ملٹری کورٹس سے سزاﺅں کی معافی ، خوش آئند فیصلہ !

چلیں! دیر آئید درست آئید کے مصداق فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے 9 مئی 2023ءکے 19 مجرموں کی سزاﺅں میں معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ہوا کچھ یوں کہ سانحہ 9 مئی کی سزاﺅں پر عمل درآمد کے دوران 67 مجرموں نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی پٹیشنز دائر کیں جن میں سے 48 پٹیشنز کو مزید قانونی کارروائی کیلئے ”کورٹس آف اپیل“ میں نظرثانی کیلئے ارسال کیاگیاجس میں سے 19مجرموں کی پٹیشنز کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کیا گیا۔یہ 19 مجرم وہ ہیں جو دی گئی 2 سال سزا میں سے لگ بھگ ایک سال اور چھ ماہ سزا پوری کر چکے ہیں اور ان کی باقی ماندہ سزا صرف چار سے پانچ ماہ باقی تھی۔ خیر اُمید کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کے گرفتار کارکنان کو مزید ریلیف ملے گا، کیوں کہ حکمرانوں پر دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔اور بڑے بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ آخر کار اب اس باب کو بند ہو جانا چاہیے۔ کیوں کہ سیاسی کارکنان پر جتنا ظلم ان 2ڈھائی سالوں میں ہوا ہے، اس کی مثال نہ تو آپ کو جنرل ضیاءکے دور میں ملتی ہے، نہ جنرل مشرف کے دور میں اور نہ ہی کسی اور دور میں۔ یقین مانیں ہم نے مشرف و ضیاءکا مارشل لاءدیکھا، ایمرجنسی دیکھی ، لاٹھیاں اور گولیاں چلتی دیکھیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے دیکھا، پھر زرداری کی کرپٹ ترین حکومت دیکھی، یہاں ہر روز دھماکے ہوتے دیکھے،،، سینکڑوں لاشوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ لیکن ایسی بے بسی آج تک نہیں دیکھی جو آج سیاسی اُفق پردکھائی دے رہی ہے۔ یقینا اس ”ریلیف“ نے عوام پر گہرا اثر چھوڑا ہے، کیوں کہ انقلاب کی طرف جاتی عوام پولیس، بیوروکریسی، سیاستدانوں سے اس قدر تنگ ہیں کہ خدا کی پناہ۔ آپ پولیس ہی کو دیکھ لیں، یہ جس کے گھر چاہتی ہے ، دھاوا بولتی ہے،،، اور چادر اور چار دیواری کا خیال رکھے بغیر کارروائی کرتی ہے؟ کیا ریاست ایسی ہوتی ہے؟خیربات کہیں اور نکل گئی، کیوں کہ آج کا موضوع ہمارا یہی ہے کہ ”حکمران“ اس وقت داد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے عوام کو آٹے میں نمک کے برابر ریلیف دیا، چلیں اتنا ہی سہی دیا تو ہے، کہ نہتے عوام اسی پر خوش دکھائی دے رہے ہیں،، بقول شاعر اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں بہرحال ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اقتدار میں کون ہے، کون ہوگا اور کون رہا ہے۔ہم تو صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کہاں ہےں؟ کیا اُسے کوئی ریلیف ملا؟ کیا اُس کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا؟ کیا اُسے عدالتوں سے انصاف ملا©؟ اگر یہ سب باتیں نہیں ہیں تو آپ اوپر جس کی مرضی حکومت لے آئیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ اور پھر آپ ان اقتدار تک لانے اور نکالنے والے بھی آپ ہیں، چلیں ن لیگ یا پیپلزپارٹی کو چھوڑیں تحریک انصاف کو دیکھ لیں، آپ نے خود ان کو ہیرو بنایا، نہیں یاد تو بتاتا چلوں کہ یہ گزشتہ 26سال سے سیاست میں تھے، خاص طور پر 2011ءسے آپ ہی کی سپورٹ نے اُسے اس قابل بنایا کہ وہ حکومت کرسکے، آپ نے اُس پر انویسٹ کیا، اُسے سامنے لے کر آئے، پھر آپ کی کوئی ذاتی ناراضگی پر اُس سے کوئی مسئلہ ہوا، اور پھر آپ نے کہنا شروع کر دیا کہ اس سے بڑا بددیانت اور غدار ملک میں ہے ہی کوئی نہیں۔ حضور! مائی لارڈ! ہم آپ کے غلام ! آپ ہی نے کہا کہ یہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے کرپٹ ہیں، ان کی کرپشن کو بتانے کے لیے آپ نے اربوں روپے خرچ کیے۔لیکن پھر دوبارہ اُنہی کو لا کر ہم پر مسلط کر دیا گیا۔ چلیں! ہمیں یہ بھی قبول ہے، لیکن پلیز تھوڑا سا وقت تو دیں کہ قوم خان صاحب کے خمار سے باہر نکل آئے۔ یعنی آپ کے یک دم کے فیصلے پھر 9مئی اور 26نومبر جیسے سانحات کو جنم دیتے ہیں، کیوں کہ آپ نے اُس کی حکومت ختم کی، اور پھر اُسے ہمدردی کا ووٹ مل گیا، پھر اُس سے الیکشن کا مینڈیٹ چھیناگیا توہمدردی کا گراف مزید بڑھ گیا۔ یہی نہیں بلکہ پھر غلطیوں پر غلطیاں ہوتی رہیں اور سینکڑوں جھوٹے کیسز بنا دیے گئے، جن کا سچائی سے دورتک کوئی تعلق نہیں ہے، پھر اسی پر بس نہیں ہوا تو آپ نے 9مئی اور 26نومبر اُس سے کروا لیے، ظاہر ہے یہ کروانے ہی ہوتے ہیں کہ جب آپ ان مذکورہ بالا واقعات کی شفاف انکوائری نہ کروائیں۔ تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ ابھی بھی تحریک انصاف کے دوسرے دور میں قائدین تحریک انصاف نے پہلا مطالبہ ہی یہی رکھا ہے کہ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اگر اس میں تحریک انصاف کا کہیں قصور ہوتا، تو کیا وہ شفاف انکوائری کا مطالبہ کرتے؟اور پھر مرے پر سو درے کہ ملٹری کورٹس بنا دی گئیں، سپریم کورٹ نے بھی ان کورٹس کو سزائیں سنانے کی اجازت دے دی، پھر ان کورٹس سے سزائیں ہوئیں اور اب عالمی دباﺅ، یا کڑی تنقید یا خود سے رحم کرنے یا کسی اور وجہ ان میں سے 19افراد کی سزائیں معاف کی گئیں۔ چلیں مان لیا کہ اگر تحریک انصاف سے غلطی سرزد ہوگئی ہے تو خدارا اُس پر ریاست اُنہیں ریلیف دے دے، کیوں پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ ملک کا ہی سوچ لیں، امریکا، برطانیہ یورپ کھلے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ آرمی کورٹس سے سزائیں دینا انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، مگر اس وقت ہمارے عدالتی نظام سے آپ کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ تفتیشی بھی ان کے، گواہ بھی ان کے، عدالتیں بھی ان کیں، اور معذرت کے ساتھ جج بھی ان کے۔ اس پر تو مجھے عربی ادب کی ایک مشہور حکایت یاد آگئی۔ ایسی بستی کے بارے میں‘ جس کے معتبر جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کے لیے مشہور تھے‘ اس بستی کے ایک مرد و عورت نے خفیہ نکاح کر لیا۔ نکاح شریعت کے مطابق‘ نکاح خواں اور گواہوں کی موجودگی میں ہوا۔ کچھ عرصہ بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا۔ اسے شرعی حقوق دینے سے انکاری ہوا چنانچہ خاتون شکایت قاضی شہر کے پاس لے گئی۔ قاضی نے سوال کیا کہ اس نکاح کی کسے خبر ہے؟ خاتون بولی: ہمارا نکاح عین شرعی ہے۔ سوال ہوا: کوئی گواہ؟ خاتون بولی: جی دو گواہ تھے جن کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ اس جواب پہ قاضی نے شوہر اور گواہوں کو طلب کر لیا۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی‘ بھری عدالت میں شوہر اور گواہوں نے خاتون کو پہچاننے اور نکاح سے صاف انکار کر دیا۔ پھر بولے: اس خاتون کو آج سے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ خاتون پریشان ہوئی مگر قاضی نے اطمینان سے پوچھا: خاتون! بقول آپ کے کہ میرے شوہر کے گھر میں کتے بھی ہیں، تو کیا آپ کتوں کی گواہی اور ان کے فیصلے کو قبول کر لیں گی؟ خاتون نے کہا: مجھے کتوں کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ جس پر قاضی نے حکم صادر کیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر کتے خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ اجنبی اور جھوٹی ہے‘ لیکن اگرکتے خاتون کو دیکھ کر خوش ہوئے اور اس کا استقبال کیا تو پھرخاتون کا دعویٰ سچا، شوہر اور گواہ جھوٹے ہیں جبکہ خاتون گھر کی مالکن ہے۔ یہ حکم جاری ہوتے ہی قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا جن کے چہرے جھوٹ پکڑے جانے کے خوف سے پیلے اور جسم کپکپا رہے تھے۔ ایسا کرنے کے بعد ملزمان نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور قاضی صاحب نے سپاہیوں کو دوسرا حکم دیا: گرفتار کر لو ان جھوٹوں کو‘ انہیں کوڑے لگاو¿‘ یہ جھوٹے گواہ ہیں۔ قاضی نے اپنے فیصلے میں یہ تاریخی الفاظ عربی زبان میں لکھے: ”بئس القری التی اصدق کلابھا من اہلھا“یعنی بدترین بستیاں ہیں وہ جن کے باشندوں سے زیادہ ان کے کتے سچے ہیں۔ لہٰذااس وقت ہمارے ہاں بھی حالات ایسے ہی ہیں، اگر کہیں کوئی بہتری کی اُمید نظر آرہی ہے تو وہ ہے عالمی دباﺅ، جس کو تحریک انصاف بھرپور انداز میں استعمال کر رہی ہے، اور حکمران بھی اسی لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے سنجیدہ ہوئے ہیں، یعنی جو کہتے تھے کہ ”فتنہ زندہ نہیں چھوڑا جا سکتا“ اب ”آﺅ مل بیٹھ کر بات کریں، پر نیچے اُتر آئے ہیں۔ ظاہر ہے شریف نظامِ حکومت والے ”ڈرتے ورتے“ بالکل بھی نہیں۔ لہٰذا انہوں نے ”عمران اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ ‘والا نعرہ دفنا دیا۔اور اگر میرا یہ تبصرہ درست ہے تو یہ ایک خوش آئندبات ہے، کیوں کہ میں نے یہ بات شروع سے ہی کہی ہے کہ ریاست ہمیشہ ماں ہوتی ہے، ریاست کی طاقت عوام کو دبانے یا غیر ضروری طور پابند بنانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ طاقت عوامی مفاد میں استعمال کرکے عوام کو آسانیاں اور آزادیاں دینے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اگر ریاست ابھی نندن کو جو پاکستان پر حملہ کرتا ہے، کو 24گھنٹے کے اندر رہا کر سکتی ہے، کلبھوشن جو پاکستان میں بم دھماکے کرواتا رہا، کے ساتھ ابھی تک نارمل سلوک کر رہی ہے، یا ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے شہریوں کی جان لی، لیکن ہم نے اُس پر بھی رحم کھایااور امریکا کے حوالے کر دیا۔ تو ریاست اپنے شہریوں پر ایسی ہمدردی دکھانے سے کیوں قاصر ہے؟ کیوں یاسمین راشد اور دیگر خواتین کو ابھی تک پابند سلاسل کیا ہوا ہے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے ؟ کہ ایسا کرنے ہمارا امیج کیا بن رہا ہے؟ مطلب! دنیا کی نظر میں ریاست نے اپنے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اس لیے حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ بقیہ جو گرفتار کارکنان و قائدین ہیں اُن پر جرمانے عائد کرکے اُنہیں رہاکیا جائے،کمزور کو معاف کرنے کے حوالے سے ہمارا دین بھی واضح احکام دیتا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطاکرتا ہے۔اور پھر کسی دانا کا قول ہے کہ اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہو!