شاہد خاقان عباسی : بحرانوں میں مضبوط لیڈر شپ کی طرف ایک قدم ؟

وطن عزیز میں اس وقت لیڈر شپ کا ایک بحران چل رہا ہے، کسی پارٹی میں کوئی قابل ذکر لیڈر ایسا نہیں ہے جو سب کو قبول ہو، جس کی اپنی میراث ہو، جس کی اپنی پہچان ہے، جس کی Struggle کی دنیا معترف ہو، یا جسے آپ سیاسی بحران کے حل کے لیے استعمال کر سکیں۔ آپ زرداری صاحب کو دیکھ لیں، بلاول کو لے لیں، نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز ، مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی خان کو دیکھ لیں، اختر مینگل کو دیکھ لیں یا ان جیسے کسی بھی لیڈر کو دیکھ لیں،حتیٰ کہ عمران خان کو دیکھ لیں، آپ کسی بھی سیاسی لیڈر کو ”قومی لیڈر“ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں نواز شریف یا عمران خان کو آپ اگر قومی لیڈر کہہ بھی لیں تو جب یہ لیڈران اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں بنتی۔ اور نہ ہی انہوں نے اپنے ادوار میں مقتدرہ کے زور کو کم کرنے کے لیے عوامی سطح پر کوئی کارکردگی دکھائی۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ترکی کے صدر طیب اردگان نے 2003ءسے لے کر 2010ءتک بغیر کسی کو چھیڑے، یا تنگ کیے سب سے پہلے انہوں ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کروایا، پھر اپنے آپ کو مضبوط کیا،،، 80فیصد سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ اتحاد میں شامل کیا۔ پھر 2016ءمیں جب وہاں مارشل لاءلگانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے عوام کے بل بوتے پر اُسے ناکام بنا دیا، اور آج بھی طیب اردگان ترکیہ پر نہ صرف حکمرانی کر رہے ہیں۔ بلکہ امریکا کے ساتھ حالات خراب ہونے کے باوجود معیشت کا پہیہ بھی بخوبی چلا رہے ہیں۔ اسی طرح روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو دیکھ لیں، آپ اُنہیں لاکھ ڈکٹیٹر کہیں، مگر انہوں نے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہونے اور یوکرین روس جنگ کے باوجود اپنی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ البتہ وہاں پر اُن کی کرنسی روبل ڈی ویلیو ضرور ہوئی مگر اس کا سدباب کرنے کے لیے اُنہوں نے یورپ کو گیس کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دی اور گیس کی ادائیگی روبل میں کرنے کو کہا۔ جس سے اُن کی معیشت سنبھل گئی اور آج بھی صدر پیوٹن بغیر کسی خوف کے اپنی مملکت کو چلا رہے ہیں اور درجنوں امریکی سازشوں کے باوجود روس کو ڈگمگانے نہیں دے رہے۔ ہمیں بھی ایسی ہی کسی مستقل لیڈر شپ کی ضرورت ہے، جو عوام، مقننہ، مقتدرہ اور ہمسایہ ممالک کو ساتھ لے کر چلے۔ مگر یہاں عمران خان کی طرح کا کوئی لیڈر آجائے جو عوام کے بارے میں سوچے، یا عوام میں مقبول ہو تو اُس کی مقتدرہ سے نہیں بنتی۔ اور نہ اُسے بنانی آتی ہے، بلکہ وہ سوچتا ہے کہ میں سپریم ہوں،،، اسی لیے وہ رگڑے میں آجاتا ہے اور بالآخر اُسے دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ کے سامنے عمران خان کے علاوہ بھٹو ، بے نظیر، نواز شریف سب کی مثالیں سامنے ہیں۔ خیر میری اس تمہید کے باندھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اس ملک میں لیڈر شپ کے حوالے سے سخت قسم کا بحران پایا جاتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ موجود نہیں ہے۔ بلکہ بہت سا ٹیلنٹ تو ہماری موروثی سیاسی جماعتوں نے روک رکھا ہے جن میں پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور اے این پی نمایاں ہیں۔ لیکن ان جماعتوں کے چند لیڈران ایسے بھی ہیں جو اپنی سیاسی جماعتوں سے نظریات کی بنیاد پر الگ ہوگئے ان میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، مصطفی نواز کھوکھر وغیرہ نمایاں ہیں۔ گزشتہ دنوں شاہد خاقان عباسی کو لیڈرز فورم میں راقم نے دعوت دی ، تاکہ اُن کو پرکھا جائے کہ انہوں نے ن لیگ کے ہوتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت عوام پاکستان پارٹی(اے پی پی ) کا اعلان کیوں کیا؟ اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ یا کیا وہ ایک بہترین لیڈر ثابت ہوں گے جس کی اس وقت ملک کو ضرورت ہے؟ تو جواب میں انہوں نے ایک سادہ ساجواب دیاکہ "Hope so.."۔ خیر ان کے ساتھ لمبی گپ بھی ہوئی، اور اُن کی فین فالوونگ کو دیکھتے ہوئے ایک بات تو واضح ہوئی کہ وہ لانگ ٹرم سیاست کے لیے میدان میں آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ وفاقی حکومت چلانا شہبازشریف کے بس کی بات نہیں ہے، عوام کی بات نہ حکومت کر رہی، نہ اپوزیشن،حکومت کی کوئی منزل اور راستہ نہیں، یہ ایک غیرمعمولی حالات ہیں،2023 تک میں (ن) لیگ کی سیاست اور قیادت کو دوسروں سے بہترسمجھتا تھا،ووٹ کو عزت کا نعرہ چھوڑ دیا تو وہ ہوا جو 8فروری کو ہوا، یہ جو کرسیوں پر بیٹھے ہیں یہ ان کی جگہ نہیں،اس وقت ملک کو بہتر سیاست کی ضرورت ہے،مجھے زندگی میں عہدوں کا کوئی شوق نہیں رہا، ہم اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں چھوڑ کر آئے ہیں، میرا مسلم لیگ (ن) سے کوئی شکوہ یا مخالفت نہیں ہے، بات صرف ووٹ کو عزت دو سے پیچھے ہٹنے کی ہے،نوازشریف سے ذاتی تعلق آج بھی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں 88 میں سیاست میں آیا ، میرے والد نے سیاست میں نام بنایا۔ میں بیرون ملک سے آیا تو ٹکٹ نہیں ملا، اس لیے آزاد الیکشن لڑا۔ 1988 میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آ رہی تھی، میری بے نظیر بھٹو سے ملاقات کروائی گئی۔ اس سے قبل میں نواز شریف سے مل چکا تھا اور میں انہیں کہہ چکا تھا کہ میں آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے آپ کے خلاف الیکشن لڑا ہے لیکن میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔انہوں نے کہا کہ نصیر اللہ بابر کے ساتھ بینظیر سے ملا تو انہیں کہا کہ 109ووٹ چاہئیں۔ اگر آپ کے پاس 108ووٹ ہوئے تو میں 109واں ووٹ بنوں گا۔ میں نے اس دور میں کھڑے ہو کر بینظیر کیخلاف ووٹ دیا حالانکہ اس دور میں آئی جے آئی کے 22اراکین نے بینظیر کو ووٹ دیا تھا۔ مجھے چوائس کرنی تھی کہ کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہونا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کی 90 کی پالیسیاں بہت اچھی تھیں،میں 2023 تک مسلم لیگ کی سیاست اور قیادت کو دوسروں سے بہترسمجھتا تھا۔ نواز شریف کی سیاست سے میرا اتفاق تھا، مشکل ترین وقت میں نواز شریف کے ساتھ رہا، میں نے کبھی ان سے وزارت نہیں مانگی۔نواز شریف گواہ ہیں، اپنی جماعت کے اندر بھی اپوزیشن میں وقت گزارا ، 2018 میں مجھے ہرایا گیا۔ انہوںنے مزید کہا کہ سیاستدان شیشے کے گھر میں رہتا ہے۔ مجھ پر تنقید کرنے کا حق صرف اور صرف نواز شریف کو ہے۔ 35سالہ سیاست میں 20سال اپوزیشن میں رہا۔ 5سال اقتدار اور اس سے پہلے اپنی جماعت کی اندرونی اپوزیشن میں رہا۔ جماعتوں کے اندر بھی اپنی رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔ جماعت کے فورم پر لیڈر سے ڈس ایگری کرنا سیاست میں سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ میں نے کبھی خوشامد نہیں کی جس کی گواہی سب ساتھی دے سکتے ہیں۔ مجھے وزارت عظمی کی آفر ہوئی تو اس اجلاس سے قبل مجھے بالکل نہیں پتا تھا۔سربراہ عوام پاکستان پارٹی نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں مجھے ہروایا گیا جس کی میں نے پروا نہیں کی۔ مجھے کہا گیا کہ اس نمبر پر بات کر لیں تو آپ کو جتوا دیا جائے گا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ایک ڈی ایس پی نے کہا کہ اس نے 36ہزار ووٹوں کے ٹھپے لگائے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے کہنے پر میں لاہور سے الیکشن لڑا۔ میں نے 2018 کے بعد 4سالوں میں کبھی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری دور میں غلط کیس بنا کر جیل میں ڈالا جاتا ہے، اس پر تکلیف ہوتی ہے، جیل میں کوئی قیامت نہیں آ جاتی۔ میرے لیے اڈیالہ جیل میں علیحدہ سیل تیار کیا گیا۔ میرے لیے جو سیل بنایا گیا آج اس میں بانی پی ٹی آئی ہیں ، سزائے موت اور توہین رسالت کے مجرموں کے درمیان مجھے قید رکھا گیا ، لیکن وہ وقت بھی گزر گیا۔شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ میں نے حکومت جوائن نہیں کی کیونکہ میں اسے مناسب نہیں سمجھتا تھا، ایک سال پہلے میاں صاحب کو بول دیا تھا کہ میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج اتنے مسائل ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیسے ان کا مقابلہ کرنا ہے، حرام کی کمائی کی طرح حرام کی کرسی میں بھی برکت نہیں، یہ جو کرسیوں پر بیٹھے ہیں یہ ان کی جگہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ سوچ نظر نہیں آتی جو معاشی مسائل حل کر سکے، نہ پی ٹی آئی حکومت نے کام کیا، نہ 16ماہ میں کام ہوا، نہ یہ حکومت کام کر رہی ہے، سود دفاعی اخراجات سے 4 گنا زیادہ ہے، حکومت کی کوئی منزل اور راستہ نہیں، یہ ایک غیرمعمولی حالات ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تیسرا ہفتہ ہے حکومت ایک ہی کام کر رہی ہے کہ ججز کی مدت ملازمت کیسے بڑھائی جائے، ہم ملک کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں، جب آئین بنتے ہیں تو بہت سوچ سمجھ کر بنتے ہیں، بحث کے بغیر قانون بناتے ہیں، ایک قانون جلسہ روکنے کے لیے بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جلسہ 15میل باہر ہو رہا ہے، حکومت نے پورا اسلام آباد بند کر دیا، ایک بل کا اطلاق کر کے جلسے کو روکنے کی کوشش کی گئی، بل کے لیے مولانا فضل الرحمن کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں، آج بظاہر معمولی چیزیں نظر آتی ہیں، کل بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس موقع پر راقم نے شاہد خاقان عباسی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس وقت ہال میں زعیم قادری بھی بیٹھے ہیں جو مورثی سیاست کے ڈسے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی مورثی سیاست کے وژن کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔میں نے شاہد خاقان عباسی سے ایک چبھتا ہوا سوال بھی کیا کہ ایک قابل ،ذہین سیاستدان انگوٹھا چھاپوں کے ساتھ کیسے گزارا کرتا رہا؟ ۔بہرحال شاہد خاقان عباسی نہایت منجھے ہوئے اور قابل احترام سیاستدان ہیں، جن پر کم از کم کوئی کرپشن چارجز نہیں ہیں۔ اُمید ہے وہ آگے چل کر عوام پاکستان پارٹی کے ذریعے اس ملک کی خدمت کریں گے اور پاکستان میں لیڈر شپ کے بحران کو دور کرنے کی اپنے تعیں بھرپور کوشش کریں گے۔ ہم سب ان کی اس کاوش میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گے!(انشاءاللہ ) ۔