پی سی بی: مال ضرور بناﺅ مگر خوار ہوتی عوام کا بھی احساس کرو!

ہزاروں سال سے یہ روایت چلتی آرہی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے، جس سے اُس کے شہری تفریح حاصل کریں، یہ تفریح کھیلوں کی شکل میں ہوسکتی ہے، میلے ٹھیلوں کی شکل میں ہوسکتی ہے یا رومیوں کی طرح خونی کھیلوں کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ریاست کے لیے اس لیے بھی انتہائی ضروری ہوتی ہیں کہ شہری گھٹن زدہ ماحول اور ڈپریشن سے باہر نکل سکیں۔ آپ سعودی عرب کو دیکھ لیں، جہاں سخت اسلامی قوانین رائج ہیں، لیکن آخر کار اُسے بھی تفریحی سرگرمیوں کی طرف آنا پڑا ، اور وہاں اس وقت کھربوں ڈالر صرف اسی پر لگائے جا رہے کہ شہریوں کو تفریحی سہولیات اُن کے اپنے ملک میں ہی دستیاب ہوں۔ ورنہ اربوں ڈالر سالانہ خرچ کرکے اُن کے شہری بیرون ملک تفریح کے لیے جا رہے تھے۔ پاکستان میں بھی اس قسم کے ایونٹس کا انعقاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن یہ اشرافیہ اور مافیا کی نذر ہو کر اُلٹا عوام کے لیے عذاب کا باعث بنتے ہیں۔ اشرافیہ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہاں ہر ہونے والا کام قوم کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ یہ اپنے کمیشن یا محض تھورے سے فائدے کے لیے تفریح کو عوام کے لیے عذاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آپ پاکستان کے سب سے زیادہ مشہور کھیل کرکٹ کو ہی لے لیں، جب سے یعنی 2009سے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا ہے، تب سے اب تک 16سالوں میں شاید ہی کوئی ماہ وسال گزراہو جب پاکستانی قوم کو اذیت برداشت نہ کرنی پڑی ۔ پہلے چند سال تو کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان نہ آئی،،، پھر 2017ءمیں زمبابوین کرکٹ ٹیم پاکستان کی سرزمین پر اُتری تو جہاں جہاں میچز ہونا تھے، اُن شہروں کو چھاﺅنی میں بدل دیا، ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ ہر طرف سڑکیں، راستے بند۔ حتیٰ کہ گردو ونواح کے سکول و کالجز ، دفاتر اور گھروں کو بھی بندکروایا جانے لگا۔ پھر ایسا ہوا کہ پی سی بی نے یہ عادت ایسی اپنائی کہ اب چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب یہاں ہر سال پی ایس ایل کے میچز ہوں، کوئی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے، یا کوئی بھی آئی سی سی ایونٹ ہوپورا ملک مورچہ بند ہو جاتا ہے۔ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی عوام تفریح کے بجائے شدید اذیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ مگر نہ تو اس ملک کے فیصلہ کرنے والوں کو پرواہ ہے، نہ پی سی بی کو اور نہ ہی حکمرانوں کو۔ عوام جائے بھاڑ میں،،، ان کو کمیشن ملنی چاہیے، ان کی اپنی انٹرٹیمنٹ خراب نہیں ہونی چاہیے، ان کو فری پاسز ملنے چاہیے، ان کو پرائیویٹ ہوٹلوں سے کمیشن ملنا چاہیے، عوام کا کیا ؟ وہ تو پہلے ہی اس عجیب ، گھٹن زدہ ماحول اور دہشت گرد ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ پی سی بی نے ملک بھر میں جتنے بھی سٹیڈیم بنائے ہیں، اُس کے ساتھ کہیں آپ کو فائیو سٹار ہوٹل نہیں ملے گا،،، بلکہ ہوٹل یا Accomodationفاصلے پر ملیں گی۔ یہ فاصلہ شہر میں 5سے 10کلومیٹر بھی ہوتو نرا عذاب بن جاتا ہے۔ابھی تک پی ایس ایل کے 10ایڈیشن ہو چکے ہیں،اربوں ، کھربوں روپے کمائے گئے ہیں، مگر مجال ہے کہ چند کروڑ روپے یا ایک دو ارب روپے خرچ کرکے سٹیڈیم کے قریب ہوسٹلز کا اپ گریڈ کیوں نہیں کیا جا رہا، یا وہاں کوئی فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اور پھرجس دن آپ کے شہر میں کرکٹ میچ ہو، اُس دن آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ ڈرتے ہیں کہ اگر گھر سے نکلا تو کہیں نہ کہیں ٹریفک میں پھنس جاﺅں گا۔ آپ اس خوف سے ہی گھر میں دب کر رہ جاتے ہیں،،، اور ابھی تو ویسے ہی تین ملکی کرکٹ سیریز ہو رہی ہے،آگے چل کر چیمپئنز ٹرافی کے میچز ہونا ہیں، پھر پی ایس ایل شروع ہوگا،،، مطلب ابھی تین چار ماہ مزید خواری کے دن ہوں گے۔ تو کیا یہ جاہل ترین حکمت عملیاں بنانے والے ”بدھو“ دورکھڑے عوام کا تماشا دیکھتے رہیں گے؟ آپ یقین مانیں کہ صرف لاہور میں خواری کی انتہا یہ ہے کہ جس دن لاہور میں میچ ہو تو سب سے پہلے ٹیم کو اسٹیڈیم تک پہنچانے کے لیے گھنٹوں مال روڈ، جیل روڈ، فیروزپور روڈ تک کو بند کر دیا جاتا ہے،،، پھر واپسی پر بھی یہی حال ہوتا ہے،،، گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں،،، پھر جب تک شائقین گھروں کو نہیں چلے جاتے، اُس وقت تک تمام متعلقہ سڑکیں بھی بند رکھی جاتی ہیں۔ اللہ کے بندو!اگر آپ نے گزشتہ سال ملک کے تین کرکٹ سٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا بیڑہ اُٹھایا تھا تو یہ کام بھی کر لیتے کہ اسٹیڈیمز کے قریب ہوٹلز بنا لیتے۔ تاکہ وہیں سے ٹیم نکلے اور سٹیڈیم میں داخل ہوجائے۔ اس پر راقم کی پی سی بی کے ایک عہدیدار سے بات ہوئی تو اُس نے کہا کہ اس پر کام شروع کردیا گیا ہے، جلد ہی اچھے فیصلے کی اُمید رکھیں،،، یہی بات ہمیں سنتے ہوئے دس سال ہوگئے ہیں،،، مگر اچھی خبر تو اُس وقت آئے گی جب ان کے منہ کو لگا حرام کھانے سے انہیں فرصت ملے گی۔ چلیں میں اُس دوست کی بات مان بھی لوں تو آپ یہ دیکھیے گا کہ اگر پی سی بی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرتی ہے، تو یہ بھی ایک خاص گروپ کے لیے ہی ہوگا تاکہ کوئی اکٹھا کمیشن ہی حاصل کر سکیں۔ خیرہم کیا کریں ، ہم پاکستانی ہیں، کرپشن ہمارے اندر رچ بس گئی ہے،،، ہم نے ایک مشہور گروپ کے ہوٹلز کے ساتھ ٹھیکے طے کیے ہوئے ہیں، کمیشنز طے کیے ہوئے ہیں.... پھر یہ کمیشنز اوپر سے نیچے تک سبھی کی جیبوں میں جاتا ہے، ،، لیکن اگر پی سی بی اپنے ہوٹل بنا لے گی تو پھر ہم اُس گروپ سے کمیشن بھی نہیں لے سکیں گے اور نہ ہی کسی افسر یا سیاستدان کی دیہاڑی لگ سکے گی۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جب پی سی بی کی اس حوالے سے میٹنگ ہوتی ہوگی تو عوام الناس کی سہولت کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ہوگا۔ بلکہ وہاں پر ذکر کیا ہی ہونا ہے،،، ہمارے ایک دوست صحافی بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے بسا اوقات ہر حکومت میں کابینہ کی میٹنگز میں جا رہے ہیں ،،، مگر شاید ہی کوئی عوامی فیصلے کی منظوری وہاں پر ہوتی ہو۔وہاں جتنے بھی فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اشرافیہ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جن کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ پی سی بی میں بھی بورڈ اجلاس میں اشرافیہ کے لیے ہی زیادہ تر فیصلے کیے جاتے ہیں، جن کا عوام کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ چلیں! جب تک شرم نہیں آتی تب تک آپ ہیلی کاپٹر سروس ہی شروع کردیں،،، جس میں کھلاڑی آرام سے ہوٹل سے سٹیڈیم تک آجا سکیں،،، اس میں کیا ہی مسئلہ ہے؟ اگر آپ اسلام آباد سے مری کھانا لانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرسکتے ہیں،یا عمران خان بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاﺅس تک ہیلی کاپٹر پر جاسکتا ہے، تو کیا ٹیم ہوٹل سے سٹیڈیم تک ہیلی کاپٹر پر نہیں آسکتی؟ چلیں خان صاحب نے تو اس پر یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ عوام کو دشواری نہ ہو۔ لیکن یہ خیال ان کو کیوں نہیں آیا؟ بہرحال اس اہم ترین مسئلے پر عوام ہر سال اور سال میں کئی بار حکومت کے آگے رونا روتی ہے، مگر اس کا مداوا نہیں کیا جاتا۔ اور رہی بات چیئرمین پی سی بی کی تو یہ عہدہ ہی سفارشی ہے، اس کا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ اس عہدے کے بارے میں اگر آپ یہ کہیں کہ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ تبھی تو اس عہدے کے لیے ریٹائرڈ جج، جرنیل، بیوروکریٹ سبھی پر تول رہے ہوتے ہیں۔ اس منافع بخش ادارے کی چیئرمینی آپ کی سات پشتوں کو سنوار سکتی ہے۔ کمیشنز الگ ملتی ہیں، ٹھیکوں میں پیسے الگ سے ملتے ہیں، بیرون ملک دورے الگ سے حصے میں آتے ہیں، میچ کی ٹکٹوں کے پیسوں میں سے کمیشن الگ سے ملتاہے،،، بلکہ ٹکٹوں سے یاد آیا کہ ایک دوست کالم نگار ملک محمد سلمان کے بقول ”کرپشن اور بے حسی کی انتہا اس قدر ہے کہ جس شہر میں میچ ہو وہاں کے متعلقہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی آئی جی آپریشن کے بیج میٹ بھی فری پاسز مانگنے والوں میں سرفہرست ہوتے ہیں بلکہ بیج میٹ کی ڈیمانڈ ہی کم از کم پانچ پاسز سے دس وی وی آئی پی ہاسپٹیلٹی باکس کی ہوتی ہیں۔ ڈیمانڈ پوری نہ ہونے پر ان افسران کے بیج میٹ شدید شکوے کرتے ہیں کہ نواب کا دماغ خراب ہوگیا ہے،،پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے تمام کرکٹ سٹیڈیمز میں چیف سیکرٹری ،آئی جی، کمشنر، ڈی آئی جی آپریشن، ڈپٹی کمشنر سمیت لگ بھگ 10سے زائد محکموں کیلئے وی آئی پی باکس اور مختلف انکلوڑر کے فری پاسز دیے جاتے ہیں جبکہ باقی بہت سارے محکموں کے سیکرٹریز کیلئے بھی ہر میچ کے فری پاسز بھیجے جاتے رہے ہیں۔ اس دفعہ سی ٹی او لاہور کیلئے بھی وی وی آئی پی باکس کا اضافہ ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وی وی آئی پی باکس اور اعزازی پاسز کے باوجود ماضی میں سابق ڈپٹی کمشنر لاہور رہنے والوں نے پچاس لاکھ تو کسی نے اسی لاکھ کے ٹکٹ خریدے۔ اسی طرح دیگر محکموں نے بھی سرکاری پیسے سے لاکھوں روپے کے ٹکٹ خرید کر رشتہ داروں اور دوستوں میں بانٹے۔ یہ کلچر صرف لاہور تک محدود نہیں راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور کراچی سمیت ہر جگہ ہے۔ بہرکیف دور عمران خان کا ہو، پیپلزپارٹی کا ہو یا نوازشریف کا۔ بات ایک ہی ہے، عوام کے لیے ذلالت،،، تبھی سوال پھر وہی ہے کہ کیا اس اذیت میں میچ کروانا کسی فلاحی ریاست کو زیب دیتا ہے؟کیا پی سی بی کا مقصد صرف پیسے کمانا رہ گیا ہے؟ کیا کرکٹ کا فروغ اس طرح سے ہوتا ہے؟ کیا انہیں علم نہیں کہ کرکٹ صاف ستھری گیم تھی، مگر پی سی بی کی وجہ سے اُس سے نفرت ہونا شروع ہوگئی ہے، ایک تو سفارشی ٹیم کے ذریعے پاکستانیوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، حالیہ ٹرائی سیریز میں ہی آپ ان کی کارکردگی دیکھ لیں، آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ دنیائے کرکٹ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟ دوسرا سٹے بازی عروج پر ہے،،، بنابنایا میچ آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے،،،اور عوام سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ ہوا کیا ہے اور کیسے ہوگیا؟ لہٰذافیصلے کرنے والے خدا کا خوف کھائیں اور اگر ایسے ہی عوام کو خوار کرنا ہے تو آپ اپنے ایونٹس دبئی منتقل کر لیں،،، ہم دور بیٹھ کر ہی کرکٹ اور جوئے کو انجوائے کر لیں گے،،، اللہ اللہ خیرصلہ!