مصطفیٰ عامر قتل کیس اور میرے ملک کی تباہ ہوتی نوجوان نسل !

آج کل سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ایک ہی کیس ڈسکس کیا جا رہا ہے، اور وہ ہے مصطفی عامر قتل کیس جس میں ملزم ارمغان، شیراز و دیگر پولیس حراست میں ہیں ۔ اور روزانہ نت نئے (نوجوانوں میں نشے کی لت کے حوالے سے )انکشافات کر رہے ہیں۔ جس کے بعد قتل ہونے والے مصطفی عامر کی کہانی پیچھے اور ایلیٹ کلاس کی ”ڈرگز“ کہانی فرنٹ پر آگئی ہے۔ جس میں معذرت کے ساتھ ایسا لگ رہا ہے جیسے والدین بچوں کو اس حوالے سے یا تو مکمل سپورٹ کر رہے ہیںیا وہ اپنے بچوں کے ہاتھوں ”مجبور“ ہیں۔ آپ مذکورہ کیس میں ارمغان کے والد کو دیکھ لیں، کہ وہ کس دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے قاتل بیٹے کا دفاع بھی کر رہا ہے، اور ججز کو ساتھ ملانے کا بھی کہہ رہا ہے۔ اور پھر یہ تو میڈیا کا بھلا ہو ورنہ اس کیس کے پہلے دن کی کارروائی سنیں کہ جس جج نے ارمغان کا پولیس کو جسمانی ریمانڈ دینا تھا،،، اُس کا جوڈیشل ریمانڈ کردیا .... مطلب! ہمارے ملک کا عدالتی نظام چیک کریں۔ ایک بندہ قتل کا اعتراف کرتا ہے، لاش ٹھکانے لگانے کا اعتراف کرتاہے پولیس پر فائرنگ کرتا ہے، دو پولیس والے زخمی ہوتے ہیں اور وہ اپنا جرم قبول کرتاہے مگر جج صاحب اسے جسمانی ریمانڈ دینے کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتے ہیں۔خیر اس پر تو سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے انکوائری بھی چل رہی ہے اور ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے والے منتظم جج سے انتظامی اختیارات واپس لینے کی سفارش کر دی گئی ہے۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر کے مطابق 10 فروری کو دوپہر 12 بجے منتظم جج کے پاس کسٹڈی پیش کی اور جج نے تفتیشی افسر کو 3 گھنٹے انتظار کروایا، منتظم جج نے تفتیشی افسر کو ملزم کے میڈیکل معائنے کے زبانی احکامات دیے جبکہ منتظم جج کے پاس ملزم کے مختصر ریمانڈ کا مناسب طریقے کار موجود تھا۔ جبکہ وہاں موجود عینی شاہدین کہتے ہیں کہ ملزم کا باپ جج صاحب کے چیمبر میں موجود تھا۔ اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ بات کروڑوں روپے کی ہوئی تھی۔ خیر علم تو ہمیں بھی ہے کہ جس طرح پچھلے کیسز میں آپ دیکھیں کہ نہ تو شاہزیب قتل کیس میں شاہزیب کی لاش کو انصاف مل سکا، نہ شاہ رُخ جتوئی کو سزا مل سکی۔ نہ نتاشہ کیس جس نے راہ چلتے عوام کو کچل ڈالا تھا، اُسے سزا مل سکی نہ سانحہ ساہیوال کے کرداروں کو آج تک سزا مل سکی ، نہ ہی ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو سزا مل سکی اور نہ ہی سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے طاقتوروں کو ہمارا قانون سزا دے سکا۔ لہٰذااسی طرح مصطفی کی لاش کو ہمارا نظام عدل کبھی انصاف نہیں دے سکے گا۔ بہرحال آگے چلنے سے پہلے اس کیس کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتہ ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا ۔25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا ۔ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ، جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اب یہ بھی سن لیں کہ ملزم نے مقتول کو کیسے مارا تھا، یہ بھی ایک فلمی انداز ہے۔ ان دونوں کے ایک مشترکہ دوست اور شریک ملزم شیراز کے بقول ارمغان اور مصطفی کا جھگڑا نیو ائیر نائٹ پر کسی لڑکی کو لے کر ہوا تھا۔ جس کے بعد 6جنوری کو ارمغان مصطفی کو اپنے گھر بلاتا ہے، دونوں نشہ کرتے ہیں، جس کے بعد ارمغان تین چار گھنٹے مصطفی پر تشدد کرتا ہے، اور اُسے اُسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقہ حب میں لے جاتا ہے، اور گاڑی کو آگ لگا دیتا ہے،، اور پھر وہاں سے ارمغان اور شیراز لفٹ لے کر واپس آتے ہیں ۔ ارمغان فلمی انداز میں مصطفی کو مارنے، جلانے سے پہلے بار بار ”ٹاس“ کرتا ہے، اور ٹاس جیتنے کی صورت میں وہ اُسے مزید تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ نوجوان نسل میں ڈرگز کی بھرمار نے اس وقت پورے ملک میں کھلبلی مچا کر رکھ دی ہے،،، ایسے ایسے انکشافات ہور ہے ہیں کہ ہم خود دم بخود ہیں کہ ملک میں یہ ہو کیا رہا ہے۔ مثلاََ میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف کراچی کے علاقوں ڈیفنس ، کلفٹن وغیرہ کے لڑکے لڑکیوں کے علاوہ بزنس مین ، بیوروکریٹس ، سیاست دان اور شوبز انڈسٹری رکھنے والے افراد کی مصطفی قتل کیس کے بعد نیندیں حرام ہو چکی ہیں،،، اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو بیرون ملک فرار کروا چکے ہیں اور بہت سے اس تگ و دو میں ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ایک گینگ یعنی بین الاقوامی ڈرگ ڈیلرز کا اہم کارندہ ڈرگ منگواتا ، اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں سپلائی کرتا ہے ، کراچی میں جو شخص ارمغان وغیرہ کو ڈرگز سپلائی کرتا تھا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے مشہور اداکار ساجد حسن کا جوان بیٹا ساحر حسن تھا، جو اس وقت پولیس کی حراست میں ہے۔ اور اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ وہ ماہانہ اس کام سے 80سے 90لاکھ روپے کی کمائی کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ساحر کے موبائل فون سے سی آئی اے اور آئی بی کی تفتیش میں بہت سے نام ایسے آئے ہیں جنہوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے ، ساحر سے ایک خاتون جس کا مہنگا ترین فلیٹ ڈیفنس میں موجود ہے ، یہ خاتون ماہانہ ایک اونس یعنی 28 گرام جنگل بوائے نامی منشیات خریدتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کلائنٹ 13 لاکھ 44 ہزار کی منشیات ماہانہ خریدتا ہے اور ایسے کئی کردار اس فہرست میں موجود ہیں۔ بہرحال یہ وہ کردار ہیں جو انتہائی طاقتور ہیں اور ملک کے فیصلے کرتے ہیں،،، تفتیشی حکام کہتے ہیں یہ قصہ جلد ختم ہوجائے گا مگر تعلیم یافتہ نوجوان نسل تباہ ہوجائے گی ، ڈیفنس ، کلفٹن کے کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی یہ مہنگا ترین نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے اس معاملے پر حکومت اور انتظامیہ نے بیان بازی تو بہت کی مگر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساحر حسن جیسا لڑکا بغیر نشہ کیے بات بھی نہیں کر پارہا۔ یہ مہنگے ترین بنگلوں میں رہنے والوں کا حال ہے جن کے بچے زنجیروں سے بندھے ہیں اور والدین شرمندگی میں اس معاملے پر بات نہیں کرپاتے جبکہ غریب کے بچے منشیات کی لت میں سڑکوں پر پڑے ہیں۔ اور پھر دکھ مجھے اس بات کا ہوا کہ ساجد حسن جیسا سمجھدار آدمی یا ارمغان جیسے جرائم پیشہ لڑکے کا والد جنہیں شاید اپنے بچوں کی نقل و حرکات کے بارے میں ضرور علم ہوگا،،، انہیں روکنے کے بجائے اُن کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ اب ایسے تو نہیں ہو سکتا ہے، کہ میں اپنے بچوں کے ہر اُس کام سے بے خبر رہوں جو وہ روزانہ روٹین سے کر رہے ہیں۔ پھر مجھے یہ بھی لگا کہ یہ وہی مسئلہ ہے کہ جب دولت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور پھر جب تکبر اتنا ہو۔ پتہ ہو کہ انصاف اور قانون پاو¿ں کی جوتی ہیں، جب یقین ہو کہ سب خریدا جا سکتا ہے۔ ہر قانون و انصاف کو۔تو پھر اعتماد بھی خود ہی آجاتا ہے۔ اس کہانی میں نظامِ عدل ہی نہیں‘ اس سماج کا المیہ بھی چھپا ہوا ہے۔ آج ایک والد اپنے بیٹے کو پھانسی سے بچانے کے لیے ہر جتن کر رہا ہے۔ کل جب وہ جرائم اور منشیات کے دلدل میں دھنس رہا تھا‘ والد نے اس کو نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر اسے اپنے بیٹے سے کوئی دلچسپی اور محبت تھی تو اسے بچانے کا وقت وہ تھا جب وہ آوارگی کے حصار میں تھا۔ جب بیٹے نے گھر کو جرائم کا اڈا بنارکھا تھا‘ اس وقت باپ سویا رہا۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ آج جب انجام سامنے دکھائی دینے لگا تو اس کی شفقتِ پدری جاگی ہے۔ لیکن کیا فی الواقعہ اس کا انجام سامنے ہے؟ بہرکیف ان گنت مصطفی روز مر رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں سے لے کر ہر گلی ، محلے اور پلازوں وغیرہ بدترین نشہ آور ادویات کی اقسام سرعام دستیاب ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران محض آئینی ترامیم، بیرون ملک دوروں اور فوٹو شوٹس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہرجرم،ہر قتل، ہر معاشرتی برائی، سماج، ریاست اور بالخصوص نظامِ عدل کے لیے ایک نیا سوال ہے جس کے لیے ان کے نمائندے جوابدہ ہیں۔ اور پھر اس نظامِ عدل کے بارے میں میرے لیے جو سوال سب سے اہم ہے، وہ میں سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ قتل کے ایک واقعہ کی جو تفصیلات ہمارے سامنے آتی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ قتل کے اتنے شواہد موجود ہیں کہ تردید کا کوئی سوال نہیں۔ اس کے باوجود برسوں یہ مقدمات چلتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہو پاتا؟ سوال یہ ہے کہ جب اتنے شواہد موجود ہیں تو عدالت جلد فیصلہ کیوں نہیں سناتی؟ تبھی ہماری نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے،،، لہٰذاقتل کوئی معمولی واقعہ نہیں جس کے بارے میں تساہل کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری عدالت کی ہے۔ عدالت کی طرف سے سماج کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ قتل کا مجرم لازماً انجام کو پہنچے گا۔ ڈرگ ڈیلر کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ، اُسے پابند سلاسل کرنا عدالتوں کا کام ہے، اگر عدالتوں کو نظر آرہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل میں نشہ کوٹ کوٹ کر بھرا جار ہا ہے، تو وہ اس پر ایکشن لے، اُس علاقے کے ایس ایچ او کو معطل کرے، ورنہ تو مجھے اس مصطفی قتل کیس میں بھی یہی لگتا ہے کہ پہلے کی طرح تفتیشی افسران ہٹا دیئے جائیں گے اور بگڑے نوابوں کی تفتیش آگے نہیں بڑھے گی !