نوٹیفکیشن ہوگیا،،، اب آپ ”دیالو“ بن جائیں!

چھ دن شدید انتظار کے بعد آخر کار فیلڈ مارشل عاصم منیر 5سال کیلئے آرمی چیف اور ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز تعینات ہوگئے ، صدرمملکت نے ایئرچیف مارشل ظہیر احمد سدھو کی مدت ملازمت میں 2 سال کی توسیع کی بھی منظوری دی،فیلڈ مارشل عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ساتھ چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے ، یہ تعیناتی پانچ سال کے لیے ہے اور وہ 2030تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔جیسے ہی 4دسمبر کو یہ نوٹیفکیشن ہوا، اگلے ہی دن ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کے لیے آجاتے ہیں اور آتے ہی ملک سے سب سے بڑے ”خطرے“ کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہو کون؟ کیا پیغام دینا چاہتے ہو؟ تم سمجھتے کیا ہواپنے آپ کو؟ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ذات کا قیدی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں، اسکی سیاست ختم ہوچکی اب اس کا بیانیہ پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے.... آپ اپنی سیاست کو فوج سے الگ رکھیں....یہ کون سا آئین و قانون ہے جس کے تحت آپ ایک مجرم سے ملتے ہیں اور وہ فوج اور اس کی لیڈرشپ کے خلاف بیانیہ بناتا ہے.... پہلے بیانیہ بناتا ہے کہ ترسیلات زر بند کردیں تاکہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے.... ایک ترتیب تواتر کے ساتھ ٹویٹ کے بعد اکاﺅنٹس آتے ہیں۔ اصل بیانیہ اس ذہنی مریض نے ٹویٹ کرکے دیا....بھارتی میڈیا بھی پھر ان ٹوئٹس اور بیانیے کو چلاتا ہے، نہ صرف سوشل میڈیا اکاﺅنٹس بلکہ بھارتی میڈیا بھی ان کو چلاتا ہے.... عظمیٰ خان بھارتی میڈیا پر بیٹھ کر پی ٹی آئی کو حملہ کرنے کا کہہ رہی ہیں.... کتنی خوشی کے ساتھ انڈین میڈیا آپ کے آرمی چیف کے بارے میں خبریں بیان کر رہا ہے، انڈین میڈیا کو کون یہ خبریں دے رہا ہے؟.... وہ کہتا ہے کہ میری پارٹی کا جو بندہ این ڈی یو میں گیا وہ غدار ہے، اس کی منطق پر جائیں تو وہ کہہ رہا ہے کہ جو آئی ایس پی آر جائے گا وہ غدار ہے، یہ سمجھتا ہے پاک فوج میں جو بندہ ہے وہ غدار ہے....ان کی پارٹی سے پوچھیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتہ بیانیہ کہاں سے چلتا ہے، اس کے پیچھے پوری ایک سائنس ہے....ایک شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کی ذات سے آگے کچھ نہیں.... پاکستان بھی کچھ نہیں.... وہ شخص اب نیشنل سیکیورٹی تھریٹ بن چکا ہے....کتا بھونک رہا ہوتا ہے،،، تو اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں....بھیجو اپنی اولاد کو فوج میں ،،، اُنہیں تم نے باہر رکھا ہوا ہے....وغیرہ وغیرہ مطلب! یہ پریس کانفرنس شاید اس لیے تھی کہ اب پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا مکو ٹھپنے کی پکی تیاری کر لی گئی ہے،،، یہ شاید ایم کیو ایم طرز پر کی جائے گی یا کالعدم تحریک لبیک کی طرز پر ،،، مگر تحریک انصاف نہ تو ایم کیو ایم ہے اور نہ ہی تحریک لبیک ہے،،، یہ ملک کے 80فیصد عوام کی نمائندہ جماعت ہے،،، جس کی ایک صوبے میں مکمل حکومت اور بقیہ تین صوبوں میں بھرپور نمائندگی ہے۔ اورسوال یہ بھی ہے کہ یہ پریس کانفرنس نوٹیفکیشن کے فوری بعد ہی کیوں کی گئی ہے؟ اُس سے پہلے یا چند روز بعد بھی تو کی جا سکتی تھی،،، اس کا صاف مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ اس کا فیصلہ اوپر کی سطح پر ہوا ہوگا! لیکن خیر جہاں بھی ہوا ہو ہمیں اس سے مطلب نہیں،،، ہمیں صرف اس سے مطلب ہے کہ پاکستان کے بارے میں سوچیں،،، سیاسی ادارے اور سیاستدانوں کو مکمل مفلوج کرنے سے گریز کریں،،، سیاست دان ہیں تو ملک ہے،،، بیرونی سرمایہ کاری سیاسی حکومتوں اور جمہوریت ہی کی وجہ سے آتی ہے،،، اس لیے میرے خیال میں فیلڈ مارشل عاصم منیر یہ جنگ جیت چکے ہیں تو وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں،،، اور ”دیالو“ بن جائیں ،،، کیوں کہ پرانے وقتوں میں دیالو وہ بادشاہ ہوا کرتا تھا کہ جب وہ تخت نشین ہوتا تھا، تو پھر وہ سخاوت کرتا تھا، قیدیوں کو رہا کرتا تھا، گناہ گاروں کو معاف کرتا تھا، اس لیے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کریں اور سیاسی قیدیوں کو معاف کردیں۔ اور پھر آپ کی قابلیت کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے،،، آپ سعودی عرب میں فوجی اتاشی بھی تعینات رہے اور یہیں آپ نے قرآنِ کریم بھی حفظ کیا ،آپ ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس بھی رہے اور آپ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے،،، آپ کور کمانڈر گوجرانوالہ بھی تعینات رہے،،، آپ کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر بھی رہے،،، اور پھر تین سال آرمی چیف کے عہدے پر بھی بھرپور انداز میں رہے۔۔۔ اس لیے میرے خیال میں اپنی قابلیت کو اچھے کاموں میں استعمال کریں۔ بے شمار لوگ جیل میں ہیں، انہوں نے اتنے بڑے جرم بھی نہیں کیے ہوئے،،، اُن سے گناہ صرف یہ ہوا ہے کہ اُنہوں نے پریس کانفرنس نہیں کی۔ اس لیے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایک نئے مسئلے میں اپنے آپ کو دھکیلنے کے بجائے دانشمندانہ فیصلے کریں کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب آپ کسی نئے مسئلے میں اُلجھتے ہیںتو ساتھ کئی اور مسائل بھی جنم لینا شروع کردیتے ہیں جو آپ کی کارکردگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ لہٰذاریاست ماں کا کردار ادا کرے،،، اور سب کو ساتھ لے کر چلے ایسا کرنے سے یقینا ملک میں مفاہمتی فضاءقائم ہوگی۔ اور پھر ایسا کب نہیں ہوا کہ صدق دل سے اقدامات کیے ہوں ۔ اور اُس کے بہتر نتائج نہ ملے ہوں؟ آپ تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیںآپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بڑا دل رکھ کر اقدامات کیے جائیں تو اُس کے مثبت نتائج ہی ملتے ہیں۔ مثلاََ فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ جب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور مفتوحین کے ساتھ کس قدر محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا کہ جب مہاجرین مکہ دس ہزار لشکر جرار لے کر لشکر کفر و شرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے اور خوب بدلہ لیں گے، آج ہم سمیعہؓ کی آہوں اور صہیبؓ کی سسکیوں کا بدلہ لیں گے۔ آج ہم حضرت بلال حبشیؓ کی چیخوں کا بھی بدلہ لیں گے۔ آج کوئی نہیں بچے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ مگر ہمارے کریم آقا ﷺ نے سب پر نگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”بولو! تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے، آج میں (محمد ﷺ) تم لوگوں سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟“یہ سوال سن کر سب قیدی کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا، کیوں کہ ماضی قریب میں آپ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم و ستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔ سب کے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سر جھکا کر یک زبان ہو کر بولے: یارسول اللہ ﷺ! آپ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ جواب سُن کر رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے دل نشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ”آج میں وہ کہتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ اسلام نے کہا تھا کہ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔“آپ نے عفو عام کا اعلان فرما دیا، معافی کا اعلان سنتے ہی جنگی قیدیوں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشک بار ہو گئیں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا۔ ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیے۔انہی صحابہ ؓ کرام نے اگلی فتوحات کو انجام دیاتھا۔ پھر صلاح الدین ایوبی جو اپنی آرمی کا سربراہ بھی تھا،،، نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد بڑا دل رکھا اور عام معافی کا اعلان کیا تھا، جس کے دورس نتائج دیکھے گئے۔ الغرض نیلسن مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔یہی بات امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن بھی کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دشمن کو دوست بناکر دشمنی ختم کرنے کا قائل ہوں، عظیم امریکی لیڈر ابراہام لنکن نے سیاہ فام غلامی کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ میں ہر فورم پر اپنا یہ موقف پیش کرتا ہوں کہ کامیابیوں کے حصول کیلئے ہرمذہب کی اعلیٰ تعلیمات اور تاریخ کے عظیم انسانوں کی زندگیاںہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا، کہ 9 مئی کا واقعہ قابل مذمت ہے مگر 8 فروری کے مینڈیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عوام الناس نے اس فروگزاشت کو قابل اعتناءنہیں سمجھا اور عمران خان کو قطار اندر قطار ووٹ ڈالے ہیں، اگر کسی غلطی پر عوامی گواہی میسر نہ آئے تو وہ غلطی بھی ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ ایک دوست صحافی کہتے ہیں کہ یاد کریں کہ 1977ءمیں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں خونیں جنگ جاری تھی، قومی اتحاد کی قیادت جیلوں میں بند تھی مگر پھر ان کو سہالہ ریسٹ ہاﺅس منتقل کرکے مذاکرات شروع کئے گئے۔ اب بھی ملکی استحکام، سیاسی ساکھ اور معاشی مستقبل کیلئے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔ عمران خان خوشحال اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایچی سن کالج اور آکسفورڈ میں پڑھے، کرکٹ میں آئے تو سلیبریٹی بن گئے۔ مقتدرہ کا غصہ بھی اب ٹھنڈا ہوجانا چاہیے اور عمران کے ساتھ ہونے والا سوتیلا سلوک اب ختم ہونا چاہیے۔انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اُنہیں ریلیف دینا چاہیے،،، اس سے دوستانہ ماحول پیدا ہوگا،،، اور آپ بھی ملک کو اونچی اُڑان کی طرف لے جائیں گے،،، جس کا آپ نے گزشتہ روز وعدہ کیا تھا۔ چلیں! اُن کی پارٹی کو جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ دیں،،، لیکن جو ایک قیدی کے بنیادی حقوق ہیں کم از کم وہ تو مان لیں،،، فرض کریں میری یہ تجویز مان لی جائے تو یکایک ملک میں کشیدگی کا ماحول بدل جائے گا اور ریاست اپنی بھرپور توجہ معیشت کی بہتری کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مقتدرہ اور عمران خان میں ذاتی اختلافات تو ہیں پالیسی اختلاف کوئی بھی نہیں، اسلئے اس رابطے میں دونوں طرف سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح باقی سیاسی اسیران جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کو اہل لاہور دہائیوں سے جانتے ہیں یہ شرپسند نہیں، ہاں پارٹی کے وفادار ہوسکتے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند ہوئے مہینوں ہوچکے اب ان کو ریلیف ملنا چاہیے وہ سیاست میں واپس آئیں گے تو اس سے اعتدال آئے گا، اور رہی بات ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی تو آج انہوں نے جس نوٹیفکیشن پر دستخط کیے ہیں،،، وہ یقینا اُن کے لیے بھی مسئلہ بن سکتا ہے،،، اس لیے وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو بھی ساتھ رکھیں ورنہ اکیلے رہ جائیں گے،،، بقول شاعر موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے