”قلم تو چھن گیا ہے“ .... ’لیڈر‘ سیمینار کی روداد!

اس دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جو مین اسٹریم میڈیا اور اخبارات کے ذریعے خبریں آتی ہیں، وہ آدھے سے بھی کم سچ ہوتا ہے،،، خاص طور پر بلوچستان اور کے پی کے میں تو آزاد ذرائع سے خبروں کی تصدیق کرنا بھی اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے،،، کیوں کہ وہاں موجود دوست صحافی بھی فون پر بات کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں کہ اُن کے فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں،،، اس لیے آپ اس دور کو ذرائع ابلاغ کے لیے مشرف یا ضیاءدور سے بھی بدترین دور کہہ سکتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ اُس دور میں صرف اُن قلموں کو خاموش کروایا گیا جو ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بات کرتے تھے،،، لیکن اس دور میں تو اُن کی بھی ناک سے لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں جو موجودہ حکمرانوںکی کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں،،، نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیںکہ اس وقت حکومتی خوف سے 100سے زائد صحافی یا تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں،،، یا اُن کے ادارے کے ذریعے اُن کے قلم کو مستقل طور پر خاموش کروا دیا گیا ہے،،، حالانکہ میرے خیال میں مشرف کے دور کی صحافت آج کے دور کی صحافت سے زیادہ بہتر گردانی جا رہی ہے۔ اسی اثناءمیں ہم نے صحافیوں اور سیاسی قائدین کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے جس میں آپ آزادی سے بول ،سُن اور فیصلہ سازوں کے غلط فیصلوں پر کھل کر تنقیدکر سکتے ہیں۔ لہٰذالاہور پریس کلب میں جشن آزادی کے موقع پر ”فکر پاکستان“ کے موضوع پر ایسا ہی ایک سیمینار منعقد کیا گیاجس میں لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعت اسلامی )، جناب ولید اقبال (سابق سینیٹر ) ، آصف نسوانہ (صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ) ، امتیاز عالم (سیکرٹری جنرل سیفما، دانشور ، تجزیہ کار) ،ایاز امیر( کالم نگار و تجزیہ نگار) ، پروفیسر طاہر ملک، عابد ساقی (ایڈووکیٹ ) ، محترمہ صغریٰ صدف (دانشور، کالم نگار) ، طاہر ملک (دانشور و اینکر پرس)، وقار بخاری و دیگر مہمانوں نے شرکت کی۔ اس موقع پرشرکاءنے خطاب کرتے ہوئے اپنا اپنا مدعا بیان کیا، اس موقع پر مہمان خصوصی لیاقت بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کے لیے سوچنا چاہیے،، اس کے عوام کے لیے سوچنا چاہیے،، اور سب سے بڑھ کر بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر کرنی چاہیے،،، موجودہ حکومت اپنا طرز عمل درست کرے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ورنہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ اس موقع پر سابق سینیٹر ولید اقبال نے بھی گفتگو کی اور گفتگو کا آغاز اپنی گفتگو کا آغاز قرآن پاک کی آیت سے کیا ” اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میَں نے لکھنے کے لئے امتیاز عالم سے قلم مانگا تو انہوں نے فرمایا ” قلم تو چھن گیا “ ۔ولید اقبا ل نے موضوع کے اعتبار سے مرزا اسد اللہ خان غالب ،حبیب جالب کی غزلوں کے اشعار پڑھے۔انہوں نے کہا کہ آج سے دس سال قبل میَں جب بھارت گیا ،مجھے کلکتہ میں مدعو کیا گیا ۔مجھے دہلی یونیورسٹی جانے کا بھی اتفاق ہو ا،وہاں کلا س روم میں بیٹھے ہوئے دوران چائے ہر پروفیسر نے خوبصورت اشعار پڑھے جن میں میر تقی میر،حیدر علی آتش ،نظیر اکبرآبادی کا کوئی نہ کوئی شعر پڑھا اور توصیف کی۔میزبان نے کہا کہ ہر کسی نے بہترین شعراءکے عمدہ اشعار پڑھے ہیں ۔لیکن مجھے علامہ اقبال ؒ کے اس شعر سے بڑھ کر کوئی شعر سنا دیا جائے۔” لب میں آتی ہے دعابن کر تمنا میری،زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری“یہ دعائیہ نظم ہم سب اپنے سکولوں کی اسمبلی میں بلاغہ پڑھ کر بڑھے ہوئے ہیں۔لیکن افسوس ،اقبال کی لکھی یہ عا اب سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہے ۔عمران خان حکومت میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے پاس گیا ،میَں نے ان سے عرض کیا کہ اس دعا کا اسلام آبادکے سب سکولوں میں نوٹیفیکشن جاری کروا دیں۔ یہ نظم ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم حاصل کرو گود سے گور تک،علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے،یہی ہمارا دین بھی کہتا ہے۔اس نظم میں ملک کا نام روشن کرنے کی دعا ہے۔11اگست1947کی قائد اعظمؒ کی تقریر یاد آتی ہے ۔جس میں انہوں نے فرمایا تھا” میرا رہنما اصول،انصاف اور مکمل غیر جانبداری ہے۔“ انصاف اور مکمل طورپر غیر جانبداری اور سفارش کلچر کو دفن کرکے ہی ملک صحیح سمت پر چلے گا۔لیکن تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ یہاں چیف جسٹس ہی ججوں کی تقرری کا فیصلہ کرتا ہے۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا ۔ہماری عدلیہ بھی اب سرکار کی لونڈی بن چکی ہے۔ سیمینار کے موقع پر ڈاکٹر صغری صدف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری قومی و رابطہ کی زبان ہے۔جبکہ پنجابی ،سندھی،پشتو ،پختون،سرائیکی،ہندکو ،وغیرہ یہ سب علاقائی زبانیں ہیں ۔انہیں ہم صوبائی زبانیں نہیں کہہ سکتے ہیں۔ڈاکٹر صغری صدف نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد ان زبانوں کی وہ ترقی نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر چیز کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔زبانوں کے حوالے سے ہم پر ظلم ہوا ۔ڈاکٹر صغری صدف نے کہا کہ کلچر کا تعلق مذہب سے قطعانہیں ہوتا ہے۔ہر علاقے کا اپنا مخصوص کلچر ہوتا ہے۔پنجاب کے ساتھ یہ ظلم ہوتا آیا ہے کہ اسے ایسی قوم بنا دیا گیا ہے کہ اسے پیچھے ہی دھکیلا گیا ہے۔جبکہ سندھیوں ،پختونوں نے نے اپنے کلچر پر بہت کام کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرشتے بنا کر نہیں دنیا میں بھیجا ہے۔اچھے کلچر کے ساتھ ہی ہم اچھی و بہترین قوم بن سکتے ہیں۔ سیمینار میں کالم نگار،دانشورایاز میر نے کہا کہ دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں کہ جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی چنی ہوئی قوم ہیں۔امریکہ،اسرائیل،پاکستان۔اسرائیل ،یہودی اپنی کتاب کے مطابق خود کو منتخب کیا گیا کہتے ہیں۔امریکہ طاقت کے زور پر سپر پاور بن گیا ہے۔جبکہ پاکستان.... زبردستی کی طاقت کے ذریعے! ۔ انہوں نے کہا کہ خدارا! اس ملک کو جنونی نہ بنایا جائے بلکہ نارمل ہی کہنے دیا جائے۔98فیصد آبادی اس ملک کی مسلمان ہے۔مسلمانیت میں تو کوئی شک نہیں ہے ،لیکن ہم پھر سے مسلمان بنانے کی لاحاصل کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین تو آج تک ہم سے بنا نہیں ہے۔یہ وطن بنانے کے مقاصد کیا تھے ؟آج تک ہم ان مقاصد کے ساتھ کیا کرتے آرہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ حضرت علامہ اقبال ؒ،بانی پاکستان محمد علی جناح قائداعظمؒ کے وقت میں جو آزادی کا تصور تھا،جو اس وقت کی اقدارتھیں ،وہ پاکستان واپس لے آئیں۔جنرل ضیا ءالحق کے دور میں ہم کنٹرول آبادی تھے۔آج پاکستان کی آبادی کی وجہ سے ہم دنیا کے پانچویں نمبر پرآچکے ہیں۔میرے خیال سے ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملک آصف نسوانہ نے کہا کہ رُول آف لاء،لاہور ہائی کورٹ ایسوسی ایشن کا کردار ایک ایسا نظام ہے کہ جس کے تحت تمام شہریوں کے برا بر حقوق ہوتے ہیں۔یہی وہ واحد نظام ہے جو ہمیں جنگل کے قانون سے نجات دلاتا ہے۔اسی سسٹم کو مہذب سوسائٹی کا خاصہ کہا جاتا ہے۔آج پاکستان کے پورے لیگل سسٹم میں اس کی بنیادی حیثیت ہے۔ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے انڈر پچاس ہزار سے زائد ممبرز ہیں۔پاکستان میںجتنے بھی کنسیٹیوشن ہوتے ہیں۔اس میں اس کی شمولیت ہوتی ہے۔بار کے اہم مقاصد اس کو ایکٹیو کرنا ہے ۔اگر کہیں کوئی برائی ہورہی ہے،اگر حکومت وقت کوئی ایسا قانون بناتی ہے جو کہ آئین کی رو سے غلط ہے۔قوانین کے عمل درآمد کرنے میں بار انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔26آئینی ترمیم جو کروائی گئی ہے ۔اس کے ذریعے سے آئین کی اصل رو کو ہی تبدیل کردیا گیا ہے۔اس ترمیم کے بعد سے ہم نے مختلف سیمینارز کئے ،گفتگو کے سیشن رکھے،پھر ہاوس کی اجازت اور منظوری کے بعد ہم اس طرح کی ترامیم کو چیلنج کرتے ہیں۔اس ترمیم کو ہم نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن آصف نسوانہ نے کہا کہ صحافیوں کے علم میں ہوتا ہے ججوں کی سینارٹی کو بھی ہم نے چیلنج کیا کیونکہ وہ بھی غیر آئینی اقدام تھا۔اس ضمن میںمختلف تحریکیںمختلف ادوار میں چلائی گئیں۔رول آف لائ،کنسیٹیوشن کی بحالی،آزاد عدلیہ کی بحالی،میں بار کا اہم ترین کردار رہا اور آئندہ بھی انشاءاللہ رہے گا۔ اس کے علاوہ عابد ساقی (ایڈووکیٹ )نے آزاد عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بات چیت کر تے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ادارے ہی اس وقت ہمارے لیے باعث فخر بننے کے بجائے باعث ہزیمت بن رہے ہیں،،، جس کی بڑی وجہ کوئی نہیں بلکہ موجودہ نظام اور اس کے کرتا و دھرتا ہیں۔ اس موقع پر پروفیسر طاہر ملک نے خوبصورت باتیں کیں اور تاریخی مغالطوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ہیں جنہیں آج تک صحیح انداز میں نصاف ہی نصیب نہ ہوسکا۔ جبکہ تجزیہ کار طاہر ملک نے کہا کہ میں علی احمد ڈھلوں کا شکرگزار ہوں جو ہمیں اس طرح کے سیمینارز میں کھل کر بولنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،،، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اُس عجیب مملکت کا نام ہے جس میں اگر آپ سچ بولیں گے تو دبوچ لیے جائیں گے،،، اس لیے جشن آزادی صرف نام کی جشن آزادی رہ گئی ہے،،، ورنہ آزادی والی کوئی بات نہیں رہی ملک میں! ان کے علاوہ دیگر مہمانان گرامی نے بھی پرمغز تقاریر کیں جن سے حاضرین نے یقینا استفادہ کیا ہوگا،،، اُمید ہے ہماری یہ تمام کاوشیں آپ کے لیے سود مند ہوں گی،،، اللہ تعالیٰ ہمیں مزید اس طرح کی تقریبات کرنے کی ہمت عطا فرمائے (آمین )