شاہ محمود قریشی ،،، اپنی آخرت خراب نہ کریں!

میرا اپنا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں کہ بغاوت کرنے والے بھی میری رہائی کے شوقین نکلے زمانہ قید میں رکھ کر بھی میری جستجو کے مکین نکلے کہتے ہیں کہ اسیری کے پہلے چند دن یا چند مہینے ہی مشکل ہوتے ہیں، اُس کے بعد انسان ایڈجسٹ ہو ہی جاتا ہے،،، اور اگلے کئی سال بھی پابند سلاسل رہنے سے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا،،، خان کو بھی قید ہوئے سوا دو سال کا عرصہ بیت گیا، مجال ہے کہ وہ کسی کی ”ڈیل“ میں آیا ہو، یا کسی کے کہنے پر اُس نے اپنے اصولوں پر جھول دکھائی ہو۔ جب یہ سب کچھ ایک شخص کے لیے قابل برداشت رہا ہے تو ایسے میں سیاسی ”درجہ حرارت “کو کم کرنے کے لیے ،،، اور خان کی رہائی کا ”لالی پاپ“ بانٹنے کے لیے تحریک انصاف کے پرانے رہنما، جو 9مئی کے بعد مذکورہ پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں ،،، اب میدان میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کی شاہ محمود قریشی سے کڈنی ہسپتال میں 45منٹ اور جیل میں بھی ملاقات ہوئی ہے،،، ان رہنماﺅں میں ہمارے دوست سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری ، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور محمود مولوی وغیرہ شامل ہیں۔ فواد چوہدری کے بقول اُن کا مقصد ملک میں ’بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت‘ کم کرنا ہے اور عمران خان سمیت دیگر سیاسی اسیروں کی رہائی ممکن بنانا ہے،،، بندہ پوچھے ، تحریک انصاف کے موجودہ رہنماﺅں میں سے کسی نے آپ سے کہا ہے کہ آپ بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے کوششیں کریں؟ یا آپ کے پی میں نئے وزیر اعلیٰ جنہوں نے احتجاج کے لیے 24نومبر کی کال دے رکھی ہے،،، اُسے کمزور بنانے کے لیے میدان عمل میں ہیں،،، یا بادی النظر میں لائے گئے ہیں؟ کیوں کہ کیا یہ معنی خیز نہیں ہے کہ ان افراد کو جیل یا ہسپتال میں موجود لوگوں تک رسائی کون دے رہا ہے؟لگتا ہے کہ ان افراد کہیں نہ کہیں کوئی رابطہ ہوا جس کے بعد انھیں یہ موقع ملا ہے۔ بہرحال یہ مقتدرہ کی پرانی گیمیں ہیں،،، وہ پارٹیوں میں سے ایسے ہی دھڑے بناتی ہے،،، یعنی اب تحریک انصاف میں سے ایک اور دھڑا نکالا جائے گا،،، جس کے سرخیل شاہ محمود قریشی ہوں گے،،، اور ان کے پیچھے پیچھے فواد چوہدری، عمران اسماعیل، محمود مولوی ، فیاض چوہان یا فردوس عاشق اعوان جیسے پٹے ہوئے رہنماﺅں کو لگا دیا جائے گا،،، اور ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ تحریک انصاف (ق) کے نام سے نئی جماعت بنا لیں،،، (میری ”ق “سے مراد قریشی ہے) ۔ یہ فارمولا بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے 1977ءکے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنایا گیا تھا،،،ہم نے 1977ءکے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،،، یہ ہم نے کسی کتاب میں نہیں پڑھے،،، بلکہ اُس وقت میں گیارھویں جماعت کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ اور اتنی سمجھ بوجھ رکھتا تھا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ہم نے مال روڈ پر ہونے والا ظلم و ستم ، موچی گیٹ پر پڑنے والے کوڑے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،،، اُس وقت آپ نے پیپلزپارٹی میں سے بڑے بڑے برج نکال لیے تھے،،، مثلاََ اُس وقت غلام مصطفیٰ جتوئی جو بھٹو کے قریبی ساتھی تھے نے پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ دیا جنہوں نے بعد میں نیشنل پیپلز پارٹی (NPP) بنائی۔پھر حفیظ پیرزادہ جو بھٹو کابینہ کے اہم رکن تھے بھی چھوڑ کر چلے گئے،،، میاں افضل حیات، فیصل صالح حیات اور میاں منظور وٹو بھی چھوڑ کر چلے گئے جنہوں نے بعد میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) اور پیٹریاٹ گروپ بنائے،،،، اس کے علاوہ ملک غلام مصطفیٰ کھر جو کبھی بھٹو کے قریبی ساتھی تھے، وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے،،، راجہ ظفرالحق، مقبول وٹو، اعتزاز احسن، رانا پھول، حنیف رامے اور دیگر کئی درمیانے درجے کے رہنما بھی پارٹی سے الگ ہوئے۔اس سب کچھ کے بعد 1988کے الیکشن میں بے نظیر یعنی پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی،، پیپلزپارٹی نے کھمبے کھڑے کیے اور ایک بار پھر جیت گئی۔ تو اس جماعت کو کیا فرق پڑا؟ یہی فارمولا پھر 1999ءکے مارشل لاءمیں مشرف نے اپلائی کیا ، جب ق لیگ بنائی گئی اور چوہدری برادران ، ظفراللہ خان جمالی، شیخ رشید احمد، خورشید محمود قصوری، اعجاز الحق ، لیاقت جتوئی، سردار یار محمد رند، اعجاز الحق ، میاں اظہر سمیت متعدد رہنما نکل گئے بلکہ پنجاب میں سے صرف سعد رفیق اور ضعیم قادری ہی رہ گئے تھے۔ پھر بتایا جائے کہ ن لیگ کو کیا فرق پڑا؟اور چلیں یہ سب کچھ چھوڑ دیں،،، آپ نے تحریک انصاف کے لوگوں کی وفاداریاں بدل کر ،،، آپ نے 8فروری 2024ءکا الیکشن لڑوایا تھا، ،، اُن کا کیا حال ہوا تھا؟ سب لوگ ہی ہار گئے تھے۔ میرے خیال میں فیصلہ کرنے والے یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ تحریک انصاف میں ووٹ صرف عمران خان کا ہے، ن لیگ میں ووٹ صرف نواز شریف کاہے اور پیپلزپارٹی میں ووٹ صرف بے نظیر کا ہے،،، باقی سب بے کار کی کوششیں ہیں۔ اگر ووٹ کسی اور کا ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو کے دیگر بچوں میں سے مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ غنوی بھٹو نے بھی پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کے نام سے پارٹی بنائی تھی، کیا فرق پڑا؟ کچھ بھی نہیں۔ فاروق لغاری، ملک معراج خالد جیسے لوگ پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے، کیا فرق پڑا؟ یہ گھسی پٹی باتیں ہیں، عوام کو ساری سمجھ ہے، اس لیے کچھ نہیں ہوسکتا،،، لہٰذا فیصلہ کرنے والوں کو اس وقت نیا سوچنے والوں کی ضرورت ہے،،، یہ وہی ہیں، جو 50سال سے وہی حرکتیں کررہے ہیں، ایک ہی اسکرپٹ بار بار دہرا رہے ہیں،،،مطلب آپ کے وہی ہتھکنڈے ہیں جو 1977ءسے 1988ءتک تھے،،، اس لیے دراصل فیصلہ کرنے والوں کو اس وقت ضرورت ہے، کہ وہ نئے بندے تلاش کریں، جو دو چار مہینوں کا نہیں بلکہ اگلی کئی دہائیوں کا سوچیں۔ اور پھر یہ بات میں ہوا میں ہی نہیں کہہ رہا،، بلکہ تحقیق کروا کے دیکھ لیں،،، آپ کو سب پتہ لگ جائے گا،،، بلکہ یہ بھی دیکھ لیں کہ اگر 1977سے 1988ءتک صرف چار اخبارات کی موجودگی میں عوام کی رائے نہیں بدلی جا سکی، یا عوام کی رائے کو اپنے حق میں نہیں کیا جاسکا تو اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کے دور میں کیسے ممکن ہے کہ عوام کی رائے یا سوچ بدل لیں؟ اس لیے میں ابھی بھی کہتا ہوں کہ ہم پی ٹی آئی کے حامی نہیں ہیں لیکن آپ حقیقت سے نظریں کیسے چرا سکتے ہیں؟ آپ ابھی بھی خان کو رہا کر کے دیکھ لیں کہ اڈیالہ جیل سے بنی گالہ تک عوام کا حال دیکھ لیجئے گا۔ لہٰذاآپ طاقت کے ذریعے کسی چیز کو نہیں دبا سکتے، ،،، آپ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں،، ، کیوں کہ لگتا ہے کہ آپ کے ماتحت آپ کو مرضی کی خبریں دیتے ہیں،،، جو چاہتے ہیں وہ آپ کو دیتے ہیں،،، یا لگتا ہے کہ یہ آپ کو بے خبر رکھے ہوئے ہیں۔ اوررہی بات شاہ محمود قریشی کی تو ان کی تاریخ کیا ہے؟ آپ ان کے بڑوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں،،،شاہ محمود قریشی کے والد محترم ضیاءالحق کے قریبی ساتھی تھے،،، وہ 1985سے 1988ءتک پنجاب کے گورنر رہے۔ بلکہ شاہ محمود قریشی کو دیکھ لیں کہ انہوں نے خود کتنی پارٹیاں بدلی ہیں،،، پہلے یہ مسلم لیگ (ضیاء) میں تھے،،، پھر پی پی پی میں آگئے،،، اور پھر 2011ءمیں تحریک انصاف میں آگئے،،، یہاں سے بھی جانے کا شوق اگر پورا کرنا ہے تو ست بسمہ اللہ ....لیکن میرا ایک صائب مشورہ یہی ہے کہ آپ سیاست میں کافی میچور ہو چکے ہیں،،، 2ڈھائی سال آپ قید بھی کاٹ چکے ہیں، مشکل وقت آپ نے جیل میں گزار لیا ہے، آج نہیں تو کل آپ نے باہر آہی جانا ہے،،، اور پھر آپ کے قید کاٹنے کی وجہ سے اس وقت عوام میں آپ کی خاصی عزت ہے، تو خدا کا خوف کریں اور ایسی حرکات کرنے سے باز رہیں کہ جس سے آپ کی ساکھ خراب ہو،،، کیوں کہ اگر انہوں نے کوئی نئی پارٹی بنائی تو یہ بھی منظر عام سے بالکل غائب ہو جائیں گے،،، بالکل اُسی طرح جس طرح آج چوہدری برادران غائب ہیں،،، فیصل صالح حیات غائب ہیں یا تحریک انصاف کے فارورڈ گروپ غائب ہیں۔ بہرکیف شاہ محمود قریشی صاحب! آپ اپنی آخرت خراب نہ کریں،،، کیوں کہ جس نے عمران خان کو چھوڑا یا کسی نے بھی اپنی پارٹی کو مشکل میں چھوڑا وہ پھر نظر نہیں آیا۔ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ کی رگوں میں انقلاب کا خون تھوڑا بہت بہہ رہا تھا،،، لیکن ہم غلط تھے،،،اور اب اتنی قربانیوں کے بعد اگر شاہ محمود قریشی بھی ان بگوڑوں کی لائن میں کھڑے ہوگئے تو یہ موصوف اپنی سیٹ بھی ہار جائیں گے۔ نہیں یقین توان کے ساتھ ان کو ”ورغلانے “ والے فواد چوہدری کو دیکھ لیں،،، یہ جب بھی جیتے تحریک انصاف کی سیٹ پر ہی جیتے، فیاض چوہان کی حیثیت تحریک انصاف کے بغیر عوام نے دیکھ ہی لی، فردوس عاشق اعوان کا حال بھی سب نے دیکھ لیا، اس لیے قربانی کے کچھ لمحات مزید گزار لیں تو یقینا میرے خیال میں اُن کی آنے والی کئی نسلیں سنور جائیں گی،،، ورنہ لوگ بقول شاعر یہی کہیں گے کہ چہرہ بدلا، کردار وہی ہے ہم پہ قابض غدار وہی ہے کفر کے ہاتھ بکا ہے جو بھی قبیلے کا اپنے سردار وہی ہے