پنجاب : چھوٹے ڈاکوﺅں کیلئے جہنم اور بڑوں کےلئے جنت بن گیا!

میرا پنجاب آج کل چھوٹے ڈاکوﺅں کے لیے جہنم اور بڑے ڈاکوﺅں کے لیے جنت بنا ہوا ہے،،، کیوں کہ بڑے بڑے ڈاکو حکومت میں بیٹھ کر بڑی بڑی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں،،، جبکہ پولیس ماورائے عدالت ،،، مبینہ جعلی پولیس مقابلے کر کے خود ہی منصف بنے ہوئے ہیں۔ جی ہاں! اپریل 2025ءسے جب سے ”سی سی ڈی“(کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) تب سے لے کر اب تک 3 ماہ میں پنجاب بھر میں پولیس مقابلوں میں 35 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے،،، اور رواں سال اب تک پولیس اور مجرموں کے درمیان 777 ”مقابلے“ ہوئے، جن میں 363 ”مجرم“ اپنے ”ساتھیوں“ کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے۔مزید وضاحت کردوں کہ آج کل عوام کو لوٹنے والے ڈاکوﺅں کو ان کے ساتھی چھڑوانے کے چکر میں جان سے مار رہے ہیں۔یعنی کہانی وہی پرانی گھسی پٹی اور ایک ہی ہے کہ ان کے ساتھی چھڑوانے آئے تھے اور اپنے ہی ساتھی کو مار کر بھاگ گئے۔ بعض لوگ اسے حکومت کی کارکردگی کہہ رہے ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ کارکردگی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی اور اپنے ہی نظام انصاف پر عدم اعتماد ہے۔ وہ نظام عدالت جس پر آج کے منصف اعلیٰ فخریہ بیٹھے ،،، نظام کو منہ چڑھا رہے ہیں،،، لہٰذاحکومت کو اس پر فخر نہیں‘ شرم آنی چاہیے کہ یہ جعلی پولیس مقابلوں میں مرنے والے ڈاکوﺅں کا نہیں،” نظامِ انصاف“ کا جنازہ ہے۔ ویسے تو پولیس کا کام ہے کہ جرائم کا خاتمہ اور عوام کے جان و مال کی حفاظت ، اور اس نئے ادارے کا مقصد بھی یہی ہے،،، یعنی ”سی سی ڈی“ کے قیام کے حوالے سے خصوصی طور پر جو مقاصد متعین کیے گئے ہیں ان میں چوری، ڈکیتی، اغوا اور قتل وغیرہ جیسے جرائم سے لے کر بلیک میلنگ اور زمینوں پر قبضے جیسے جرائم کا خاتمہ شامل ہے۔ اورتبھی ”سی سی ڈی“ کو جدید ”اے آئی“ اور ڈرون ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا گیا ہے، جس میں ڈیجیٹل کرائم ڈیٹا سسٹم کے ذریعے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کی جا سکے گی۔ہم نے پہلے بھی اس پر تنقید کی تھی کہ جب سی سی ڈی کے مقاصد بھی وہی ہیں جو پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہیں تو آپ عام پولیس کا اس ٹیکنالوجی سے روشناس کرواد یں تاکہ اُن کی کسی طرح سے بھی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کی کہ اس کے بنانے کے مقاصد سیاسی لگ رہے ہیں،،، تبھی سی سی ڈی کے قیام کے بعد ان پر تنقید بھی شروع ہو چکی ہے۔اور اب تک ملتان میں سی سی ڈی کے اہلکاروں پر ایک باپ بیٹے کو قتل کرنے کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے اور کاہنہ میں مبینہ پولیس مقابلے میں سی سی ڈی کی زیر حراست روحیل مسیح عرف سنی کی ہلاکت کا واقعہ بھی رپورٹ ہوا ہے۔ لہٰذاکسی کا ”پولیس مقابلے میں مارا جانا“ ہمارے نظام انصاف پہ سوال ہے کہ اگر ملزم کو ایسے ہی ”مقابلوں“ میں قتل کرنا ہے تو پھر اس ملک کے قانون اور عدالتوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اور کیا کسی نے سوچا کہ اس کے دیرپا نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ کہ جنہیں آپ بندے مارنے کی کھلی چھٹی دے رہے ہیں،،، جب آپ اُن پر سے ہاتھ اُٹھا لیں گے،،، یا اُن کے چیف تبدیل ہو جائیں گے،،، تو جو اُن کو ”عادت“ پڑ گئی ہے،،، وہ کیسے جائے گی؟ پھر ہو گا یہ کہ ایک تو یہ لوگ سیاسی لوگوں کے ہتھے چڑھیں گے،،، اور سیاسی لوگ انہیں اپنے مخالفین کو مارنے ، ڈرانے ، دھمکانے یا بھتہ لینے کے لیے استعمال کریں گے،،، یا یہ لوگ راﺅ انوار یا عابد باکسر بن کر خود سے بھی اکا دکا مقابلے کرکے ہاتھ صاف کریں گے،،، اور پھر جب ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے فلاں بے گناہ شخص کو کیوں مارا تو یہ کہیں گے کہ جہاں اتنے لوگ آپ کے کہنے پر مارے،،، وہاں ایک دو کو مارنا تو اُن کا بھی حق بنتا ہے۔ اور پھر سی سی ڈی تو پنجاب کی حد تک بنایا گیا ادارہ ہے،،، کیا ملزمان اب تک پنجاب کی حدود میں بیٹھے ہوں گے،،، کیا وہ سندھ ، بلوچستان یا کے پی کے میں فرار نہیں ہو جائیں گے،،، اور پھر جب یہ لوگ واپس آئیں گے تو کیا یہ مزید جرائم پیشہ نہیں ہوں گے؟ کیا یہ بین الصوبائی ملزمان نہیں بن جائیں گے۔۔۔ کیا قارئین کو یاد نہیں ہے کہ جب پنجاب میں ایلیٹ فورس بنائی گئی تھی تو بتایا گیا تھا اس کا کام سنگین جرائم میں ملوث اور رہزنی، اغواءبرائے تاوان اور ڈکیتی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔ شروع میں کام اچھا ہوتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہر نئے ونگ پر روائتی پولیس کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔اور اب یہی ایلیٹ فورس کی بڑی تعداد وزرائ، اُن کی فیملیز، جج صاحبان، بیوروکریٹس، اور دیگرز کے ”پروٹوکولز‘ کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ مجھے شک ہے کہ اس فورس کا کام بھی مستقبل میں شاید یہی رہ جائے گا۔اور پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس وقت جو خوف ملزمان یا عوام کی آنکھوں میں دیکھا جا رہا ہے،،، تو کیا یہ سب سی سی ڈی کے خوف سے بندے کے پتر بن رہے ہیں؟ قانون کے خوف سے نہیں، حالانکہ قانون تو پہلے بھی موجود تھا اور اگر کسی وجہ سے یہ سی سی ڈی آگے جا کر ختم کر دی گئی یا اس میں جو جوش و جذبہ سہیل ظفر چٹھہ کے دور میں ہے نہ رہا، یہ بھی روائتی پولیس کی طرح کرپشن، نااہلی اور لوگوں سے پیسے لے کر ان کی دشمنیاں چکانے والی پولیس بن گئی تو کیا ہوگا؟ بہرحال پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں جعلی پولیس مقابلوں کی انکوائری کے لئے ہر سال متعدد کمیشن بنتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں کی اصطلاح بھی سب سے زیادہ ہمارے ہاں استعمال ہوتی ہے۔ ان مقابلوں کو پولیس خود مشکوک بناتی ہے۔ ایک طرف کہتی ہے ملزموں نے پولیس سے مقابلہ کیا اور دوسری طرف مرنے والے ڈاکوو¿ں کے بارے میں یہ بیان جاری کرتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ کئی دہائیوں سے پولیس کا یہ بیانیہ بدلا ہے اور نہ جرائم میں کمی آئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہزاروں افراد کو پولیس ماورائے عدالت پار لگاتی ہے،،، جس کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے،،، لہٰذابہتر یہ ہوتا کہ پوری پولیس کو ہی ٹھیک کیا جاتا،،، کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کے نظام کے سارے بگاڑ کی کڑی پولیس کی خرابیوں سے ہی شروع ہوتی ہے، جبکہ ہماری ریاست نے اس اہم ترین فورس کو اس کے اصل مقصد سے دور کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا ہے، جس میں سب سے پہلے اعلیٰ افسران اور با اثر لوگوں کا تحفظ ہے۔خاص طور پر برسر اقتدار سیاسی جماعتیں پولیس کو اپنے مخالفین کو خوف زدہ کرنے اور انہیں پریشان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس سے پولیس کا آزاد اور با وقار کردار بری طرح مجروح ہوتا ہے۔ کسی بھی افسر کے لیے حکومت کے ایسے احکامات کو رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ بگاڑ پھر پھیلتا چلا جاتا ہے۔ بہرکیف پولیس کے پاس موجود بندوق کا مقصد انتہائی ضرورت کے وقت اس کا استعمال ہونا چاہیے، نا کہ رات کے اندھیرے میں ”پولیس مقابلوں“ کے ذریعے کوئی ”اسکور“ پورا کیا جائے ،کون جانے مجرم قرار دے کر قتل ہونے والا واقعی مجرم تھا بھی یا نہیں اور ایسی کیا نوبت آ گئی تھی کہ اسے عدالتی کارروائی سے گزار کر سزا دینے کے بجائے موقع پر قتل کرنا ہی ضروری تھا؟اور ویسے بھی ن لیگ کے دور میں جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں ایک تاریخ بکھری پڑی ہے۔نہیں یقین تو آپ خود تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں،،، کیوں کہ بقول شاعر آپ ہی اپنی اداو¿ں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی اور پھرہم اس فور س کے خلاف نہیں ہیں،،، لیکن اس کے حوالے سے آنے والے بیشتر مسائل سے باخبر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سزائیں دینا اس کا کام نہیں۔ اگرچہ اس کے تھانے اپنے بن گئے ہیں۔ اسے مقدمات درج کرنے کا اختیار بھی مل گیا ہے، وہ تفتیش اور پراسیکیوشن میں پولیس کی معاونت بھی کرے گی مگر چالان پیش کرنے کے بعد اس کا کنٹرول ختم اور عدلیہ کا شروع ہو جائے گا وہاں کی دنیا نرالی ہے اگر وہاں بھی سی سی ڈی کے لئے کوئی خصوصی عدالتی نظام بنا دیا جائے تو پھر صحیح معنوں میں مجرموں کے گرد شکنجہ تنگ ہو جائے گا، وگرنہ اس بات کے خدشات موجود ہیں پولیس مقابلوں کے ذریعے روائتی انصاف کا طریقہ استعمال کیا جائے۔ اور پھر یہ بات بھی درست ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ہماری پولیس کو دہشت گردی جیسی سنگین دشواریوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود بھی ریاستی سطح پر پولیس کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی، بلکہ صورت حال بگڑنے پر رینجرز اور ”ایف سی“ جیسے اداروں کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ہمارے ادارے نہیں ہیں، ہمیں ضرور ملک میں امن و امان کے لیے ضرورت پڑنے پر ان اداروں کی خدمات حاصل کرنی چاہیے لیکن یہ بندوبست عارضی ہونا چاہیے۔ اس لیے اصل سوال یہی ہے کیا سی سی ڈی جس مقصد کے لئے میدان عمل میں آیا ہے۔ اس تک ہی محدود رہے گا؟ اپنے اہداف کے مطابق کام کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی کارکردگی کا تسلسل اور جذبہ یہی رہے گا، جواب نظر آ رہا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سی سی ڈی قانون کی سربلندی کے لئے کام کرتا ہے یا پھر اس کے افسر خود کو قانون سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔جب تک پولیس کو صرف پولیس کے کاموں تک محدود نہیں کیا جائے گا۔ ان کے رویوں کی اصلاح نہیں کی جائے گی، تب تک کوئی بھی مثبت بدلاو¿ بہت مشکل ہے، بصورت دیگر پولیس بااثر افراد کی ذاتی فورس اور عوام دشمن مخلوق کے طور پر جانی جاتی رہے گی۔ ہر ناخوش گوار واقعے اور امن و امان کی سنگینی پر دیگر اعلیٰ فورسز تعینات ہوتی رہیں گی، اس سب کے لیے سب سے پہلے حکومت کو ”ول“ دکھانا ضروری ہے ورنہ ’سی ڈی سی‘ پولیس ہو یا عام پولیس۔ امن و امان کے لیے خطیر رقم یونہی بے مصرف ہوتی رہے گی۔