پاکستان کےلئے اگلے7دن انتہائی حساس !

لگتا ہے سیاسی اُفق پر تحریک انصاف کے قائدین کو لے کر کوئی بڑی گیم کھیلی جا رہی ہے، حالات جان بوجھ کر خراب کیے جارہے ہیں، عوام کی برداشت کی حد دیکھی جا رہی ہے، جماعت کے لیے کوئی بڑا ”سرپرائز“ بھی آسکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بانی تحریک انصاف کے حوالے سے کوئی بڑی خبر آجائے،،، کیوں کہ اطلاعات آرہی ہیں بانی تحریک انصاف کو اڈیالہ جیل سے باہر پنڈی کینٹ کے نو تعمیر شدہ پریزن سیل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔حالانکہ حکام ”حکم نامے“ کے مطابق اس کی تردید بھی کر چکے ہیں،،، لیکن تردید بھی تو اُسی خبر کی آتی ہے، جو خبر وجود رکھتی ہے،،، اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایک ماہ ہوگیا لیکن خان صاحب کی کسی پارٹی قائد سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی،،، حالانکہ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ درجن مرتبہ اڈیالہ آچکا ہے،،، مگر اُس کو کسی طور پر بھی اہمیت نہیں دی جارہی،،،کیا ہمارے 4کروڑ کے ایک صوبے کے نمائندے کی یہ حیثیت رہ گئی ہے؟ نہ جانے ہم خود سے صوبائی تعصب کی بیماری کیوں پھیلاتے اور بعد میں سر پکڑ کر روتے ہیں،،، وزیر اعلیٰ کو چھوڑیں کیا ایک عام منتخب نمائندے کا یہ استحقاق نہیں ہے کہ وہ جیل کا دورہ کرکے قیدیوں کی حالت دیکھ سکے؟ کیا حکام بالا کی ان حرکتوں کے بعد سازشی تھیوریوں کی بھرمار نہیں ہوگئی؟ کہ کوئی یہ کہہ رہا کہ خدانخواستہ اُنہیں مار دیا گیا ہے، یا وہ شدید بیمار ہیں،،، یا اُنہیں جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے،،، یا اُن پر ٹارچر کیا جا رہا ہے،،، اور پھر اچانک عمران خان کی بہنوں اور بھانجے پر مشتمل ان کے فیملی ممبران، بلکہ ساتھ ساتھ ان کے وکلا،جن کے پاس عمران خان سے ملاقات کے لیے عدالتی اجازت نامے تھے، ان کی قیدی نمبر 804 سے ملاقات کروانے سے بار بار منع کیا جا رہا ہے،،، اب چوتھا ہفتہ ہو چلا ہے کہ تمام پریزن رولز بالائے طاق رکھ کر، جیل مینوئل کو پاﺅں تلے روند کر دستورِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 14کی عدم عدولی اور توہین کرکے عمران خان کے ملاقاتیوں سے غیرملکی تارکینِ وطن جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔اور پھر پچھلے منگل کے دن عمران خان کی بہنوں کو جس طرح برسرِ بازارِ اڈیالہ گھسیٹا گیا‘ ہراساں کیا گیا، زد و کوب کیا گیا، اس سے یہ شک اور زور پکڑ چکا ہے کہ عمران خان سے ملاقاتیں روکنا صرف بہانہ ہے، جبکہ اصل واردات عمران خان کی اڈیالہ سے کسی نامعلوم جیل یا سیل میں ٹرانسفر کو چھپانا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ اس حوالے سے دو دن پہلے گزرے بدھ کو اور پھر جمعرات کو وکالت نامہ لکھنے کے وقت تک مقامی اور بین الاقوامی پریس اور میڈیا عمران خان کی ذات اور صحت کے حوالے سے خوفناک خبروں اور بے رحمانہ تجزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ کیا اس دھاندلی زدّہ نظام میں کوئی ایک رجلِ رشید بھی ایسا نہیں جو طاقتوروں کو ہر مسئلے کا حل طاقت سے نکالنے والی سوچ پر ٹوک سکے یا روک سکے؟چلیں !حکام کی یہ بات مان لی جائے کہ خان کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، تو کیا ایسا اڈیالہ جیل کے ساڑھے 8ہزار قیدیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے؟ حالانکہ ان قیدیوں میں قاتل، ڈاکو، جاسوس، غیرملکی جاسوس، دور دیس کے گھس بیٹھیے، ڈرگ ڈیلرز اور انتہائی سنگین اخلاقی فوجداری جرائم کے ملزمان انڈر ٹرائل اور قیدی ہیں۔کیا ان میں سے کوئی ایک قیدی بھی ایسا ہے جس کو ہفتے میں دو بار ملاقاتیوں سے ملنے کا موقع نہ دیا جارہا۔ اگر دو نہ ہو سکیں تو فیملی یا دوستوں سے ایک ہفتہ وار ملاقات تو لازماً کروائی جاتی ہے۔ دستورِ پاکستان کا آرٹیکل 10 یہ ضمانت دیتا ہے کہ کوئی ملزم اپنی مرضی کا وکیل کسی بھی وقت مقرر کر سکتا ہے اور وکیل تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وکلا کو علیحدہ سے کسی بھی حوالاتی یا قیدی موکل کے ساتھ ہر وقت ملاقات کی دستوری اور قانونی، دونوں طرح کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان کو جیل خانے کے تمام قوانین پامال کرتے ہوئے ملاقات کی بنیادی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس طرح کے فاشسٹ سلوک کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا، جو آج عوام اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ جب قیدی نمبر 804 سے کسی کو ملنے ہی نہیں دیا جائے گا تو ایسے میں عمران خان کی صحت اور سلامتی کے حوالے سے شبہات اور سوالات کاجنم لینا عین قدرتی امر ہے۔ بہرحال پھر وہی بات کی بات کہ یہ کیوں ملاقات کرنے نہیں دے رہے؟ ملاقات کرنے سے کیا ہو جائے گا؟ کیا وفاق زیادتی نہیں کر رہا؟لیکن آخر کب تک ایسا چلے گا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب فرنٹیئر سے باقاعدہ بغاوت شروع ہوگی؟گزشتہ رات بھی وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے اسٹاف اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہوتی رہ گئیں،،، اگر دو صوبوں کی پولیس آپس میں لڑ پڑی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کچھ قتل و غارت ہوگی، ،،اور پھر ایک نیا 26نومبریا 9مئی کروایا جائے گا،،، پھر ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ پر مختلف مقدمات درج ہوں گے،،، اور مقتدرہ کو بہانہ مل جائے گا کہ ایک نئے نکور وزیر اعلیٰ کہ جس پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ نہیں ہے، اُسے بات نہ ماننے کے ”جرم“ میں اندر کر دیا جائے گا۔ لیکن مقتدرہ یہ بات ضرور جان لے کہ اگر عمران خان کے حواریوں کے یہ خدشات درست ہیں کہ خان کے ساتھ کچھ برا کیا جا رہا ہے تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے 80فیصد عوام کا نمائندہ ہے،،، اور اگر یہی عوام باہر نکل آئے تو بڑے چھوٹے گھر سب عوام کی لپیٹ میں آجائیں گے،،، عوام بپھر جائے گی،،، اور پھر ہو سکتا ہے کہ یہاں بنگلہ دیش، نیپال یا سری لنکا جیسے حالات بن جائیں جب سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اگلے 7دن انتہائی، اہم، خطرناک اور نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں،،،اللہ نہ کرے ایسا ہو،،، مگر اس وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ، بڑے اداروں میں بغاوت بھی ہوسکتی ہے، عدلیہ میں بغاوت پہلے ہی ہو چکی ہے، مقننہ پہلے ہی متنفر ہو چکی ہے، پولیس پہلے ہی پریشان حال ہے۔ اور پھر مقتدرہ میں گروپ بندیاں ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں،،، کہ کیسے ممکن ہے کہ اگلے ایک عرصے کے لیے ایک شخصیت اس قدر پاور فل ہو جائے ،،، جس سے باقیوں کا حق مارا جائے۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگلا ایک ہفتہ انتہائی حساس ہے۔ کیوں کہ ملکی نظام کے مستقبل پر بھی اس وقت بے یقینی کا راج ہے۔اور آنے والے دنوں میں خاطر جمع رکھیں،،، عمران خان کا ملٹری ٹرائل تذبذب کا شکار رہنا ہے، ارادے باندھنے سوچنے اور توڑنے میں خرچ ہونگے۔ جس نے موجودہ سیٹ اَپ کو ساتھ متزلزل رکھنا ہے۔ میرے پاس میرے ذرائع یا خصوصی ذرائع تو نہیں ہیں۔ البتہ تعین کرنا راکٹ سائنس نہیں کہ سیاسی نابلد اپنے اصل ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں گے۔ ویسے سیاسی حقیقتوں کے تناظر میں حالات کا جبر اپنا راستہ اختیار کرتا ہے اور میں اسی راستے کا تعین اپنی محدود عقل و دانش کےمطابق کرتا ہوں۔ بہرکیف میری اداروں سے ایک بار پھر دست بستہ گزارش ہے کہ آپ یہ جو خود ہی بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں،،، اداروں کو لڑا رہے ہیں،،، ایسا کرنے سے گریز کریں،،، ایسا کرنے سے فائدہ کئی اور لوگ اُٹھا جائیں گے،،، اور عوام کے ہاتھ پھر کچھ نہیں آئے گا،،، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے بھٹو کی پھانسی کے بعد عوام کو کچھ نہیں ملا تھا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے کئی راستے آسان ہو گئے تھے،،، اُن کے لیے اقتدار کی راہیں کھل گئی تھیں،،، اور پاکستان وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا تھا،،، اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور اس ملک کے عوام کے بارے میں سوچیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میری ناقص رائے کےمطابق اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اس وقت دو ممکنہ راستے موجود ہیں۔ (1 ) یا تو عمران خان کی سزا موخر کر دی جائے گی اور موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سال بعد یعنی 2026ءمیں RTS اور فارم 47 پلس عام انتخابات کروائے جائیں ، یعنی کہ پی ٹی آئی کے بغیر اگلی حکومت قائم ہو گی۔ ( 2) یا پھر عمران خان کو پہلے انجام کو پہنچائیں گے، بصورت دیگراگلے عام انتخابات کو 5/7سال یا غیرمعینہ مدت تک جبری رخصت پر بھیج دیا جائیگا۔ جو راستہ بھی چنا گیا ، وطن کی فکر ثانوی رہنی ہے۔ بات حتمی !بے یقینی مملکت خداداد کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے، نہ ا±گلتے بنے گی نہ نگلتے۔ اور رہی بات وزیر اعلیٰ کے پی کے کی تو اُنہیں ایک بات کا تدارک تو ہونا چاہیے ،،، بلکہ وہ پاکستانی سیاست کا یہ اصول لکھ لیں کہ کوئی احتجاج مخصوص محکموں کی شراکت داری یا اشاروں کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔اس لیے وہ جتنا مرضی زور لگا لیں، فی الوقت اُن کا کوئی احتجاج کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا،،، جب تک اگلوں کی مرضی نہیں ہوگی۔ نہیں یقین تو تاریخ اُٹھا کر خود دیکھ لیں کہ ایوب خان کے خلاف 1968ءکے آخر میں احتجاج کی لہر اٹھی تو تب کے کمانڈر اِنچیف جنرل یحییٰ خان نے اُن سے فاصلہ اختیار کر لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر رفیع رضا کی کتاب میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ یحییٰ خان اور بھٹو کا خفیہ گٹھ جوڑ ہو چکا تھا کہ ایوب خان سے جان چھڑائی جائے۔ پھر بھٹو کے خلاف مارچ 1977ءمیں تحریک شروع ہوئی تو جوں جوں احتجاج نے زور پکڑا جنرل ضیا الحق اور اُن کے قریبی ساتھی اُن سے دوری اختیار کرنے لگے۔ حتیٰ کہ بالا?خر ا±ن کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا سراپا احتجاج ہوئے تو ابھرتے ہوئے احتجاج کو روکنے میں مخصوص محکموں نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ اس بات کا ذکر کئی حوالوں سے ہو چکا ہے کہ جنرل مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو مستعفی ہونے کے لیے بلایا تو اُس میٹنگ کے اختتام پر جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جو اہم محکمے کے سربراہ تھے‘ نے چیف جسٹس چودھری سے ہاتھ یوں ملایا جیسے تقویت کا اشارہ دے رہے ہوں۔ الغرض ادارے اپنا رُخ اُسی وقت بدلیں گے،،، جب آپ اُن کی ضرورت بن جائیں گے،،، اس لیے یہ آپ کو خود سوچنا ہوگا کہ آپ اُن کی ضرورت کیسے بنتے ہیں؟