ہماری کرکٹ کو ”دفن“ کون کر رہا ہے؟

کیا کوئی یہ بات مان سکتا ہے کہ کرکٹ کا بادشاہ ملک جس نے ون ڈے کا ورلڈ کپ جیتا ہو، جس نے ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ جیتا ہو، جو تین سال تک ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون رہا ہو،،، اُس کی حیثیت اب پرلے درجے کے ملک کی رہ گئی ہو، جس کا کوئی کھلاڑی ٹاپ ٹین رینکنگ میں بھی نہ ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟،، جی ہاں! یہ پاکستان کی کرکٹ ہے،،، جو تاریخ کے سخت ترین زوال سے گزر رہی ہے،،، کہ ہم حال ہی میں بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز ہارے ہیں، ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم جسے آسٹریلیا نے 8کے 8میچ اُس کی زمین پر ہرائے ہیں مگر پاکستان بمشکل سیریز بچانے میں کامیاب ہو سکا۔ پھر یہی نہیں ہم گزشتہ ایک عرصہ سے کرکٹ کا نوحہ پڑھ رہے ہیں،،، کبھی ہم ورلڈ کپ کے پہلے راﺅنڈ سے باہر ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ملک میں ہی چیمپئن ٹرافی کا انعقاد کرکے خود پہلے راﺅنڈ میں ہی باہر ہو جاتے ہیں،،، کبھی ہم تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ہمیں اگلی چیمپئن ٹرافی، ورلڈکپ اور دیگر ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے بھی ہاکی کی طرح پر تولنا پڑیں گے،،، اور پھر کرکٹ کوالٹی کا حال تو اس سے بھی برا ہے،،، کہ جہاں دنیا بھر کی ٹاپ ٹیمیں آپس میں ٹیسٹ کرکٹ میں پنجہ آزمائی کر رہی ہیں،،، وہیں پاکستان کو محض ٹی ٹونٹی کرکٹ اور ون ڈے کرکٹ کے ساتھ ٹرخا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان ٹیسٹ کرکٹ میں ساتویں نمبر پر چلا گیا ہے،،، اور آنے والے دنوں میں اگر ویسٹ انڈیز ایک ٹیسٹ میچ بھی جیت جاتا ہے تو پاکستان آٹھویں نمبر پر چلا جائے گا،،، جس کے نیچے صرف بنگلہ دیش، افغانستان اور آئرلینڈ رہ جائیں گے،،، جبکہ ٹی ٹونٹی میں بھی یہی حال ہے کہ پاکستان اس وقت آٹھویں نمبر پر براجمان ہے،،، جس کے نیچے زمبابوے، آئرلینڈ، افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ہیں،،، ہاں البتہ ون ڈے میں ہم چوتھے نمبر پر ہیں،،، اور لگتا ہے اس کی رینکنگ کو بھی بیک گیئر لگنے والا ہے،،، یعنی پانچویں چھٹی پوزیشن والے ممالک پاکستان سے یہ پوزیشن چھیننے کے لیے زیادہ دور نہیں ہیں۔ اور یہ آج کی بات نہیں ہے، الحمد اللہ جب سے محسن نقوی صاحب چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں،،، اور ہم نے باقی ساری کھیلوں سے توجہ ہٹا کر کرکٹ پر توجہ دے دی ہے،،،تب سے کرکٹ کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔ ٹیم سلیکشن سے لے کر کپتانی تک اور پھر کپتانی سے لے کر آن گراﺅنڈپرفارمنس تک، جس شعبے پر بھی نظر ڈالیں، بیڑہ غرق ہے، تھکی ہاری بدن بولیاں، اترے چہرے، لڑنے کی سپرٹ سے عاری مائنڈ سیٹ اور سکِل سیٹ لے کر اترنے والی ٹیم عبرت ناک شکست سے بھلا کیونکر دو چار نہ ہو؟ حالانکہ اُن سے پہلے ہم ٹی ٹونٹی ، ون ڈے اور ٹیسٹ میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔ لیکن سیاست اور ”پرچیوں“ نے اس سسٹم کا بھی بیڑہ غرق کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہر کھلاڑی کو ایک سیریز کھلا کر ڈراپ کر کے ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے،،، کبھی سینئرز کا استحصال کیا جاتا ہے تو کبھی جونئیرز کو وقت سے پہلے کپتان یا نائب کپتان بنا کر اُن کا کیرئیر داﺅ پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال آپ یہ دے دیں کہ بنگلہ دیش کی ٹی ٹونٹی سیریز میں سلمان مرزا نے سب سے اچھی باﺅلنگ کی لیکن اُسے ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز سے ڈراپ کر دیا گیا۔اسی طرح احمد دانیال نے بھی اچھی باﺅلنگ کی مگر اُسے بھی ڈراپ کر دیا گیا۔ بورڈ کی کارکردگی تو اب یہ ہوگئی ہے کہ اُس کی آخری حد تک کوشش ہوتی ہے کہ جو ٹیم میں بہتر پرفارم کر رہا ہو، اُس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اُسے ٹیم سے نکال دیا جائے،،، اس کی مثال آپ فخر زمان، محمد حفیظ، شعیب ملک، بابر اعظم وغیرہ کی لے سکتے ہیں۔ درحقیقت کھلاڑی اُس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ”ان آﺅٹ“ ہوتا رہے،،، کیوں کہ اُس پر ٹیم میں رہنے کے لیے خاصا دباﺅ ہوتا ہے،،، اور اُس چکر میں وہ اچھا پرفارم کرنے کے چکر میں جلدی آﺅٹ ہو جاتا ہے،،، یا مزید خراب باﺅلنگ سٹارٹ کر دیتا ہے،،، آج بھی محمد عامر اچھا باﺅلر ہے،،،لیکن ان آﺅٹ کے چکر اور پرچی کلچر نے اُس کی قومی ٹیم میں جگہ ہی مشکوک بنا دی ہے، اب آپ اس کے مقابلے میں شاہین آفریدی کو دیکھ لیں کہ وہ نئی بال کے ساتھ محض چار اوورز کا پلیئر رہ گیا ہے، اُس کے بعد وہ اس قدر بری لائن لینتھ کے ساتھ باﺅلنگ کرتا ہے،،، کہ تیسرے درجے کے باﺅلر کی طرح مار کھا رہا ہوتا ہے،،، پھر حارث رﺅف کو دیکھ لیں، حسن علی کو دیکھ لیں یا آپ فہیم اشرف کو دیکھ لیں،،، کیا آپ ان باﺅلرز کے ساتھ ایشیا کپ میں اُتریں گے؟ جو ثواب سمجھ کر سکور کھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر آپ ٹی ٹونٹی کے کپتان سلمان آغا کو دیکھ لیں،،، اگر وہ کپتان نہ ہو تو اُس کی ٹیم میں ہی جگہ نہیں بنتی۔ پھر کبھی صائم کا تجربہ، کبھی صاحبزادہ فرحان کا،کبھی مقیم کا،حسن نواز کا، کبھی فخر کو اوپر کبھی نیچے، کبھی شاداب آﺅٹ تو کبھی کوئی ان۔ یعنی کوئی ترتیب یا حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ بولنگ اس ٹیم کی ہمیشہ سے بڑی سٹرینتھ رہی ہے، حارث رﺅف تیز گیند بازی کے لیے جانے جاتے تھے، کہاں رہ گئی موصوف کی پیس؟ شاہین ابتدائی اوورز میں بال دونوں اطراف پر سوئنگ کیا کرتے تھے جلد وکٹیں لیا کرتے تھے، کہاں گیا شاہین کا وہ ردھم؟ کدھر ہیں نسیم شاہ؟ مجھے تو ان سب میں غیرت والا ،عزت دار اور احساس دل رکھنے والا بندہ باب وولمر ہی لگتا تھا،،، جو آئرلینڈ سے 2007 میں ہارے تو صدمے سے جانبر نہ ہو سکے۔ ورنہ تو غیرت ہمارے ہاں تو کبھی ان عہدیداروں کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ الغرض ساری کھیلوں کو چھوڑ کر جب آپ نے ایک کھیل کی طرف توجہ مرکوز کر لی تو پھر اُسی کی تباہی کرنے کے در پے آگئے ہیں،،، کیا سیٹ اتنی ہی ضروری ہوتی ہے، کہ آپ بغیر تجربے کے بھی سفارشوں سے لگ جائیں اور کہیں کہ مجھے اس کی ساری سمجھ بوجھ ہے،،، اور میں ٹھیک کر لوں گا،،، تو ایسا کرنے سے صرف بیڑہ ہی غرق ہوتا ہے،،، اور کچھ نہیں ہوتا۔ کیا آپ خود کبھی کرکٹر رہے ہیں، کیا آپ کرکٹ کے تجزیہ کاربھی رہے ہیں، ،پھر آپ یہ دیکھیں کہ ذکااشرف کا کرکٹ کے ساتھ کیا تعلق رہا ہے؟ نجم سیٹھی کا کیا تعلق رہا ہے؟ جسٹس نسیم حسن شاہ کا کرکٹ کے ساتھ کیا تعلق رہا ہے، شہریار خان آفریدی، جنرل توقیر ضیا ءکی کرکٹ کے حوالے سے کیا خدمات رہیں ہیں،،، لیکن یہ تمام شخصیات پی سی بی کی چیئرمین رہی ہیں،،، اور بابنگ دہل رہی ہیں۔اور پھر یہی نہیں بلکہ نواز شریف جب جب وزیر اعظم رہے،،، کرکٹ بورڈ میں خاصی دلچسپی دکھاتے رہے،،، اُن کے 2013ءوالے دور میں اُن کی مقرر کردہ مینجمنٹ ٹیم ہی کام کرتی تھی، جن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ، چیف ایگزیکٹو کے انتخاب سے لے کر نئے آئین کی تشکیل تک تمام معاملات میاں صاحب کی منظوری سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتے تھے۔ میاں نواز شریف‘ جو بزعم خود نہ صرف کرکٹ کے شوقین ہیں بلکہ کرکٹر بھی ہیں، وزیر اعظم بننے کے بعد اوّلین فرصت میں ہی صدر مملکت کی جگہ خود کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ بن بیٹھے تھے۔ تبھی ہماری کرکٹ اور دیگر کھیلوں کا یہی حال ہے،،، الغرض آپ ہاکی کو دیکھ لیں، قومی کھیل بھی ایسے ہی برباد ہوا ہے،،، بلکہ باقی اداروں کا بھی یہی حال ہے،،، آپ واپڈا کے چیئر مین کو دیکھ لیں کہ ایک شخص ایک ادارے کے بارے میں جانتا بھی نہیں ہے،، لیکن اُسے بعد از ریٹائرمنٹ وزیر اعظم چیئرمین واپڈا بننے کے لیے مبارکباد دے رہے ہیں،،، اور نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں،،، یہ تو بالکل ایسے ہی جیسے بھٹو کے دور میں فضل الٰہی چوہدری صدر پاکستان بن گئے،،، لیکن 1973ءکے آئین کے بعد صدر پاکستان کے پاس اختیارات نہیں تھے،،،یعنی فضل الٰہی چوہدری، جو بھٹو دور کے پہلے صدر تھے، ایک کمزور صدر تھے جنہیں اکثر ربڑ اسٹیمپ کہا جاتا ہے۔ ایسا صدر جس کا کام صرف فیتے کاٹنا اور دستخط کرنا تھا۔ ان کے دور میں اصل اقتدار بھٹو کے پاس رہا، اور بعد میں جنرل ضیا کے قدموں میں چلا گیا،،، لیکن وہ صدر تھے،،، اور بھٹو بطور وزیر اعظم کسی غیر ملکی دورے سے واپس آرہے تھے، ،، تو ایسے میں فضل الٰہی تیار ہو رہے تھے ، جس پر اُن کے سیکرٹری نے پوچھا کہ سر خیریت! تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ بھٹو کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں،،، تو اُن کے سیکرٹری نے کہا کہ سر آپ صدر پاکستان ہیں،، آپ کا جانا نہیں بنتا۔ جس پر فضل الٰہی نے کہا کہ دیکھ لینا مروا نہ دینا۔ اور یہی حال ہمارے موجودہ وزیر اعظم کا ہے کہ موصوف اتنے بے اختیار ہیں کہ چیئرمین واپڈا کو مبارکباد دینے کے حوالے سے یقینا اُن کے سیکرٹری نے اُنہیں روکا ہوگا مگر اُنہوں نے یہی کہہ کر مبارکباد دے دی ہوگی کہ ”دیکھ لینا مروا نہ دینا“۔ بہرکیف یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاست، معیشت، تعلیم یا معاشرہ تنزلی کا شکار ہو اور دیگر شعبے عروج پا رہے ہوں۔ بیڑہ غرق ہونے کے اثرات بیڑے کے تمام حصوں تک دیر سے سہی، لیکن پہنچتے ضرور ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی تقسیم کے اثرات کرکٹ کے زوال میں بھی اب واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کی بنیادوں سے لے کر دیواروں تک نقب زنی کا سلسلہ دہائیوں سے جاری تھا۔ شکست و ریخت کا شکار دیواریں ہر نئے دور میں بجری سیمنٹ کے بغیر محض رنگ و روغن سے نئی کر دی جاتی تھیں۔ کنکریٹ کے بغیر یہ نقب زدہ کچی دیواریں بھلا کب تک ماضی کی ٹرافیاں ماتھے پر سجائے چھت کو سہارا فراہم کرتیں؟ قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی اور بدترین شکستوں کی کہانی نوشتہ دیوار تھی۔ چند ایک ذاتی پرفارمنسز کی بنیاد پر چند ایک فتوحات کا سلسلہ معجزوں سے مزید تعبیر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ گیم اب یکسر بدل کر رہ چکی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے کرکٹ کی سکیم ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ جبھی تو ماضی کے تقریباً تمام لیجنڈز کہنے کو مجبور ہیں کہ اصل گیم تو ٹیسٹ کرکٹ تھی، ٹی20 نے کھیل کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ بہرحال ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے ادارے کو چھوڑ کر دوسرے ادارے میں ٹانگ اٹکاتے ہیں،،، حالانکہ جن کا کام ہے، اُنہی کو کرنے دیں، اور جو کرکٹر رہے ہیں اُنہی کو یہ عہدے سونپ دیں،،، جیسے رمیض راجہ اس کی بہترین مثال ہیں،،، پھر دیگر بہت سے کرکٹرز بھی جو بیرون ملک خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، اُن سے بھی استفادہ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو اس کماﺅ پوت ادارے کے حوالے سے ذہن سے لالچ نکالنا ہوگا ورنہ ہماری کرکٹ کا حال بھی ہاکی کی طرح ہو جائے گا ، دنیا ہم سے بہت آگے چلی جائے گی،،،اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا!