12ربیع الاول : حکمران بھی معاف کرنے کی پالیسی اپنائیں!

آج 12ربیع الاول آپ کی یوم ولادت کا دن ہے، جو ہمیں اللہ اور آپ کے دیے ہوئے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے، یہ دن اپنی ذمہ داریوں کے احتساب کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے،،،یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے فرائض کیا ہیں؟ ہم کیسے مسلمان ہیں؟یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے نبی کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے جھوٹ نہیں بولنا، کسی کی دل آزاری نہیں کرنی، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی اور نہ ہوتے دیکھنی ہے، کسی سے وعدہ خلافی نہیں کرنی ،،، ہمیشہ کفایت شعار ی سے کام لینا ہے،،، آپبدلا لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی سب کو معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ حقوق العباد کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن آج جب یہ دن ریاستی سطح پر منایا جارہا ہے کہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کسی سطح پر سنت رسول کی پیروی نہیں کی جا رہی ،،، ہر طرف فتنہ فساد، لڑائی جھگڑے، عدم برداشت کی کہانیاں، ایک دوسرے کا مال کھانے کی تگ و دو،،، جھوٹ ، مکر و فریب سب کچھ اس معاشرے کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اور یہ کام اوپر سے شروع ہوتا ہے،،، جیسے حکومت وقت اپنے مخالفین پر زیادتیاں کرتی ہے،،، اپنی مخالف جماعت کے کارکنان اور عہدیداران پر طاقت کے زور پر چڑھایاں کر رہی ہے تو ایسے میں ،،، میرے خیال میں فیصلہ کرنے والی قوتوں کو درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اسلام میں معاف کرنے کی جتنی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس سے زیادہ کسی مذہب میں نہیں ہے، آپ تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیںآپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بڑا دل رکھ کر اقدامات کیے جائیں تو اُس کے مثبت نتائج ہی ملتے ہیں۔ مثلاََ فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور مفتوحین کے ساتھ کس قدر محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا کہ جب مہاجرین مکہ دس ہزار لشکر جرار لے کر لشکر کفر و شرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے اور خوب بدلہ لیں گے، آج ہم سمیعہؓ کی آہوں اور صہیبؓ کی سسکیوں کا بدلہ لیں گے۔ آج ہم حضرت بلال حبشیؓ کی چیخوں کا بھی بدلہ لیں گے۔ آج کوئی نہیں بچے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ مگر ہمارے کریم آقا ﷺ نے سب پر نگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”بولو! تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے، آج میں (محمد ﷺ) تم لوگوں سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“یہ سوال سن کر سب قیدی کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا، کیوں کہ ماضی قریب میں آپ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم و ستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔ سب کے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سر جھکا کر یک زبان ہو کر بولے: یارسول اللہ ﷺ! آپ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ جواب سُن کر رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے دل نشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ”آج میں وہ کہتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام نے کہا تھا کہ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔“آپ نے عفو عام کا اعلان فرما دیا، معافی کا اعلان سنتے ہی جنگی قیدیوں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشک بار ہو گئیں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا۔ ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیے۔انہی صحابہ ؓ کرام نے اگلی فتوحات کو انجام دیاتھا۔ پھر وحشی بن حرب جو غزوہ اُحد میں حضرت حمزہ ؓ کے قاتل تھے، انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو اُنہیں بھی معاف کردیا گیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کوئی جتنا بھی بڑا گناہ گار کیوں نہ ہو اگر وہ اللہ پر ایمان لے آئے اور توبہ کرلے اور پھر نیک اعمال کرے تو اللہ نہ صرف اس کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف فرمادے گا بلکہ اس کے اعمال نامہ میں درج گناہوں کو مٹا کر نیکیوں میں بدل دے گا۔ اور اگر کوئی ایمان تو لے آیا، توبہ بھی کرلی لیکن عمل صالح کی شرط پر پورا نہ اتر سکا اور پھر گناہوں میں مبتلا ہوگیا تو تب بھی وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور پھر سے توبہ کرکے نیک اعمال کی کوشش شروع کردے۔ اللہ اسے پھر سے معاف فرمادے گا۔ پھر حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو معاف کردیا گیا تھا،یعنی سید الشہداءحضرت حمزہ ؓنے جنگ بدر میں ہندہ کے باپ عتبہ کو واصل جہنم کیا تھا۔ہندہ نے اپنے باپ کا انتقام لینے کی قسم کھائی تھی۔جنگ احد میں وہ اپنے شوہر ابوسفیان بن حرب کے ساتھ شریک تھی اور اپنے جنگجوو¿ں کو رمزیہ اشعار پڑھ کر ہمت اور حوصلہ بڑھارہی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سید الشہداءحضرت حمزہ ؓنے جامِ شہادت نوش فرمالیا ہے تو نعشوں کو تلاش کرتی ہوئی حضرت حمزہؓ کے پاس پہنچی اور انتہائی بے دردی سے ان کا پیٹ اور سینہ چاک کرکے غیظ وغضب کی حالت میں کلیجہ چباکر نگلنے کی کوشش کرتی ہے اور خوشی میں سیدنا حمزہؓ کے قاتل وحشی ابن حرب کو اپنے گلے کاقیمتی ہار دے دیتی ہے۔ اس کا ہر عمل اس بات کا تقاضا کررہا تھا کہ اسے سخت ترین سزا دی جائے لیکن جب وہی سنگدل ہندہ فتح مکہ کے موقع پر رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے تو اسکے تمام خطاﺅں کو معاف کردیا جاتا ہے اور دامنِ اسلام میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ پھر ہندہ کے خاوند حضرت ابو سفیان بن حرب بن امیہ ؓکو آپ نے معاف کر دیا جس کے بعد انہوں نے فتح مکہ کے دوران اسلام قبول کیا اور اسلام کے مددگار بن گئے۔قبولِ اسلام کے بعد حضرت ابو سفیان سب سے اول غزوہ حنین میں شریک ہوئے، آنحضرت نے حنین کے مالِ غنیمت سے انھیں سو اونٹ مرحمت فرمائے، حنین کے بعد طائف کے محاصرہ میں شرکت کی۔ حضرت عمرؓ فاروق کے عہدِ خلافت میں جنگ یرموک میں شام کی فوج کشی میں اپنے پورے کنبہ کو لے کر شریک ہوئے، خود ان کے بیٹے اور ان کی بیوی سب شریک تھے، الغرض ہمارا اسلام ایسے عظیم واقعات سے بھرا پڑا ہے، اور پھر بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں نے نبی کی اس سنت کو برقرار رکھا، آپصلاح الدین ایوبی کو دیکھ لیں، جنہوں نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد بڑا دل رکھا اور عام معافی کا اعلان کیا تھا، جس کے دورس نتائج دیکھے گئے۔ پھر آپ کو سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں سینکڑوں ایسی مثالیں ملیں گی،،، جس میں عام معافی کا اعلان کیا گیا،،، اس لیے میرے خیال میں ”حکمرانوں“ کو دل بڑا رکھ کر ایک مخصوص جماعت کے قائدین، سیاسی کارکنان اور دیگر کو معاف کردینا چاہیے،،، فیلڈ مارشل جو ہمیشہ قرآنی آیات کو اپنی تقاریر کا حصہ بناتے ہیں،،، اُنہیں چاہیے کہ عفو و درگزر سے کام لیں،،، یہی 12ربیع الاول کا تقاضا ہے،،، یہی ملک کے لیے بہتر ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ بہرحال ہمیں حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہر طرف انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا،،، لیکن ابھی آپ عدالتوں میں چلے جائیں انصاف کے لیے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، ہسپتال چلے جائیں لوگ تندرستی کے لیے چیختے نظرآئیں گے، تھانوں میںچلے جائیں ہمارے مسلمان بھائی ہی ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑتے دکھائی دیں گے، جیلوں میں چلے جائیں ہزاروں بے گناہ قیدی دوسروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے.... الغرض ہر شخص دوسرے کو فرائض نبھانے کی تلقین کرتا نظر آئے گا۔ یعنی دوسروں کا درد دل ہم میں کیوں نہیں ہے ۔ ہم میںمجموعی طور پر اپنے آپ کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب،یقینا کوئی نہیں، مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقینا ہاں میں ملے گا۔ بہرکیف ہمیں آپ نے درس دیا ہے کہ،،، طاقت رکھتے ہوئے،،، ہمیں معافی کو ترجیح دیں،،، جھوٹ، رشوت، سود وغیرہ جیسی بیماریوں سے ہمیں بچنا چاہیے تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں، یہ سب برائیاں ختم کرکے پھر ہمیں ربیع الاول کو منانا چاہیے کیوں کہ بقول شاعر در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است آبروئے ما زنام مصطفی است لیکن ہمیں ربیع الاول کے پیغام کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، اپنی زندگی میں اُسے اپنا چاہیے تاکہ ہم پرسکون زندگی گزار سکیں اور اس ملک سے بھی بے برکتی ختم ہو سکے۔ ورنہ دنیا میں ناکامی ہمارا مقدر بن جائے گی اور ہم تاریخ کا حصہ بن جائیں گے !!!