمین پر دفنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے مطابق ورثا میت کو تدفین کے لیے جہانرو لے گئے جو عمرکوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن مذہبی جماعتوں کے کارکن اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بھی پہنچ گئی۔کسی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی تو ہم میت کو صحرائی علاقے میں اپنی زمین پر لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کی لیکن وہاں بھی مشتعل لوگ آ گئے اور دھمکیاں دیں۔ لوگوں نے لاش چھین کر اس کو آگ لگا دی جس سے وہ پچاس فیصد جھلس گئی۔ قصہ مختصر کہ نہ تو قانون کو اپنا کام کرنے دیا گیا، نہ ہی تحقیقات ہوئیں کہ وہ قصور وار ہے بھی یا نہیں اور نہ ہی اُسے قانون کے مطابق سزا دینے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذاحکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب عوام اپنے فیصلے خود کرنے لگ جائیں گے تو پھر انتشار (انارکی) پیدا ہوتی ہے۔ اور جس معاشرے میں انارکی پیدا ہوجائے تو اُسے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس کے بعد وہ پانی کی طرح اپنا بہاﺅ خود بنا لیتا ہے۔ لہٰذاحکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کو چاہیے کہ ملک میں انتشاری سیاست اور انتشاری سرگرمیوں کو ختم کرکے اس ملک کا سوچیں جسے ہر سو خطرہ ہے، جسے ہمسایوں سے بھی خطرہ ہے، قانون توڑنے والوں سے بھی، قانون بنانے والوں سے بھی۔ قوانین پر عمل درآمد کروانے والوں سے بھی اور سب سے بڑھ اس کے محافظوں سے بھی۔ بقول شاعر ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہاں کچھ نہیں بچے گا، اور انقلاب آئے گا اور پھر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر شرمندہ ہو رہے ہوں گے کہ کاش ہم سنور جاتے! دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں