مسئلہ بلوچستان! آخر کیسے حل ہوگا؟

آج وطن عزیز کے لیے ایک اور تلخ دن ہے،،، کوئٹہ میں کھچی بولان پنیر ریلوے اسٹیشن کے قریب جعفر ایکسپریس پر حملہ کرکے یرغمال بنا دیا گیا ہے، اور تادم تحریر محتاط ترین رپورٹنگ کے مطابق 190مسافروں کو ”بازیاب“ اور 30دہشت گردوں واصل جہنم کیا جا چکا ہے۔ جبکہ خبروں کے دیگر ذرائع اور عالمی ذرائع ابلاغ کچھ اور رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ خیر جو بھی حالات ہوں لیکن ملک کے لیے باعث شرمندگی نہ بنیں، اور اللہ تعالیٰ مغویوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور آپریشن کلیئرنس بھی کامیابی سے ہمکنار ہو۔ خیر اس دہشت گرد واقعہ کی مکمل ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے لی ہے،،، جو بلوچستان میں دہشت گردی کی 80فیصد کارروائیوں کی ذمہ دار ہے،،، ہم آج تک نہ تو اس کا مکمل خاتمہ کر سکے ہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنا سکے ہیں۔ حالانکہ یہ تنظیم 1970کے عرصے سے اپنی کارروائیاں کر رہی ہے،،، اور اس دوران ان کے کئی رہنماﺅں کو بھی ہلاک کر دیا گیا لیکن یہ ہر بار پہلے سے زیادہ شدید ہو کر سامنے آئی۔ ہم بلوچستان کے مسئلے کی تاریخ کے حوالے سے پھر کسی دن بات کریں گے، مگر اس وقت میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ پاکستان کی 78سالہ تاریخ میں آج تک دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر کوئی مسئلہ ہوا، پاکستان نے اُن کے لیے نا صرف آواز اُٹھائی بلکہ اُن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ اگر سعودی عرب میں حکومت کو مسئلہ ہوا تو پاکستان ہمہ وقت ساتھ تھا، اگر کہیں روس، چین، جاپان، کینیڈا، چلی ، آذربائیجان، برما، فلسطین، عراق، ایران ، شام حتیٰ کہ افریقہ کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا تو پاکستان نے دو قدم آگے بڑھ کر مدد کی۔ لیکن بلوچستان کے لوگ کیا مسلمان نہیں ہیں؟ بلکہ 99.9فیصد مسلمان ہیں، جو اُن کی آواز نہیں سنی جا رہی؟ کیا بلوچ لبریشین آرمی کے لوگ باہر سے آئے ہیں؟ آخر کیوں ہم ہر بار مذاکرات میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں؟ کیوں ہم اُن کے جائز مطالبات پر بھی کان نہیں دھرتے؟ ہم نے کئی مرتبہ لکھا کہ کم از کم اختر مینگل کو ہی سُن لیں،،، آپ اُسے اسمبلی میں تو بولنے کا موقع نہیں دیتے،،، مطالبات کیا خاک مانیں گے؟ بہرحال بلاشبہ یہ دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ بلوچستان میں دو درجن کے قریب بڑے بڑے ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی کام کر رہی ہیں مگر اُنہیں کس نے قابو میں کرنا ہے؟ ویسے تو مجھے بھارت سے بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے، کیوں کہ وہ دشمن ہے، اور وہ دشمن بھی ایسا ہے کہ جو پیٹھ پیچھے وار نہیں کر رہا، بلکہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے اندر گھس کر فلاں کو مار دیا ، فلاں کو پکڑ لیا جیسے حال ہی میں مفتی شاہ میر بزنجو کے قتل کو ”را“ اپنا کریڈٹ لیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ہم نے کلبھوشن یادیو کے بارے میں اطلاعات دینے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔بلکہ اُن کے وزراءتو کھل کر بیان دے رہے ہیں کہ اب پاکستان سے جنگ کی ضرورت نہیں،،، یہ خود اپنی جنگ لڑتے لڑتے (خاکم بدہن) مر جائے گا! لہٰذاایسے دشمن سے بچاﺅ کے لیے ہمیں دو قدم آگے رہ کر سوچنا چاہیے، ،، اگر دشمن نے سوچا ہے کہ وہ ہمارے گھر کو معاشی طور پر یا مفلوج کرکے ہم سے بدلہ لے گا تو ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا،،، ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ففتھ جنریشن وار کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور اُس کے طریقہ واردات کیا کیا ہیں؟ اور ہم نے اُن سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے،اورپھر اگر بلوچستان کے عوام ان ایجنسیوں کے ہاتھوں اپنے ملک کے خلاف ہی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو کیا ہمیں ان وجوہات کو تلاش نہیں کرنا چاہیے؟ کیا اُ نہیں اُن کے وہ حقوق نہیں دینے چاہیے جو وہ مانگ رہے ہیں؟ کیا زبردستی کسی قوم کا قلع قمع کیا جاسکا ہے؟ جو بلوچوں کی جبری گمشدگیاں کر کے یا اُنہیں مار کر کیا جاسکے؟ بلاشبہ ہماری فوج کی اس خطے کے لیے لازوال قربانیاں ہیں، لیکن یہ قربانیاں اُس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب وہ بے مقصد شہید ہوجاتے ہیں۔ یہ قربانیاں اُس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب یہ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں،،، یہ قربانیاں اُس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب آپ کسی خطے پر بغیر ووٹ کے حکومت بٹھا دیتے ہیں،،، یہ قربانیاں اُس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطہ ختم ہو جاتا ہے،،، اور یہ قربانیاں اُس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب آپ کی عدالتوں سے عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا۔ اور جب انصاف نہیں ملتا تو پھر ماہ رنگ بلوچ ، محسن داوڑ، علی وزیر یا منظور پشتین جیسے کردار جنم لیتے ہیں۔ بہرحال ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں تو ہم غلط ہیں، کہیں تو ہم نے ان بلوچوں سے دوری بنائی ہوئی ہے کہ وہ دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ انہیں ختم کرنا مسائل کا حل نہیں ہے اگر کسی قوم کو آپ ظلم یا جبر سے ختم کر سکتے ہوتے تو اس وقت دنیا میں ایک بھی فلسطینی زندہ نہ ہوتا، سبھی امریکا یا اسرائیل کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔ یا ایک بھی یہودی زندہ نہ ہوتا سبھی ہٹلر کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔ یا نسل کشی اگر اتنی ہی کارآمد ہوتی تو اس وقت برما میں ایک بھی مسلمان زندہ نہ ہوتا، بلکہ سب کو زندہ جلا دیا گیا ہوتا۔ اور رہی پاکستان کی بات تو یہاں بھی بزور قوت نہ تو کبھی کسی سیاسی جماعت کا خاتمہ ہوا ہے، نہ کبھی کسی قوم کا اور نہ ہی کسی گروہ کا۔ ہاں ان کے زور کو کم کرنے کے لیے کچھ ان کے مطالبات ماننا پڑتے ہیں، کچھ انہیں Facilitateکرنا پڑتا ہے، کچھ انہیں ضمانتیں دینا پڑتی ہیں۔ جیسے جب روس نے 1917ءکے بعد کئی ریاستوں پر قبضہ کیا تو ان ریاستوں نے بھی مزاحمت کی تھی، لیکن روس نے دبا دی اور ساتھ ہی کئی مطالبات بھی مان لیے،پھر ایسا نہیں ہوا کہ یہ مزاحمتیں 100سال تک چلتی رہیں۔ پھر آپ کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کا خوب خوف پایا جاتا تھا، مگر آج اُس کا خوف چیدہ چیدہ رہ گیا ہے، پھر فلپائن میںمسلم گوریلاتھے جن کے اثر و رسوخ کو حکمت عملی سے ختم کردیا گیا، پھر آپ کشمیر کو دیکھ لیں، کیا بھارت اب مکمل طور پر انڈین کشمیر پر قابض نہیں ہوچکا؟ کیا اُس نے وہاں سب کشمیریوں کو ختم کردیا؟ پھر تامل ناڈو یا دیگر ریاستوں میں شورش ختم قدرے کم نہیں ہوگئی؟ جبکہ اس کے برعکس ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم سے آج تک کوئی مسئلہ حل کیوں نہیں ہوا؟ ہم نہ تو مذاکرات سے کسی کا دل جیت سکے ہیں اور نہ ہی کسی آپریشن سے دشمن کا مکمل خاتمہ کر سکے ہیں۔ بلکہ ہم تو پاکستان کو مزید مسائل کی بھٹی میں دھکیل رہے ہیں۔ یعنی ہم ایک نئے محاذ کو کھولنے جا رہے ہیں،،، یعنی ہم نے نہری نظام کو وسعت دینے کے لیے بغیر سوچے سمجھے منصوبے بنا رہے ہیں، جیسے دریائے سندھ سے چولستان کو نہر نکالے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، اب اس منصوبے پر سندھ کبھی راضی نہیں ہوگا، بلکہ سندھی تو پہلے ہی پریشان ہیں کہ پانی کم ہے، اور سندھ کی فصلوں کو سیراب کرنے سے دریائے سندھ کا پانی قاصر ہے۔ جبکہ صدر زرداری اور دیگر وزراءبھی اس پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ مطلب! پہلے خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، بلوچستان کے ساتھ صورتحال اچھی نہیں ہے اور اب مرکز سندھ کے ساتھ بھی بگاڑنے چلا ہے،،،جس طرح آج پنجاب بلوچستان کے درمیان سفر کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے، بالکل ویسے ہی اور کیا آپ کو یاد ہے کہ سندھ پنجاب کے تعلقات پہلے ہی بمشکل ٹھیک ہوئے ہیں،،،بھٹو کی پھانسی کے بعد پنجابیوں کا سندھ کے لیے سفر کرنا نہایت مشکل تھا، جب سندھ کے لیے ٹرین نکلتی تو سندھ کی حدود میں داخلے سے ٹرین کے آگے اور پیچھے فوج کے ڈبے لگائے جاتے تھے،،، لہٰذااگر ہم نے پھر وہی کام کیا تو ایک بار پھر ہمارے لیے سندھ بھی مسئلہ بن جائے گا۔ اور ہمارے لیے ایک نیا محاذ تیار ہوگا! لہٰذا خدا کے لیے کوئی تھنک ٹینک بنائیں جو دیرپا پالیسی بنائے، کیوں کہ ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی ایک نے سخت آپریشن کا فیصلہ کیا تو دوسرے نے بلوچوں سے معافی مانگی اور تیسرے نے آکر پھر انہیں مارا ، حتیٰ کہ جو لوگ حکومتی معافی کے تحت پہاڑوں سے اُترے تھے، اُنہیں بھی ماردیا۔ تو پھر کیا اُمید رکھی جائے؟اگر کوئی”پنٹاگون “ قسم کا مستقل تھنک ٹینک ہو تو کیا ہماری بچت نہیں ہوجائے گی؟ اور پھر ضروری نہیں کہ اس میں ریٹائرڈ آرمی آفیسر ز کی ہی خدمات لی جائیں،،، بلکہ 70فیصد سے زائد سویلین کو موقع دیں جو بغیر کسی لیت ولعل کے کام لیں اور بہترین پالیسیاں بنائیں۔ اور پھر پارلیمنٹ سے اس حوالے سے قانون سازی کروائیں کہ جو اس تھنک ٹینک کی بنائی ہوئی پالیسیوںپر عمل پیرا نہیں ہوگا وہ وزیر بننے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ لیکن ایک مسئلہ ہے! کہ یہاں بھی یہ لڑائی نہ شروع کر دی جائے کہ جوڈیشل کمیشن کی طرح اس تھنک ٹینک میں بھی سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور ادارے کہیں کہ ہمارا حصہ زیادہ رکھا جائے۔ لیکن ہر چیز کا حل ہوتا ہے،،، شرط یہ ہے کہ اگر آپ نیت صاف رکھتے ہیں ،،، لیکن اگر نیت میں ہی فتور ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو ہمیشہ شکست ہی ہوتی ہے۔ اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور ہر مسئلے کے جز وقتی حل نکالنے کے بجائے مستقل حل نکالیں،،، مذاکرات کرنے ہیں مکمل مذاکرات کریں،،، دشمنی نبھاتی ہے تو مکمل دشمنی نبھائیں،،، ایسا نہیں ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق گئے دونوں جہاں سے وائے ستم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے