”آئی ایم سوری“ فیلڈ مارشل !

آج کل بانی تحریک انصاف کے معافی مانگنے کے حوالے سے خاصی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، یہ اُس وقت شروع ہوئیں جب ایک صحافی دوست نے فیلڈ مارشل سے خان کی رہائی کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا اگر وہ معافی مانگ لیں تو اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ اب یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ خان معافی مانگے گا یا نہیں،لیکن کم و بیش سبھی اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ وہ معافی نہیں مانگے گا،،، کیوں کہ وہ ایک ”پاپولسٹ “ لیڈر ہے، ،، آگے چلنے سے پہلے ہم ”پاپولسٹ“ لیڈر کی اگر بات کریں تو اس میں جہاں سینکڑوں خوبیاں ہوتی ہیں،،، وہاں کئی خامیاں بھی ہوتی ہیں،،، کہ وہ عوام کو ایسے بانس پر چڑھا دیتا ہے کہ جہاں سے اُس کی رعایا اپنے لیڈر سے ایسی توقعات لگا لیتی کہ اُس میں 19، 20کی گنجائش بھی برداشت نہیں کرتی ،،، اسی لیے تاریخ گواہ ہے کہ پاپولسٹ لیڈر اسی شیخی میں ہمیشہ ایسی غلطیاں بھی کرتا رہا ہے کہ کئی کئی پرامن ملک جنگوں کی آگ میں جھونک دیے گئے،،، جیسے حالیہ تاریخ میں اس کی مثال یوکرین کے صدر زلینسکی کی ہے،،، جس نے روس جیسی بڑی سپر پاور سے ٹکر لی اور آج اپنے ملک کا بڑا حصہ روسی قبضے میں دے بیٹھا، اور یورپی رہنما و یوکرینی صدر اس وقت امریکی صدر کے پاس 90ارب ڈالر کی سکیورٹی لینے بیٹھے ہیں،،، جبکہ دوسری بڑی مثال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے جس نے عوام میں اپنی وحشت برقرار رکھنے کے لیے پاکستان سے فضول کی جنگ چھیڑ لی ،،، 7مئی تک بھارت کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا تھا،،، لیکن 7مئی کے بعد پاکستان کی بلے بلے اور بھارت پر دنیا ہنس رہی ہے،،، پھر آپ بھٹو کو دیکھ لیں ،،،وہ بھی پاپولسٹ لیڈر تھا اُنہیں بھی بہت مرتبہ کہا گیا کہ وہ معافی مانگیں، سرنڈر کر لیں،،، مگر وہ کسی صورت نہ مانے۔ بلکہ ایک انٹرویو میں بھٹو کے قریبی ساتھی سابق وزیراعلیٰ سندھ جناب غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم نے انکشاف کیا کہ ذاتی طور پر انہوں نے جنرل ضیاءالحق سے ملاقات کا فیصلہ کیا اور بیگم نصرت بھٹو کو اعتماد میں لیا تاہم بیگم صاحبہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ وہ (بھٹو) نہیں مانے گا۔ جتوئی مزید کہتے ہیں کہ ”میں نے ضیاءسے ملاقات میں تقریباً جھولی پھیلا کر معافی کی درخواست کی اور یقین دلایا کہ پورا خاندان جب تک وہ برسراقتدار ہیں پاکستان چھوڑ جائیگا۔ ضیاءنے درخواست پر ہمدردانہ غور کی یقین دہائی بھی کرائی، مگربھٹو نہ مانے۔پھر محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی اس حوالے سے پوچھا جاتا تھا تو وہ بھی یہی کہتی تھیں کہ وہ جب بھی بھٹو صاحب کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ اُن کو پھانسی نہیں ہوگی دنیا بھر سے اپیلیں آ رہی ہیں تو وہ مسکرا دیتے اور مجھے حوصلہ دیتے کہ ایک وقت آتا ہے جب آپ کے پاس چوائس ہوتی ہے اور میں نے تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔“۔۔۔ پھر آپ عمران خان کو دیکھ لیں،،، وہ بھی پاپولسٹ لیڈر ہے،،، وہ اپنے ”میرٹ“ سے اگر نیچے فیصلہ کرتا ہے تو یہ اُس کے اور اُس کے چاہنے والوں کے معیار پر پورا نہیں اُترے گا۔ درحقیقت “پاپولزم” سیاست کا ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو عوام کو اشرافیہ کے مخالف سمجھتا ہے اور اسے اکثر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نظریے کے طور پر، یہ بائیں اور دائیں کی مخصوص تقسیم سے بالاتر ہے اور حق رائے دہی اور بے حسی کے عروج کے ساتھ پاکستان، امریکہ اور دیگر کئی ملکوں میں زیادہ عام ہو چکا ہے۔ اس لیے دانشورانہ ڈکشنری کے مطابق پاپولسٹ لیڈرایک ایسا سیاسی رہنما ہوتا ہے جو عوامی جذبات، خواہشات اور خدشات کو براہِ راست مخاطب کرتا ہے، اکثر ایک سادہ اور جذباتی انداز میں یہ رہنما عموماً خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ اور روایتی سیاسی اشرافیہ یا اسٹیبلشمینٹ کے خلاف کھڑا دکھاتا ہے۔ اب آجائیں خان صاحب کے معافی مانگنے پر تو اس سے پہلے میں قارئین کی نظر ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دیہاتوں میں پنچایت سسٹم آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ لوگوں کو ملا جھلا انصاف دے رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایسی ہی ایک خود ساختہ پنچایت راقم کے ذمہ بھی لگ گئی،،، یہ دو پارٹیوں کی لڑائی کا کیس تھا،،، جیسے تیسے کرکے دونوں کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا،،، معافی تلافی ہوئی ،،، دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا،،، اور معاملہ صلح صفائی پر ختم ہوا۔ لیکن جب آپ دونوں پارٹیوں کو زبردستی کی بنیاد پر ایک میز پر لاتے ہیں اور صلح کرواتے ہیں تو یہ بات کبھی دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ دونوں فریقین نے صدق دل سے صلح کی ہے یا نہیں! اس معاملے پر بھی یہی ہوا،،، کہ ایک پارٹی نے رنجش دل میں رکھی اور موقع ملتے ہیں دوسری پارٹی کے دو افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب اس لڑائی کو 10برس گزر گئے دونوں اطراف سے کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں ،،، صلح کی دوبارہ کوششیں بھی کی گئیں لیکن اعتماد کا فقدان حاوی رہا۔ آپ خان صاحب کی معافی کا معاملہ دیکھیں کہ ایک فریق اس وقت جیل میں ہے جبکہ دوسرا فریق مکمل طاقت میں ہے تو ایسے میں معافی کا جواز بنتا ہے؟ چلیں مان لیا کہ عمران خان معافی مانگنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو اُس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ لوگ یہیں پر رُک جائیں گے؟ یہاں تو اس وقت حالات یہ ہیں کہ ایک تھانوں میں تھانیدار سے اگر معافی مانگیں تو جب تک آپ کو آپ کے خاندان کو پوری طرح ذلیل نہ کر لیں،،، اُس کی تسلی ہی نہیں ہوتی،،، بلکہ وہ جب تک ناک سے لکیریں نہ نکلوا لے اُس کو تسکین ہی نہیں ملتی۔ اب اگر جیل میں بند شخص حکمران وقت سے معافی مانگے گا تو سب سمجھیں گے کہ مصلحتاً مانگی ہے، دل سے نہیں مانگی اور معاف کرنے والا معاف کر بھی دے تو یہ بھی تاثر رہے گا کہ حکمران کی بھی اپنی کوئی مصلحت ہو گی، اس لیے اس نے کہہ دیا کہ چلو قبول ہوئی۔ لیکن اس طرح معافی مانگنے والے اور دینے والے کے دل میں ایک اور گانٹھ پڑ جاتی ہے جو کسی ناقابل معافی جرم کا باعث بنتی ہے،جیسے ہم بچوں کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ چلو سوری بولو! بہرحال چلیں یہ بھی مان لیا کہ معافی یا مفاہمت کی رائے دینے والے اپنی دانست میں بہت مخلص ہوں گے لیکن بھول جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے حالات میں بات صرف معافی تک نہیں رہتی۔کیوں کہ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان کو کھڑا ہونا چاہیے لیکن کمزور آدمی ایسا نہیں کر سکتا اور یہی ا±س کی تقدیر ہوتی ہے۔ بھٹو جنرل ضیا سے معافی مانگ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ا±س انداز سے جھکنا ا±س کے ٹمپرامنٹ کا حصہ نہیں تھا۔ اکڑ خان تھا اور آخری دم تک اکڑ خان رہا۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی جنرل مشرف سے سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا؟ تھوڑا جھک جاتا اور جان بچ جاتی۔ بڑھاپے میں ہیٹ پہن کر اور اونٹ پر سوار ہو کر پہاڑوں پر جانے کی ضرورت کیا تھی۔ نواب آدمی تھا نوابی میں زندگی کے آخری دن گزارتا۔ ایسے بلوچ سرداروں کی کمی نہیں جو مفاہمت اور چاپلوسی کے بادشاہ نہ ہوں۔ لیکن نواب اکبر خان اور ڈھنگ کا انسان تھا۔ ہماری زبان میں اتنا عملیت پسند نہیں تھا اور ہوتا تو شاید کچھ اور سال جی لیتا۔ عمران خان کو نصیحت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اب تو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے۔ معافی یا مفاہمت کی نصیحت کرنے والوں کا اصل مدعا یہ ہے کہ وہ تھوڑا جھک جائیں۔ آنکھوں میں التجا کا تاثر لے آئیں اور ایسا کریں تو اُن کیلئے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسے حضرات پہلے تو یہ بتائیں کہ ” قیدی“ کے مزاج میں جھکنے کا عنصر تھوڑا سا بھی موجود ہے؟ جب کسی انسان میں ایک چیز سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر یہ سوال کس طرح بنتا ہے کہ اُسے اس طرف مائل کیا جائے؟ بلکہ اب تو اُس کے سخت مخالف اور قریبی رشتہ دار حفیظ اللہ نیازی نے معافی کے معاملے پر کہا ہے کہ خان نے 9مئی کے فوری بعد معافی نہیں مانگی تو اب وہ کیوں مانگے گا؟ جب اُس نے دو سال کا عرصہ جیل میں گزار لیا ہے،،، اب تو وہاں کی ہواﺅں سے بھی اُسے لگاﺅ ہو گیا ہوگا۔ اور پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جھکنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر بھی لیتا ہے تو کیا بات وہاں ختم ہو جائے گی؟ امیر تیمور کے سامنے بایزید نے ہتھیار ڈالے تو ا±سے ایک پنجرے میں ڈال دیا گیا تاکہ پوری دنیا ا±س کی حالت دیکھ سکے۔ بغداد پر ہلاکو خان کا قہر نازل ہوا تو خلیفہ مستعصم کی شکست اور بے بسی اُس کی تسکین کے لیے کافی نہ تھی‘ عباسیوں کے آخری خلیفہ کو قالین میں لپیٹا گیا اور اوپر سے منگول گھوڑے دوڑائے گئے جب تک کہ ا±س کا آخری سانس ختم نہ ہوا۔ بہرکیف اس سے انکار نہیں کہ عمران خان سے غلطیاں ہوئیں۔ بڑے آدمیوں سے بڑی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بھٹو سے بھی بہت غلطیاں ہوئیں اور اُن کا خمیازہ اُنہوں نے بھگتا۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں انصاف اور احتساب کے پیمانے دہرے معیار کے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے واقعات کی پوچھ گچھ یہاں ناممکن ہو جاتی ہے۔ کوئی پیمانہ انصاف نہیں جو ایسے سانحات کا احاطہ کر سکے۔ عام سیاستدان بیشتر چیزوں سے بری الذمہ ہوتے ہیں‘ مگریہاں تاریخ یہ رہی ہے کہ مملکتِ خداداد میں گناہِ عظیم مقبول لیڈر ہونا ہے۔ عوام نے قبولیت کا شرف بخشا تو اقتدار کے بوسیدہ ستونوں کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ مقبولیت زیادہ ہو تو لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔ پھر ایسے مقبول عام لیڈر کے لیے کسی کوتاہی یا غلطی کی گنجائش نہیں رہتی۔ چلیں یہ ساری باتیں چھوڑیں اس وقت جب پوری ریاستی مشینری ایک ریاستی ادارے کے دفاتر‘ اعلیٰ افسروں کے گھروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے میں مصروف ہے۔ ملزمان کو خواہ وہ موقعِ واردات پر موجود تھے یا نہیں تھے‘ عملی طور پر شریک تھے‘ محض اکسانے کے ملزم تھے یا تماشائی تھے‘ سب کے سب ”انصاف“ کی چکی میں گندم کے ساتھ گھن کی طرح پس رہے ہیں۔ تو ایسے میں پاپولسٹ لیڈر معافی مانگے گا؟ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ فیلڈ مارشل یقینا اس وقت طاقت میں ہیں،،، وہ معافی کے مطالبات نہ کریں بلکہ میرٹ پر فیصلے کریں ،،، اور عوام جسے چاہتی ہے اُسے اقتدار سونپ دیں ،،، جبکہ اس کے علاوہ اگر آپ یہ کہیں خان معافی مانگے گا تو اس کے لیے عوام کی طرف سے فیلڈ مارشل صاحب ”آئی ایم سوری“!