اشرافیہ کو برابھلاکہناغداری نہیں،عوام کو تکلیف دینا غداری ہے!

اس وقت ملک میں عوام کا جو حال ہے شاید ہی تاریخ میں کبھی ایسا حال ہوا ہو۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے عوام ریاست کا حصہ نہیں ہیں،ہر ادارے نے اپنے بچاﺅ کے لیے اپنے اپنے ”ٹیگ“ رکھے ہوئے ہیں،،، اور بیرئیر لگادیے ہیںکہ اگر آپ بے حرمتی کریں گے تو آپ پر تو ہین عدالت، توہین مذہب ، توہین پارلیمنٹ، توہین اسٹیبشلمنٹ ، تو ہین اشرافیہ، توہین حکمران وغیرہ لگ سکتی ہے،،، الغرض ہر ادارہ اپنے آپ کو مقدس گائے بنا بھی رہا ہے، سمجھ بھی رہا ہے اور دوسروں سے توقع بھی کر رہا ہے کہ وہ اسے مقدس گائے سے بھی اوپر سمجھیں!لیکن ان سب میں آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کہیں نہ کہیں ”توہین عوام“ بھی ہو رہی ہے۔ یعنی سب کی توہین ہوتی ہے، مگر عوام کے حصے میں صرف جوتے ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے، عوام پر دھاو ا بول دیتا ہے۔ کہیں عوام کو ریلیف دینے کی بات نہیں ہو رہی، ہر کوئی مزید نچوڑنے کے چکر میں ہے۔ بلکہ عوام کو ڈیجیٹل دہشت گردی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے، اور اس کا برملا اظہارڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بھی ملا ہے۔ میرے خیال میں یہ پریس کانفرنس سرکار کو کرنی چاہیے تھی، وزارت اطلاعات کر دیتی یا کوئی اور وزیر کر دیتا، لیکن آرمی اس طرح کے ایشوز کو ڈسکس کرے گی پھر لوگ طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں گے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے مگر اس وقت انقلاب وطن عزیز کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر مجال ہے کہ اشرافیہ کی من مرضیاں اور موجیں ختم ہونے کا نام لے رہی ہوں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کا 22سو ارب روپیہ پینشن، مراعات اور سرکاری بیرونی دوروں پر ضائع ہوتا ہے۔ مطلب! ہم مراعات اُس طبقے کو دے رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک ڈیفالٹ ہوا یا ہونے کے قریب پہنچا۔ ہم کیوں امریکا، برطانیہ ، چین یا بھارت کو اس ڈیفالٹ کا ذمہ دار قرار دیں، ہم تو اندر سے ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ اور جن لوگوں کو ملک ٹھیک کرنے کا موقع ملا، انہوں نے اس حد تک کرپشن کی کہ اس ملک کی چیخیں نکل گئیں۔ لہٰذاکیا ایسا طبقہ مراعات کے قابل ہے؟ اور مراعات بھی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ ان کی پنشنز 2لاکھ سے شروع ہو کر 10لاکھ روپے تک جاتی ہے، ان کی گاڑیاں 1600سو سی سی سے شروع ہو کر 4000سی سی تک جاتی ہیں، ان کے گھر 1کنال سے شروع ہو کر 8,8کنال تک جاتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک سفر اکانومی میں نہیں بلکہ بزنس کلاس میں ہوتے ہیں۔ان کے مخصوص ہیلی کاپٹر ہوتے ہیں، 50، 50کروڑ کے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جاتے ہیں ، حالانکہ عوام کے پیسوں سے تو امپورٹڈ گاڑیوں یا ہیلی کاپٹر کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں آنا چاہیے، بھلا گورنرز کو کیا ضرورت ہیلی کاپٹر کی حالانکہ یہ عہدہ تو محض کاسمیٹکس ہوتا ہے۔ پھر انہیں پٹرول بھی معاف ہے، انہیں بجلی کے بل بھی معاف ہیں، اُنہیں یوٹیلٹی بل بھی معاف ہیں اور تو اور ان کے گھروں میں کام کرنے والا سٹاف بھی سرکاری ہے۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ان کی تعداد کم بھی نہیں ہے، آپ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی ملک بھر میں تعداد گن لیں، وزراء، اراکین اسمبلی ، سابق وزرائے اعظم، سابق صدور، سابق ججز، سابق جرنیل، سابق افسران، و دیگر مراعات یافتہ طبقے کی تعداد کو گن لیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔ اور ان میں سے 99فیصد امیر ترین لوگ ہیں۔ لیکن مراعات لینے میں نمبر ون ہیں! لیکن عوام کی باری آتی ہے تو سب ہاتھ جھاڑ دیتے ہیں۔ کیا عوام اس ریاست کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو اُنہیں کیا مراعات دی جا رہی ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ دو نمبر کاموں میں فائدہ لینے کے لیے بھی اشرافیہ سب سے آگے ہے۔ اب سمگلنگ دیکھ لیں ، سرحدوں سے ہونے والی سمگلنگ جسے روکنا حکومتوں کا کام نہیں بلکہ سکیورٹی اداروں کا کام ہے، لیکن سرعام ہو رہی ہے، کیوں؟ کیوں کہ اُس میں عوام کا فائدہ نہیں بلکہ کسی اور کا فائدہ ہے۔ اور یہ صرف پٹرول تک محدود نہیں بلکہ افغانستان، ایران کی سرحدوں سے قیمتی اشیاءسمیت گاڑیاں تک اسمگل کی جا رہی ہیں۔ اور اس میں بغیر کسی کو ”حصہ “دیے یا بغیر کسٹم یا رینجر کی اجازت کے،،، ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ ایک چھوٹی سے چھوٹی شے بھی ادھر سے اُدھر کر سکیں۔ لیکن اس میں عوام کہاں ہیں؟ عوام کو تو وہی 3سو روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔ عوام کو وہی ہزاروں روپے ٹیکس یا بجلی کے بل کی مد میں دینا پڑتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی سکیورٹی ادارے کے افسر کو سزا ہوئی ہے؟ حالانکہ ہم تو سنتے آئے ہیں کہ بلوچستان میں ایف سی کے ہوتے ہوئے کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ یا تو یہ ایسا کریں کہ وہاں سے پٹرول اسمگل کر کے پاکستان کے عوام کو سستا تیل فراہم کریں۔ تب تو کوئی مانے کہ یہ کام عوام کے حق میں ہے تو اسے ہونے دیا جائے۔ الغرض عوام کہاں کھڑے ہیں؟ یہاں پورے کے پورے خاندان خودکشیاں کر رہے ہیں، پورے کے پورے خاندان برباد ہو رہے ہیں،،، جبکہ اس کے برعکس آپ جن شخصیات کو پریس کانفرنس میں کھڑے دیکھتے ہیں، جن کو اسمبلیوں میں کھڑے دیکھتے ہیں، خواہ اُن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، ن لیگ سے ہے، پی ٹی آئی سے ہے ، اسٹیبلشمنٹ سے ہے یا کسی اور جماعت سے ،،، یقین مانیں ان سب کی فیملیاں بیرون ملک سیٹلڈ ہیں۔انہوں نے کبھی اپنے خاندان کو عوام کے ساتھ ملانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جبکہ جو خاندان اس ملک میں بچ گئے ہیں وہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے اس حد تک دب چکے ہےں کہ کوئی معجزہ ہی اُنہیں اس مصیبت سے نکال سکتا ہے۔ اور پھر غصہ اُس وقت اپنے عروج پر ہوتا ہے جب یہ اشرافیہ بڑی بڑی پریس کانفرنسوں میں خطاب کر تے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ ویسے یہ عجیب منطق ہے، کہ عوام کہاں ٹیکس نہیں دیتے۔ ہر قسم کا زبردستی ٹیکس تو عوام پر مسلط کیا ہوا ہے، تو پھر ٹیکس نہ ادا کرنے کا شکوہ کیسا؟ اگر جوتی خریدنی ہے تو اُس کا بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، کپڑے خریدنے ہیں تو اُس پر بھی ٹیکس، ریسٹورنٹ میں کھانا کھانا ہے تو اُس پر بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ گھر سے نکلیں تو آپ کو ہر قسم کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، آپ کو ٹول ٹاٹیکس کی مد میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، آپ کو پٹرول کی مد میں ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ کو گاڑیوں کی مد میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، کسٹم ڈیوٹیز دینا پڑتی ہیں، آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ہے ،جو ماہانہ ہر کنزیومر سے کاٹا جاتا ہے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔اسی طرح گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ہے ،آپ کو ادویات پر ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کروا رہے ہیں ، اور آپ کسی بھی ڈویلپمنٹ ادارے کے دفتر جائیں ،تو لوگوں کی قطاریں لگیںہوئی ہونگی ، جن سے چالیس سے پچاس ہزار روپے فی نقشہ فیس جمع کی جائے گی۔ پھر آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں ، اس گھر کا سالانہ ٹیکس آپ نے خزانے میں الگ سے جمع کروانا ہوگا۔آپ گھر کے لئے خوراکی مواد یا گراسری کی خریداری کر رہے ہیں ، اس پہ بھی آپ نے ٹیکس دینا ہوگا۔آپ پڑھ رہے ہیں ،اور اپنے لئے کتابیں کاپیاں اور سٹیشنری خرید رہے ہیں ،اور پر بھی آپ ٹیکس دے رہے ہیں۔جتنے پیسوں کا موبائل آپ نے خریدا ہے، اتنا ہی ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، آپ کسی سیاحتی ٹور پہ جا رہے ہیں ،تو کئی جگہوں پر ناکے لگے ہوتے ہیں ،اور ٹی ایم اے کے نام پر آپ سے ٹیکس لیا جاتا ہے۔آپ بنک میں اپنے پیسے جمع کرتے ہیں یا نکالتے ہیں ، اس پر آپ نے ٹیکس دیناہوتا ہے ، اور آپ جتنی مرتبہ بھی ایک ہی رقم نکالتے اور جمع کرتے رہیں گے ،آپ اس پر ٹیکس دیتے رہیں گے۔حتی کہ آپ مر گئے ، تو آپ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے بھی آپ کے عزیز و اقارب کو ٹیکس دے کر سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا۔ الغرض اس معاشرے میں اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان خلیج پیدا ہوچکی ہے، یہ خلیج کئی حوالوں سے قائم و دائم ہیں! آپ کسی جگہ چائے پینا چاہتے ہیں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پی سکتے! آپ بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہتے ہیں مگر نہیں کرا سکتے۔ بہرکیف اس ملک میں توہین عوام بھی ہونی چاہیے ، لیکن ایسا ہونے کے مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں! اس حقیقت کو میں اور آپ جتنا جلدی سمجھ لیں اور سمجھ کر جتنا جلدی ہضم کر لیں‘ ہمارے لیے بہتر ہے!ورنہ بقول شاعر بس انتہا ہے چھوڑیے بس رہنے دیجیے خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں اس لیے فیصلہ کرنے والی قوتوں کو چاہیے کہ اس پر غور کریں کہ اگر پاکستان کو بچاناہے، خود کو بچانا ہے یا اس ریاست کو آگے لے کر چلنا ہے تو عوام کو عزت دینا ہوگی، عوام کی توہین کو ریاست کی توہین سمجھنا ہوگا۔تبھی ملک بچ سکتا ہے۔ کیوں کہ ملک ہے تو ہم ہیں، اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں!اور پھر اگر ہم نے اس بارے میں آج نا سوچا تو دوبارہ شاید کبھی سوچنے کا موقع ہی نہ ملے! ورنہ خاکم بدہن پھر ہمیں شاید زمبابوے، شام، سری لنکا، سوڈان ، کمبوڈیا بنتے دیر نہ لگے! اور پھر عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے طوفان اور کرپشن سے تنگ آچکے ہیں اور بھرے پڑے ہیں اُن کے ہاتھ ہوں گے اور اس اشرافیہ کا گریبان ہوگا!