سانحہ مدین:کچھ تو کرنا ہوگا ،،،ورنہ!

عید پر تمام سیاحتی مقامات پر عوام کا رش تھا، ایسے میں سوات کسی سے پیچھے کیوں رہتا۔ سوات کے بھی تمام پوائنٹس پر غیر معمولی رش تھا۔ ایسے میں عید کے چوتھے دن جمعرات کو سوات کے علاقے مدین میں توہینِ قرآن کے الزام میںایک شہری کو گرفتار کیا گیا، پھر اُسے تھانے میں رکھا گیا، اور پھر ایک ہجوم آیا اور تھانے کو جلایا، وہاں سے ملزم کو نکالا اُسے ننگا کر کے سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور پھر زندہ آدمی کو آگ لگا کر مار دیا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاح نے 18 جون کو مدین کے ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا اور 22 جون کو ہوٹل میں پہلے سے موجود کچھ لوگوں نے شور مچا کر سیاح پر قرآن کو نذر آتش کرنے کا الزام لگایا تھا۔مقتول پر توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد پولیس اسے اپنے ہمراہ لے گئی تھی جس کے بعد مساجد اور گلیوں میں لاﺅڈ اسپیکر کے ذریعے مقامی لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے توہینِ قرآن کے اعلانات کیے گئے۔جس کے بعد حالات کنٹرول میں نہ رہے۔ سرکار نے حسب روایت ایک جے آئی ٹی تشکیل دی، جس کی سربراہی ایس پی انویسٹی گیشن بادشاہ حضرت کریں گے جب کہ کمیٹی میں ڈسٹرکٹ سیکیورٹی برانچ، انٹیلی جینس بیورو اور آئی ٹی کے ماہرین بھی شامل ہیں۔جس کی ابتدائی ”روایتی“ رپورٹ کے مطابق ملزم نے توہین مذہب سے بارہا انکار کیا، جبکہ ایس ایچ او کی غفلت بھی ثابت ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک نامعلوم سیاح نے مقتول کے دروازے کے سامنے برآمدے میں غالباً قرآنی صفحات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جلا کر پھینکے ہوئے پائے، اس سیاح نے ہوٹل انتظامیہ کو آگاہ کیا، جس کے بعد ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی اور ملزم کے کمرے کا دروازہ زبردستی کھلوایا، رپورٹ میں کہا گیا کہ مقتول ملزم نے دروازہ کھولا تو لوگوں سے اس کا سامنا ہوا، اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی سے انکار کیا اور واسطے ڈالے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے دلیری سے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی، ہوائی فائرنگ کی اور ہجوم کا بھی مقابلہ کیا، لیکن اعلیٰ افسران یا سیاسی عمائدین کی غیر موجودگی کے باعث بہت دیر ہوچکی تھی اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا، رپورٹ کے مطابق پولیس اور ہجوم کے درمیان تصادم میں 11 افراد اور 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، تھانہ میں پولیس وین، دو موٹر سائیکلیں اور پانچ گاڑیاں بھی جلائی گئیں، واقعے میں ڈی ایس پی آفس اور ایس ایچ او کوارٹر کو بھی نقصان پہنچا۔رپورٹ میں بتایا گیا عینی شاہدین کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ سینئر افسران کہیں آس پاس میں ہی موجود تھے کیونکہ وہ اعلیٰ حکام کو فوراً رپورٹ کر رہے تھے لیکن صورتحال کو سنبھالنے کے لیے وقوعہ پر نہیں تھے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم کو نکالنے کے بجائے تھانے لے جانا، اور ہجوم کو سنبھالنے کیلئے سینئر افسران یا سیاسی طبقے کی عدم موجودگی کا نتیجہ اس واقعے کی صورت میں نکلا۔ اس پوری رپورٹ اور کارروائی کو بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے ہاں حساس معاملات میں کس طرح افسران کی لاپروائی اور کس طرح ہجوم کی بے حسی نظر آتی ہے،،، نہ تو اُس وقت مساجد کے لاﺅڈ سپیکر کے غلط استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے اُسے فوری بند کروایا جاتا ہے، نہ اعلیٰ حکام اس معاملے میں پڑتے ہیں اور نہ ہی سیاسی شخصیات ہی ہجوم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں پہنچتی ہیں اور نتیجے میں ایک بار پھر ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی میڈیا پرایک بار پھر خبر نشر ہوتی ہے اور بیچارے پاکستانی نژاد وہاں پر اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ حالیہ برسوں کے دوران توہینِ مذہب کی بنیاد پر لوگوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ گزشتہ ماہ سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں مشتعل ہجوم نے 75 سالہ شخص نذیر مسیح پر توہینِ قرآن کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جو تین جون کو دورانِ علاج اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔پھر حالیہ مہینوں میں ہم سب نے دیکھا کہ جڑانوالہ میں اقلیتوں کی پوری بستی کو ہی آگ لگا دی ۔ حالانکہ بعد میں انوسٹی گیشن کے بعد معلوم ہوا کہ توہین مذہب کا الزام ذاتی رنجش کی وجہ سے لگایا گیا تھا۔ پھر یہی نہیں بلکہ پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی مختلف جیلوں میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں 555 قیدی بند ہیں جن میں 537 مرد اور 18 خواتین شامل ہیں۔ قیدیوں میں سے 505 انڈر ٹرائل ہیں جب کہ ایک خاتون اور 49 مرد قیدیوں کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو چکی ہے۔ خیر مدین واقعہ میں اسلام کے نام پر اسلام کی جو رسوائی کی گئی ہے اس پر دل بہت اداس ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران انتظامیہ اور پولیس تماشائی بنی رہی۔ بلکہ حکومت کے کسی نامعلوم ترجمان کے ٹِکر ٹی وی چینل پر چلتے رہے کہ صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے۔ اب ہرطرف سے اسلام کے نام پر کی گئی اس غلیظ حرکت کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی مذمت تو ہر دفعہ ایسے مواقع پر کی جاتی ہے۔ مگر کسی مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا۔ سانحہ سیالکوٹ دیکھ لیں، انصاف ہوتا اگر نظر آتا تو ہم بھی دیکھتے، پھر دنیا بھی دیکھتی اور کہتی کہ نہیں! یہاں واقعی انصاف کا بول بالا ہے۔ اگر سانحہ بادامی باغ میں ملوث افراد کو سزا ہوجاتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ پھر حالیہ واقعہ میں شرپسندوں کے چہرے ویڈیو کلپس میں نظر آ رہے ہیں، جس طرح کور کمانڈر ہاﺅس کو جلانے والے مجرموں کو گرفتار کیاگیا اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ یا عدالتوں میں کیس چلانے کیلئے ہوم ورک کیا جارہا ہے، اس جرم کے منصوبہ سازوں، مسجدوں سے اعلانات کرنے والوں، املاک کو آگ لگانے، لوٹ مار کرنے والوں کو بھی ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ مستقبل میں کسی اندرونی یا بیرونی پاکستان دشمن کو ایسا کرنے کی جرا¿ت نہ ہو۔ لیکن اس سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ کہ ہم ذاتی رنجش کو مذہب میں تبدیل کر دیتے ہیں،،، اسی چکر میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا، حالانکہ اُس نے کہا تھا کہ ان تمام چیزوں کو سب سے پہلے ایک سیشن جج انوسٹی گیٹ کرے۔ اور میں ابھی بھی یہی کہوں گا کہ ایسے سانحات میں سکیورٹی فورسز کی سب سے پہلے تربیت کی ضرورت ہے، پھر اس کی شفاف انکوائری کی ضرورت ہے، جو کسی اعلیٰ درجے کے آفیسر سے انوسٹی گیٹ کروائی جائے۔ کیوں کہ ہم اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ ہم انسانی جان لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ بہرحال جو بھی ہوا، اس سے بڑا ظلم کسی ریاست میں نہیں ہو سکتا۔ ہم روزانہ بھارت کا”مکروہ“ چہرہ دکھاتے ہیں مگر اپنا مکروہ چہرہ ہم دکھانا بھول جاتے ہیں، پھر یہی نہیں بلکہ پاکستان جب سے بنا ہے، تب سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، تبھی اقلیتیں یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ جب پاکستان بنا اُس وقت یہاں غیر مسلم آبادی کا تناسب 23فیصد تھا، جو کم ہوتے ہوتے آج 3.5فیصد تک رہ گیا ہے۔ ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید یہ بات زیادہ عجیب نہیں لگتی مگر دنیا ہمیں جس زاویے سے دیکھتی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ وہ ہمیں شدت پسند، انتہا پسند، دقیق نظریے کے حامل لوگ، تنگ نظر لوگ، معتصب افراد، کم ہمت و کم حوصلے والے افراد، بیزار لوگ اور ناجانے کن کن القابات سے پکارتے ہیں۔ اور پھر تب انتہا ہو جاتی ہے جب ہمارے ہاں سے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ فلاں مذہب کے افراد کی پوری بستی کو آگ لگا دی گئی، فلاں غیر مسلم شخص کو جلا دیا گیا، فلاںخاتون کو مذہب کے فلاں مقدمے کے تحت گرفتار کر لیا گیا وغیرہ ۔ اور پھر ان افراد پر بغیر کسی سنجیدہ تفتیش کے عوامی دباﺅ کو مدنظر رکھ کر سخت سے سخت سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناءپر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔لہٰذااگر قرآن پاک میں درج ہے کہ ہمیں خبر پھیلنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے، اس پر عوام کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے، اُنہیں سینس اور کامن سینس کا مطلب سمجھانے کی ضرورت ہے، ہمارے فیصلہ کرنے والوں کو اگر فرصت ملے تو اس پر ضرور سوچیں ، بلکہ یہ بھی سوچیں کہ دنیا میں ہم ایسے واقعات سے جہاں بدنام ہو رہے ہیں،وہی اقلتیں بھی ہم سے متنفر ہو رہی ہیں۔ تبھی کوئی ہمارے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں ۔ کوئی معاشی ادارہ لوگوں کو ہمارے ملک میں آنے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں کا م کر رہی ہیں ۔ وہ بھی یہاں سے بھاگ رہی ہیں۔ لہٰذااقلیتوں کے حوالے سے ہم کشادہ ذہن کے ساتھ کام کرکے یہ داغ دھو سکتے ہیں۔ لیکن اُس سے پہلے ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں کیا ہمارا دین ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہم اپنی اہمیت نہیں کھو رہے؟ کیا ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہیں؟ کیا ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں؟ کیا ہم انہی حرکات کی وجہ سے دنیا بھر میں اکیلے پن کا شکار نہیں ہو رہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اجتماعی طور پر یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نہ سدھرے تو جلد ہی ہمیں کسی ترقی پذیر اور پرلے درجے کے افریقی ممالک میں گنا جائے گا اور ہم مزید لاچار ہو جائیں گے!