اہل لوگ لگائیں،ورنہ ملک ڈوب جائے گا!

تاریخ سے ہمیشہ دلچسپی صرف اسی وجہ سے رہی ہے کہ تاریخ ہمیں تجسس میں ڈالتی ہے،،، اور ہر وقت آپ جاننے کی تگ و دو میں رہتے ہیں،،، پہلے یہ ”جاننا“ ہمیں کتابوں سے ملتا تھا، اور اب سوشل میڈیا اور کئی طرح کی میڈیا سروسز سے ملتا ہے۔ جیسے ترک ڈرامہ سیریز ارتغرل آپ کو عثمانی ادوار میں لے جاتا ہے،،، گزشتہ روز میںفارغ اوقات میں اسی ڈرامے کی ایک قسط دیکھ رہا تھا کہ اُس میں ارتغرل حلب کے امیر کو صلیبیوں اور جاسوسوں سے نجات دلاتا ہے،،، تو حلب کا امیر ارتغرل سے پوچھتا ہے کہ مجھے اپنے عوام کی بہتری اور جاسوسوں سے نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ تو ارتغرل نے جواب دیا کہ اہل لوگوں کو اُن کی قابلیت کے مطابق ذمہ داریاں سونپی جائیں! ابھی یہیں رکیے! خدا نہ کرے آپ کو کسی سرکاری دفتر سے واسطہ پڑے،،، لیکن اگر پھر بھی اللہ کے حکم سے واسطہ پڑ گیاتو پھر آپ صحیح طرح سے اس سسٹم کو جان گئے ہوں گے،،، کہ یہاں کام کیسے چل رہے ہیں؟ ایسے میں آپ کو ترک سردار ارتغرل کی یہ بات ضرور یاد آئے گی۔ کہ ہمیشہ Right person for right job والا فارمولا ہر جگہ اپنانا چاہیے۔ ورنہ وہی حالات ہوں گے جو اس وقت ہمارے ملک کے ہیں۔ آپ خود دیکھیں کہ کوئی اہل بندہ کسی بھی سیٹ پر موجود ہی نہیں ہے۔ جب ٹرین کا ڈرائیور ہی نہیں ٹھیک ہو گا، تو ٹرین کیسے منزل مقصود تک پہنچے گی؟ اس لیے حکمران جتنے مرضی ترقی کے نعرے لگا لیں شک کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ کیوں کہ ان حکمرانوں سے ہمیں صرف یہ مسئلہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ملک میں صرف کرپشن کرنی ہے،،، بلکہ انہوں نے ہر محکمے میں جو اپنی مرضی کے لوگ بٹھائے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنی سیٹوں کے اہل نہیں ہیں،،، انہوں نے ہر جگہ اپنے بندے بٹھا دیے ہیں تاکہ انہیں کوئی کچھ نہ کہے،،، عدلیہ کیا، بیوروکریسی کیا، فوج کیا ، پی سی بی کیا، واپڈا کیا، حتیٰ کہ واسا ، ایل ڈی اے تک میں سیاسی پوسٹنگ کی گئی ہے۔ اور یہ سب کچھ فیصلے کرنے والوں کی منشاءاور اُن کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ ہماری مرضی کے بندے لگائیں، اگر آپ اپنی مرضی کے بھی لگا رہے ہیں تو کیا آپ کی فہرست میں کوئی لائق یا قابل افسر نہیں ہے؟ اگر انجینئر کی سیٹ ہے تو اُس پر کسی قابل انجینئر کو تو لگائیں،،، اُس پر کسی ڈاکٹر کو تو نہ لگا دیں،،، اور پھر اگر کہیں ڈاکٹر کی سیٹ پرُکرنی ہے تو اُس پر کسی سیاستدان یا وکیل کو نہ لگا دیں،،، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ نے پی سی بی کا چیئرمین لگانا تھا، تو کیا آپ کے دوستوں میں سے صرف محسن نقوی ہی بچا تھا؟ جس کے پاس پہلے ہی کئی فل ٹائم جابز ہیں جس میں وزارت داخلہ سر فہرست ہے۔ تو کیا چیئرمین پی سی بی کے لیے آپ کے ”دوستوں“ میں سے کوئی بھی قابل شخص نہیں بچا تھا؟ میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جناب آپ اپنی مرضی کا ہی سربراہ منتخب کریں ،،، مگر وہ قابلیت میں اپنے احباب میں تو کم از کم پہچانا یا مانا جائے۔ محض ہوائی سفر کے شوقین کو اگر آپ کسی ادارے کا چیئرمین بنا دیں گے تو وہ سب کچھ روند ڈالے گا۔اور پھرایسا کرنے سے کیا ملک کے بچے کھچے ادارے مزید تباہ نہیں ہو جائیں گے؟ بہرحال ہمیں فیصلہ کرنے والوں کی نیت پر ہر گز شک نہیں ہے،،، بلکہ ہم نے تو سپہ سالار کی تقریر بھی سنی ہے جو گزشتہ دنوں انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے درمیان کی۔ ہمیں اُن کی باتوں میں نیک نیتی نظر آئی،،، لیکن اکیلی نیک نیتی کا ہم سے کیا سروکار ہوگا؟ کیا ٹیپو سلطان نیک نیت نہیں تھا؟ کیا سراج الدولہ نیک نیت نہیں تھا؟ کیا بخت خان نے 1657کی جنگ آزادی نیت نیتی سے نہیں لڑی تھی؟ لیکن یہ سارے ہی اپنے حواریوں کی وجہ سے ہار گئے تھے ۔ لہٰذاآپ کبھی اکیلے جنگ نہیں جیت سکتے جب تک آپ کے ساتھ حواری نہ ہوں،،، اس لیے حواریوں کا ٹھیک ہونامعنی رکھتا ہے،،، اگر وہ ایماندا ر ہوں گے تو آپ بھی ترقی کریں گے، ریاست بھی ترقی کرے گی اور عوام بھی ترقی کریں گے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ ہمیں ہر گز ہر گز فیصلہ کرنے والوں کی نیت پر شک نہیں ہے، لیکن انسان اپنے حواریوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اور ان حواریوں یعنی جن کے سپرد آپ نے ملک کیا ہوا ہے، ان سے تو آپ ایک دھیلے کی اُمید نہیں کر سکتے کہ یہ ملک کی بہتری کے لیے کام کر سکتے ہیں، نہیں یقین تو آپ ان کے ریکارڈز چیک کر لیں،ان ہزاروں کے حساب سے کرپشن کیسز چیک کر لیں، ان کے کام کرنے کے انداز چیک کرلیں، ان کے دور کی آڈٹ رپورٹس پڑھ لیں، ان پر کرپشن کے چارجز چیک کر لیں، انہوں نے بینکوں سے جو قرضے معاف کروائے وہ دیکھ لیں، انہوں نے جو کرپشن کیسز کے حوالے سے این آر او ز لیے وہ دیکھ لیں۔ حتیٰ کہ آپ کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے جس نے چاروں صوبوں کو فائدہ دینا تھا ، یہ وہ نہیں بنوا سکے تو چولستان والی نہریں کیسے بنوا سکیں گے؟ بلکہ انہوں نے تو تین سال ماسوائے الزام تراشی کے کچھ نہیں کیا؟ انہیں تو صحیح طرح سے اپنا روڈ میپ ہی نہیں پتا۔ اچانک بیٹھے بیٹھے کوئی نیا بل لے آتے ہیں، کوئی نیا منصوبہ شروع کردیا جاتا ہے، کبھی ہم چولستان کو آباد کرنے کے لیے نئی نہریں کھودنے کا بغیر سوچے سمجھے منصوبہ چھیڑ بیٹھتے ہیں، کبھی ہم ٹورازم کو لے آتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے بہترین سیاحتی ملکوں میں سے ایک بنائیں گے، کبھی ہم معدنیات کے ذخائر کو لے آتے ہیں، کبھی ہم سستی بجلی کے لیے نئے ڈیم بنانے کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ دیامر بھاشا ڈیم جو گزشتہ پانچ سال سے شروع ہو چکا ہے، جسے 50فیصد بن جانا چاہیے تھا، مگر وہ ابھی تک محض 18فیصد مکمل ہوا ہے، اور ابھی تک ہم بنیادی سٹرکچر ہی نہیں بنا سکے۔ کبھی ہم بلوچیوں پر بندوق تانے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسئلے کو بندوق کی نالی سے نکلنے والی گولی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی ہم افغانستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کا عندیہ دیتے ہیں، کبھی ہم بھارت کے ساتھ اور کبھی ایران کے ساتھ تعلقات خراب کر بیٹھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان نااہل لوگوں کی وجہ سے اس وقت ملک کنگال ہو رہا ہے، ہم یواے ای، سعودی عرب، چین سے رہن کے لیے پیسے ایک سال کی تاریخ بڑھنے پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں، ہم اپنے اصل سرمایہ داروں کو یہاں ٹکنے نہیں دیتے،،، کیوں کہ حکمران طبقہ اپنے آپ کو خود بہت بڑا سرمایہ دار سمجھتا ہے، حالانکہ اُسکا کل سرمایہ بیرون ملک پڑا ہے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں، موجودہ وزیر اعظم، موجودہ صدر پاکستان، موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب ، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر درجنوں حکمران سیاستدانوں کے کھربوں روپے بیرون ملک پڑے ہیں۔ تو کیا یہ لوگ کسی کاروباری کو ملک میں ٹکنے دیں گے؟ انہوں نے تو ملک ریاض کا وہ حال کیا ہے کہ آئندہ کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ کمی و کوتاہیاں سب میں ہی ہوتی ہیں، مگر ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ لوگ ملک کا اثاثہ بھی ہوتے ہیں،،، اور پھر کیا کبھی آپ نے یہ سنا ہے کہ بھارت میں سرکار نے مکیش امبانی، گوتم ایڈانی، شونادر، جندال گروپ، ٹاٹا گروپ، سنیل متل یا کسی دوسرے سرمایہ دار گروپ کو تنگ کیا ہو، بلیک میل کیا ہو، سیاست میں ملوث کیا ہے، یا یہ کہا ہو کہ آپ فلاں شخصیت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں،،، آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ بلکہ وہاں کی سرکار گوگل ہو،ایپل ہو، مائیکروسافٹ ہو، ایمازون ہو، علی بابا ہو یا کوئی بھی ملٹی نیشنل چین ہواُس کے ساتھ معاہدے ہی ایسے پیرائے میں کرتی ہے کہ وہ بھارت کی ذیلی کمپنیوں کے ساتھ مل کر جوائنٹ وینچر کریں گے،،، اگر کوئی اُن کی شرائط نہیں مانتا تو وہ کبھی اُسے اپنے ملک میں کاروبار نہیں کرنے دیتے۔ خیر بات دوسری طرف نکل گئی، مگر فیصلے کرنے والوں سے یہی کہیں گے کہ خدارا دھیمک کی طرح چمٹے ہوئے ان حکمرانوں سے اس ملک کو نجات دلائیں،،، نئی غیر کاروباری سوچ رکھنے والوں کو سیاست میں لائیں، اگر اُنہیں حکومت چلانا نہیں آتی تو اُن کی تربیت کریں،،، بالکل اُسی طرح جس طرح امریکی صدر کی منتخب ہونے کے ڈھائی ماہ تک تربیت کی جاتی ہے، اُنہیں پروٹوکول سکھائے جاتے ہیں،،، پھر بہت سے فیصلے خواہ پنٹاگون ہی کرتا ہے مگر یہ فیصلے ملکی و قومی مفاد میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے والے حکمران اس وقت ہر جانب سب اچھا کی خبریں پھیلا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر رہے ہیں،،، ہر پراجیکٹ میں اپنا حصہ ڈالرز ، پاﺅنڈز اور یورو میں وصول کر رہے ہیں۔ ان کے اپنے کاروبار دن رات ترقی کر رہے ہیں،،، لہٰذاعقل کے ناخن لیے جائیں،،، ہمارے پاس ملک بچا ہی کتنا ہے؟ 55سال پہلے ہم نے آدھا ملک کھو دیا، اب بلوچستان میں ہم نہیں جا سکتے، کے پی کے والوں کے حالات آپ کے سامنے ہیں، سندھ کے عوام سمجھ رہے ہیں کہ وفاق اُن سے نہری پانی چھین کر وہاں کے عوام کو بھوکا اور پیاسا مارنا چاہ رہا ہے۔ بہرکیف اس وقت تو ویسے ملک میں سسٹم ہے ہی نہیں،،، بس جو کہہ دیا وہی قانون بن جاتا ہے،،، لیکن خدارا اہل لوگ تو ان سیٹوں پر لگائیں، تاکہ آپ کی سوچ کو مکمل کیا جاسکے۔ ،، آپ خود چونکہ اہل ہیں،،، اور اس منصب تک ظاہر ہے،ایک سسٹم سے گزر کر پہنچے ہیں۔لہٰذااگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ چلے ہوئے کارتوس، ہارے ہوئے جواریوں، کرپٹ حکمرانوں اور دیگر افراد کے ذریعے ملک چلا لیں گے تو یقینا آپ غلطی پر ہیں۔ جسے درست کرنا کافی ہے۔!