”ہارڈ اسٹیٹ “:ایک بار پھر سوچ لیں!

ٍٍٍایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ سال مارچ سے رواں سال مارچ تک مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں ہمارے 2ہزار کے قریب جوان شہید ہوئے ہیں،،، ان میں سب سے زیادہ کے پی کے اور بلوچستان میں ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ ایک ماہ سے ان شہداءکی تعداد میں اضافے کے بعد ملک بھر میں تشویش پائی جاتی ہے،، اور بلوچستان میں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دن دیہاڑے ٹرین اغوا کرکے چار سو سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے،،، اور اُس میں سفر کرنے والوں کی شناخت کرکے مارا جاتا ہے،،، جبکہ یہی نہیں بلکہ پاک افغان بارڈپر چاروں طرف سے فوجی چھاﺅنی کو گھیر کر وہاں موجود تمام اہلکاروں کا شہید کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر کے پی کے میں وزیر ستان اور پارہ چنار جیسے علاقے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیںجہاں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا معمول کی کارروائی بن چکا ہے۔ اب یہ آپ سکیورٹی گیپ سمجھ لیں، ناقص انتظامی حالات سمجھ لیں، بیرونی دہشت گردی سمجھ لیں، بھارت کا قصور سمجھ لیں، افغانستان کی جانب سے دراندازی سمجھ لیں، ایران کی جانب سے دہشت گردوں کی آمد سمجھ لیں، طالبان کی کارروائیاں سمجھ لیں، کالعدم بی ایل اے کی کارروائیاں سمجھ لیں، امریکا کا قصور سمجھ لیں، تحریک انصاف کا قصور سمجھ لیں، عمران خان کی غلطیاں سمجھ لیں، محمود خان اچکزئی کی ہٹ دھرمی سمجھ لیں، مولانا فضل الرحمن کی ناقص حکمت عملی سمجھ لیں، جہادی عنصر غالب آنے کا امکان سمجھ لیں، ریاست کے کمزور ہونے کا اعتراف سمجھ لیں یا کمزور سیاسی حکومت کی ناقص پالیسیاں سمجھ لیں.... لیکن جواب تو دینا ہوگا کہ آخر پاکستان کیوں ”ناکام ریاست“ بنا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے گزشتہ روز ”ان کیمرہ اجلاس “ہوا جس میںقائدین تحریک انصاف، بانی تحریک انصاف ، وزیر داخلہ اور صدر ن لیگ کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ”ان کیمرہ اجلاس“ ایک ایسا اجلاس ہوتا ہے جو بند کمرے میں منعقد کیا جاتا ہے اور اس میں عوام یا میڈیا کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ اصطلاح عام طور پر حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، یا کسی تنظیم کے خفیہ اجلاسوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔اس اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے،،، جہاں حساس معاملات پر بحث ہوتی ہے،،، اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان بریفنگ دیتے ہیں،،، جبکہ وزرائے اعظم اور دیگر رہنما اپنا اپنا ”ان پٹ“ دے کر ایک اعلامیہ جاری کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں سب سے اہم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقریر تھی جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں مملکت پاکستان کو ”ہارڈ اسٹیٹ“ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک ایک ”سافٹ اسٹیٹ “کے طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لئے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے، اس کے علاوہ انہوں نے سیاسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہمیں گورننس گیپ کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے،،، حالانکہ آرمی چیف نے اس پر بھی خوب سوچ بچار کی ہوگی کہ یہ ” گورننس کا گیپ “ کیوں اور کیسے آیا؟ میری ناقص رائے میں معذرت کے ساتھ جب 17 سیٹوں والی پارٹی کو ملک پر مسلط کیا جائے گا، عوام کے اصلی منتخب نمائندوں کو دھاندلے سے ہرا کر، پاکستانی عوام کے سب سے پاپولر لیڈر کو جیل میں ڈال کر جب بندوق اور ڈنڈے کے زور سے ملک چلانے کی کوشش کی جائے گی اور تمام اداروں کا فوکس اپنے کام سے ہٹا کر صرف ایک پارٹی کو تباہ کرنے پر لگایا جائے گا تو “گورننس کا گیپ” ہی آنا ہے۔حالانکہ اس وقت تحریک انصاف پر تنقید کی جارہی ہے کہ اُس کے دور میں طالبان کو لا کر بسایا گیا تو بتاتا چلوں کہ اُن دنوں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہیں یقین تو آپ خود ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا! خیر بات ہو رہی تھی ملک کا ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی توکسی ریاست کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہاں پر موجود تمام مزاحمتوں کو بزور طاقت کچلنا۔ طاقت کے ذریعے گورننس بہتر بنانا، ریاستی قوانین پر عمل درآمد کروانا، طاقت کے ذریعے معیشت کو بہتر بنانا (حالانکہ ابھی تک بیرونی انویسٹمنٹ کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن ہے) ، اور طاقت کے ذریعے اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے تاریخی پس منظر کی بات کریں تو پاکستان میں کئی مواقع ایسے آئے جب ملک کو بغیر کسی مشاورت کے ”ہارڈ اسٹیٹ“ بنانے کی کوشش کی گئی مگر وہ گلے پڑ گئی۔ اس کی پہلی مثال آپ بھٹو کے دور حکومت سے لے سکتے ہیں جب انہوں نے بلوچ کو سبق سکھانے کے لیے آپریشن کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی صوبائی حکومتیں برطرف کردیں جس کے بعد جھالاون اور مری بیلٹ میں گوریلا جنگ شروع ہو گئی۔اسی دور میں نیپ رہنماﺅں کو گرفتار کیا گیا ،جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، اور خیر بخش مری شامل تھے۔ ان رہنما ﺅں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس بنایا گیا۔بھٹو حکومت نے مری اور جھالاوان کے علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جسے چمالانگ آپریشن بھی کہا جاتا ہے۔اس آپریشن میں کوبرا ہیلی کاپٹروں نے گوریلا کیمپوں اور مری آبادیوں پر حملے کیے جس کے بعد بلوچستان ایک ایسے تنازع میں دھنستا گیا جس کے اثرات آج تک برقرار ہیں۔اس آپریشن نے بلوچوں کے دل و دماغ میں ریاست کے خلاف بداعتمادی اور نفرت کو مزید گہرا کیا۔پھر جنرل ضیاءکے دور میں بھی کچھ دیر امن برقرار رہا اور قدرے سوفٹ امیج دکھاتے ہوئے انہوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا۔ اور اس قدر ”سافٹ اسٹیٹ“ کا تاثر دیا کہ 30لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں بسایا۔ جن کی تیسری نسل اس ملک میں جوان ہو رہی ہے۔ اور بقول وزارت داخلہ کے ہر دوسری دہشت گردی میں افغان دہشت گردوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پھر مشرف صاحب آئے تو انہوں نے سافٹ امیج کو ختم کرکے ایک بار پھر ”ہارڈ اسٹیٹ “ کا تاثر دیا اور نواب اکبر بگٹی کے خلاف سخت آپریشن کرتے ہوئے اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا، اس آپریشن نے بلوچ عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔جسے اب تک ختم نہ کیا جا سکا۔ پھر اسی دور میں سوات آپریشن کیا گیا،،، اور وہاں طاقت کے استعمال سے طالبان کو افغانستان کی طرف دھکیلاگیا،،، لیکن اُس کے بعد وہ پورے ملک میں پھیل گئے اور ہر شہر میں خودکش دھماکے کیے گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری جاں بحق ہوئے۔ الغرض ہر دور میں دہشت گردی کے خلاف ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک نئے عزم اور ولولے کا اعلان کیا ،ہر بار ہماری بحث یہی رہی کہ اب ہم نے ہارڈ پالیسی کی طرف جانا ہے یا سافٹ حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے۔ہم تین دہائیوں سے یہ باتیں سن رہے ہیں جو آج قومی سلامتی کے اعلامیے اور آرمی چیف کے خطاب میں سننے کو ملی ہیں۔ اب سوال یہی ہے کہ ان باتوں کی عملی شکل کہاں ہے؟اور پھر مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی حکومت سافٹ یا ہارڈ پالیسی بناتی ہے،،، تو اُسے اگلی آنے والی قیادت یا حکومت ختم کردیتی ہے،،، تو پھر میرا وہی سوال کہ کیا ایسے میں ملک کو ایک مستقل ”تھنک ٹینک“ کی ضرورت نہیں؟ ہمیں دہشت گردوں کو بزور قوت کچلنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ پالیسی طویل عرصے تک قائم رہے گی اس کی گارنٹی کون دے گا؟ اور پھر یہ سوال اپنی جگہ ہی رہے گا کہ آگے کیا ہوگا؟کیا اس وقت ریاست کو یہ تلاش نہیں کرنا چاہیے کہ آخر مسئلہ ہے کیا؟ اگر آپ بلوچوں اور کے پی کے میں طالبان کی موجودگی کو الگ الگ کرکے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں تو مسائل کو سمجھنے اور اُنہیں حل کرنا آسان نہیں ہوگا؟ کیوں کہ اگر آپ بلوچوں کی بات کریں تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت بلوچوں کو ریاست پر اعتماد نہیں رہا ۔ بہرکیف میرے خیال میں اس وقت ملک میں ادارے موجود ہیں، قوانین موجود ہیں، سیاسی جماعتیں موجود ہیں، قائدین موجود ہیں مگر کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کس نے کیا کام کرنا ہے۔لہٰذاسیاسی انجینئرنگ یا الیکشن کو روند کر گورننس کے ماڈل متعارف کرانابند کریں۔ اب بہت ہو چکا ہے،،، ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہبی شدت پسندی سے لڑ رہے ہیں، جبکہ دو دہائیوں سے ہمارا واسطہ نسلی علیحدگی پسندوں سے ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان بنائے ہوئے بھی ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک ہم اس جانب ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔لہٰذا اس بار کی منصوبہ بندی کے ساتھ بھی وہی ہوگا کہ جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔اس لیے ریاست کو اپنا بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے اور ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں ریاست خود کو ٹھیک کرے تب ہارڈ یا سافٹ ریاست بنانے کی بات کرے۔ کیوں کہ اس وقت عالمی سطح پر ہماری ساکھ نہ ہونے کے برابر ہے، اور اب ہم دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے چین جیسے پڑوسی بھی اب ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم ان کے شہریوں کو بھی سکیورٹی فراہم نہ کر سکے۔اس لیے کسی بھی پلان کو بنانے سے پہلے ماضی کی طرف ایک دفعہ جھانک لیں،،، ایسا نہ ہو کہ اس دفعہ بھی ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے چکر میں ہم مزید پیچھے نہ دھکیل دیے جائیں!