گورنر راج کی ”چھڑی “سے پی ٹی آئی کو ڈرانے کی روش !

اس وقت ملک میں ایک بار پھر ”نوٹیفکیشن“ کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے،،، ایک بار پہلے بھی اکتوبر2021ءمیں ایسی ہی آوازیں سنی گئی تھیں تو اُس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی، اُس وقت حکومت کی جانب سے جنرل ندیم انجم کو بطور ڈی جی آئی ایس نوٹیفکیشن روکا گیا تھا، جسے بعد میں بوجوہ جاری کر دیا گیا تھا،،، اور اس واقعہ کے بعد مبینہ طور پر حکومت اور ادارے ایک پیج پر نہیں رہے تھے،،، اور اب بھی پانچ سال بعد ایسا ہی ماحول بنا ہوا ہے،،، بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حالات نارمل ہیں،،، لیکن ماہرین کے مطابق کہیں نہ کہیں مسئلہ ضرور ہے۔ ویسے میں یہاں بتاتا چلوں کہ 27 نومبر کو جب جنرل ساحر شمشاد مرزا پاکستان کی افواج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو امید کی جا رہی تھی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اس عہدے کے متبادل کے طور پر چیف آف ڈیفنس فورسز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی جو حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔تاہم 29 نومبر کی تاریخ گزرنے کے بعد چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کی تقرری کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں ہو سکا جس نے حکومتی عمل میں تاخیر اور اس کے آئینی مضمرات سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ کہیں نہ کہیں مسئلہ ضرور اٹکا ہو اہے،،، بلکہ بعض ماہرین تو یہ بھی خیال کر رہے ہیں کہ خان کی پارٹی ممبران اور خاندان کے لوگوں سے گزشتہ ایک ماہ سے ملاقات بھی اسی لیے نہیں کروائی جا رہی کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کہیں سے کوئی تحریک کا اعلان نہ کر دیا جائے۔ اور وزیر اعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی سے بھی ابھی تک ملاقات نہیں کروائی جا رہی ،،، جبکہ وہ 10مرتبہ ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل بھی آچکے ہیں۔ خیر عدالت کی جانب سے بانی تحریک انصاف سے ملاقات کے لیے منگل اور جمعرات کے دن مقرر کیے گئے ہیں،،، گزشتہ جمعرات کو جیل حکام کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آپ کی بانی سے ملاقات منگل تک کروا دی جائے گی،،، جبکہ آج بروز منگل تحریک انصاف کی جانب سے اڈیالہ جیل پہنچنے کی کال بھی دی جا چکی ہے،،، اور اس کے پوسٹرز کی سوشل میڈیا پر خوب پروموشن بھی کی جا رہی ہے۔ بہرحال اس ساری صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وطن عزیز اللہ توکل چل رہا ہے،،، نہ کہیں کوئی ٹھوس حکمت عملی، نہ کہیں کوئی گورننس، نہ کہیں حکومتی رٹ، نہ معاشی استحکام، نہ عوام کی شنوائی، نہ عدالتی نظام، نہ امن و امان اور نہ ہی کوئی تھنک ٹینک ۔ ایسے میں گزشتہ روز وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہہ دیا کہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کے لیے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔دو ماہ کے لیے گورنر راج لگ سکتا ہے اور مزید توسیع بھی کی جاسکتی ہے، ،، جبکہ آج بھی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اشارةََ کہا ہے کہ باقی تمام صوبوں میں افغان مہاجرین کو ملک بدر کیا جا رہا ہے جبکہ کے پی کے میں صورتحال مختلف ہے،،، اور وہاں غیر قانونی افغانیوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے،،، وغیرہ ۔ اس طرح کے بیانات یقینا ایسے وقت میں دیے جاتے ہیں جب وفاق اور صوبہ ایک پیج پر نہ ہوں۔ لیکن یہ بات بھی عوام جانتے ہیں کہ حالات کب بگڑے،،، یعنی حالات اُس وقت خراب ہوئے جب علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ کے پی بنایا گیا۔اب نئے وزیر اعلیٰ کی چونکہ بڑے گھر والوں کے ساتھ لیک سلیک نہیں ہے،،، اور نہ ہی اُن کے ساتھ ان کی بن رہی ہے ،،، تبھی سہیل آفریدی کی وزیر اعلیٰ بننے سے لے کر آج تک ملاقات نہیں جا رہی۔۔۔ اور حد تو یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ملاقات نہ کروانے کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں؟ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ گورنر راج لگانے سے کے پی کے میں انتشار بڑھ جائے گا،،، اس لیے بڑے جھگڑے میں نہ پڑیں اور ملاقات کروا دیں،،، ورنہ سب کچھ اُبل کر باہر آسکتا ہے۔ سب کچھ سے مراد کہ تین سال سے ملک میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا، نہ ہی کوئی ٹھوس حکمت عملی بنائی گئی ہے، بلکہ ان تین سالوں میں عدالتی نظام، الیکشن کمیشن، مقننہ اور دیگر ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں،،، ہر ادارے میں اقربا پروری نے جنم لے رکھا ہے،،، لیکن اس کے برعکس آپ اپنے سیف ہاﺅسز میں بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ”اوکے“ ہے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ کے پی کے میں گورنر راج لگانے کا سوچ رہے ہیں تو وہاں کے حالات بھی یقینا آپ کے قابو میں نہیں رہیں گے،،، بالکل اُسی طرح جس طرح بلوچستان میں حکومتیں صرف دفاتر تک اور بڑے ایک دو شہروں تک ہی ہیں،،، یہاں پر بھی ایسا ہی ہو جائے گا،،، لہٰذاخدا کے لیے ٹکراﺅ کی پالیسی سے گریز کریں، بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں، ڈائیلاگ ہی ہر مسئلے کا حل ہے، اور یہی ڈائیلاگ ایک دن آپ نے کرنا ہی ہے۔ تو خدا کے لیے آپ جلدی کریں،،، کیوں کہ پاور تو ساری آپ کو مل چکی ہے،،، اس لیے انا کے مسئلوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کے بارے میں سوچیں، سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔ جب عمران خان کو کورٹس سے سزا ہوچکی ہے تو پھر آپ سب لوگ تو محفوظ ہیں،، آپ کو تو مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہیے، آپ تو اُس کو چھوڑ بھی نہیں سکتے ، کیوں کہ اُسے تو صرف کورٹ نے ہی چھوڑنا ہے، تو کورٹ سمیت تمام ادارے آپ کے انڈر ہیں،،، تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ اور اگر آپ کو یہ فکر ہے کہ کوئی خان صاحب کو جیل توڑ کر آزاد کروا لے گا تو فی الوقت اس بات میں بھی کوئی صداقت نظر نہیں آتی۔ مسئلہ صرف ملاقات کا ہی ہے تو وہ آپ کروادیں۔کیوں کہ یہ ایک سزا یافتہ قیدی کا بنیادی حق بھی ہے، اور یہ حق اڈیالہ جیل کے ساڑھے 8ہزار قیدیوں کو بھی حاصل ہے جن میں قاتل، ڈاکو، جاسوس، غیرملکی جاسوس، دور دیس کے گھس بیٹھیے، ڈرگ ڈیلرز اور انتہائی سنگین اخلاقی فوجداری جرائم کے ملزمان انڈر ٹرائل قیدی ہیں۔کیا ان میں سے کوئی ایک قیدی بھی ایسا ہے جس کو ہفتے میں دو بار ملاقاتیوں سے ملنے کا موقع نہ دیا جارہا۔ اگر دو نہ ہو سکیں تو فیملی یا دوستوں سے ایک ہفتہ وار ملاقات تو لازماً کروائی جاتی ہے۔ دستورِ پاکستان کا آرٹیکل 10 یہ ضمانت دیتا ہے کہ کوئی ملزم اپنی مرضی کا وکیل کسی بھی وقت مقرر کر سکتا ہے اور وکیل تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وکلا کو علیحدہ سے کسی بھی حوالاتی یا قیدی موکل کے ساتھ ہر وقت ملاقات کی دستوری اور قانونی، دونوں طرح کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔لیکن اس کے برعکس عمران خان کو جیل خانے کے تمام قوانین پامال کرتے ہوئے ملاقات کی بنیادی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس طرح کے فاشسٹ سلوک کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا، جو آج عوام اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہا ہے۔ اور پھر جتنا آپ جھگڑے کی طرف جائیں گے، اس میں نقصان آپ ہی کا ہوگا، ،، آپ سے کوئی بلنڈر بھی ہو سکتا ہے، لہٰذاآپ اُنہیں سیاسی سرگرمیاں کرنے دیں،، آخر وہ ان سیاسی سرگرمیوں میں کیا کر لیں گے،، 1986ءمیں محترمہ بے نظیر ملک میں آئیں تھیں،، تو اس سے بڑے بڑے جلوس تھے، محمد خان جونیجو نے اُس وقت صحیح حکمت عملی اپنائی تھی، کہ اُس نے محترمہ کو روکا ہی نہیں ، ،، جس کے بعد وہ 20،25جلسے کرکے وہ ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئیں اور تحریک خود ہی ماند پڑ گئی تھی،،، یعنی ضیاءالحق کی فوجی حکومت موجود تھی، مگر جونیجو ایک نسبتاً سیاسی مفاہمت پسند اور معتدل وزیراعظم تھے۔ اُن کا مو¿قف تھا کہ سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں نقصان دہ ہیں، اسی لیے انہوں نے پیپلز پارٹی سمیت سیاسی جماعتوں کو کچھ حد تک جلسے جلوس کی اجازت دی،،، بے نظیر بھٹو کو لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں بڑے جلسے کرنے دیے،،، اپوزیشن کی سرگرمیوں کے خلاف خاص سختی نہیں دکھائی،،، حالانکہ ضیاءالحق اس کھلی سیاسی فضا سے خوش نہیں تھے، کیونکہ بے نظیر کے جلسے بہت بڑے ہونے لگے تھے۔جونیجو کی یہ نرمی بعد میں ضیاءاور جونیجو کے درمیان سردمہری کی وجوہات میں شامل رہی۔ بہرکیف آپ گورنر راج لگا لیں، مارشل لاءلگا لیں،،،یا کچھ مزید آئینی ترامیم بھی کر لیں،،، اس سے کیا ہوگا؟ یہ چیزیں وقتی طور پر تو آپ کے لیے بہتر ہو سکتی ہیں مگر بالآخر ان کا کوئی وجود نہیں رہتا،،، جیسے ابھی آپ کو یہی لگتا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے، اور آپ کی مرضی کے مطابق ہوں گے،،، کیوں کہ الیکشن کمیشن آپ کا ہے، عدالتیں آپ کی ہیں،،، پولیس آپ کی ہے،،، انتظامیہ آپ کی ہے،،، سکیورٹی ادارے آپ کے ہیں ،،، لیکن بعد میں کیا ہوگا؟ اس بار ے میں کسی کو بھی علم نہیں ہے،،، چلیں مان لیا کہ سب کچھ اچھا ہے تو پھر فکر کاہے کی ہے؟پھر گورنر راج لگانے کی کیا آفت آن پری ہے،،، اور پھر ملاقات کروا دیں،،، کیوں آپ ملک کو انتشار کی جانب لے جا رہے ہیں،،، کیا یہ بات سب لوگ نہیں جانتے کہ اس وقت تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے،،، وہ اکثریت میں ہے،،، آج بھی شفاف الیکشن کروا کر دیکھ لیں ،،،دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا،،، اور پھر یہی نہیں بلکہ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ تحریک انصاف والوں کی اکثریت نہیں ہے تو آپ اُن کو ایک جلسہ کرنے کی اجازت دے دیں،،، سب کچھ آپ کے سامنے آجائے گا،،، لہٰذاآپ بہترین حکمت عملی کی بدولت ملک کو سیاسی جھگڑوں سے بچائیں،،، ٹکراﺅ سے بچائیں تاکہ ملک میں استحکام آسکے،،، نہ کہ گورنر راج والی چھڑی سے سب کو ہانکنا شروع کردیں،، ایسا کرنے سے معاملے آپ کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں،،، آگے آپ کی مرضی ہے!