مذاکرات کیلئے عمران خان سرنڈر کر جائیں!

ملکی سیاسی جماعتوں کے آپس میں مخلصانہ مذاکرات تو یقینا ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں، کوئی جماعت دوسری جماعت کا وجود برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، ایسے میں تحریک انصاف کا مذاکرت کی حامی بھرنا یقینا حیران کن ہے.... میں یہ تو نہیں کہتا کہ خان صاحب یا تحریک انصاف اسوقت ملک کے لیے شدید ضروری ہیں، اور یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اُن کے بغیر ملک نہیں چل سکتا، اور یہ بھی کبھی نہیں سوچا کہ وہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جو ملک کے لیے درد رکھتے ہیں، جو پاکستانی عوام کے لیے در د رکھتے ہیں اور پھر یہ بھی نہیں کہوں گا کہ وہ جیل میں بیٹھ کر ”ملک کو کیسے مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے“ جیسی ریسرچ پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی نہیں کہوں گا کہ دنیا میں اُن جیسا کوئی لیڈر نہیں ہے ۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ 8فروری کو عوام نے اُنہیں منتخب کیا ہے، چاہے کارکردگی کی بنیاد پر نہیں لیکن اُنہیں ہمدردی کا ووٹ ضرور ملا ہے۔ یہ بھی کہوں گا کہ جتنے بھی اُن پر کیسز کیے گئے ہیں یا نئے کیسز کیے جا رہے ہیں، اگر وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو ایک جھٹکے میں ختم ہو سکتے ہیں، یعنی اُن کی کوئی اہمیت نہیں ہے، پھر یہ بھی کہوں گا کہ 9مئی واقعات کی مکمل مگر شفاف تحقیقات ضرور ہونی چاہییں، وہ اتنے قصور وار نہیں ہوں گے جتنے بنا دیے گئے ہیں۔ پھر یہ بھی ضرور کہوں گا کہ وہ براہ راست کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہے،ہاں ! ہوسکتا ہے اُن کے ارد گرد کے لوگوں نے سیاسی و مالی فوائد لیے ہوں،،، اور وہ تو ہمارا ایک عام کلرک بھی جہاں ہاتھ صاف کرنا ہو کر جاتا ہے،،، وہ تو پھر بھی وزیر اعظم کے ارد گرد کے لوگ تھے۔ اور یہ شاید خان صاحب کی غلطی بھی ہے کہ اُنہوں نے اپنے ارد گرد اُتنی نظر نہیں دوڑائی جتنی اُنہیں اپنے قریبی ساتھیوں پر نظر رکھنی چاہیے تھی،،، خیر ہمارا کالم بانی تحریک انصاف کی مدح سرائی کرنانہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو چند ایک مشورے دینا ہے کہ وہ ملکی اور عوامی مفاد کے لیے اگر اُنہیں مزید ”سرنڈر“ کرنا پڑتا ہے تو کر جائیں،،، کیوں کہ گزشتہ روز جب چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر بانی تحریک انصاف سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے کہاہے جو ہوا معاف کرنے کو تیار ہوں، مذاکرات کے راستے کھولے جائیں، ،، سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی سے بات کرکے مذاکرات کا آغاز کریں گے، مذاکرات الائنس کی سطح پر بھی ہوں گے، پی ٹی آئی خود بھی آغازکر سکتی ہے۔برف پگھل رہی ہے ہم چاہتے ہیں حالات بہتر ہو جائیں، ہماری مذاکرات کی پیشکش کو کسی ڈیل سے تعبیر نہ کیا جائے وغیرہ....تو یقینا یہ ایک اچھی اور نیک شگن پیش رفت دکھائی دے رہی ہے،،، اور ویسے بھی جنگوں میں ایک قدم پیچھے ہٹنے کو شکست نہیں کہا جاتا ،،، بلکہ اسے ”حکمت عملی“ سے تشبیہ دی جاتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جن فاتحین نے دنیا کو فتح کیا، انہوں نے بھی کبھی نہ کبھی پسپائی اختیار کی تھی۔ سکندرِ اعظم جیسے جری سپہ سالار کا جب ہندوستان میں راجہ پورس کی فوج سے مقابلہ ہوا تو اسے بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ یہ پسپائی اس کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی جنگی حکمت کی دلیل تھی۔ اس نے نئے سرے سے منصوبہ بندی کی اور اگلے حملے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح نپولین بوناپارٹ کو بھی روس کی مہم میں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ یہ پسپائی اس کی فوج کی تباہی کا سبب بنی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نپولین نے اس تجربے سے سیکھا اور آئندہ جنگی حکمت عملیوں میں اسے مدنظر رکھا۔ پسپائی کا فیصلہ آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے جنگی حکمت‘ حالات کا درست اندازہ اور دشمن کی صلاحیتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ کبھی کبھی ایک چھوٹا سا قدم پیچھے ہٹنا دشمن کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے اور اسے کمزور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ پسپائی فوج کو دوبارہ منظم ہونے اور نئی قوت کے ساتھ حملہ کرنے کا موقع دیتی ہے۔پھر یہی نہیں بلکہ 4 دہائیوں پر محیط جنگ وجدل اور سیاسی رسہ کشی سے بھرپورزندگی گزارنے کے بعد بالاآخرافغان رہنما گلبدین حکمت یار نے 2017ءمیں مفاہمت کا راستہ اختیارکیا۔افغان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے۔ان کے حامی جن کی ایک بھاری اکثریت پاکستان میں آباد ہوچکی تھی ، وہ واپس گئے اور عام زندگی کی طرف لوگ گئے۔ آپ شکار کے متعلق کتابیں پڑھ لیں، یا ویڈیو ز دیکھ لیں،،، کہ شیر چھلانگ یا جَست لگانے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ ٹیک آف کے عمل میں زمین چھوڑنے سے قبل طیارہ بھی ایک لمحے کے پچاسویں حصے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے! اگر آپ کرکٹ کے شوقین ہیں تو دیکھا ہوگا کہ باﺅلرز بھی زیادہ قوت سے گیند کرانے کے لیے اپنے رن اپ مارک پر پہنچنے کے بعد تھوڑا سا پیچھے ہٹتے ہیں۔ گویا کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے لازم ہے کہ تھوڑا سا توقف کیا جائے‘ اپنے آپ کو سمیٹا جائے‘ اپنی صلاحیت اور سکت کا جائزہ لیا جائے اور پوری قوت کو ایک نقطے پر مرکوز کرکے بھرپور سعی کی جائے۔ اب اس حقیقت کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے؛ اگر حالات نے آپ کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ قسمت آپ کو کسی بڑے کام کے لیے تیار کر رہی ہے! لہٰذاتحریک انصاف کو بھی اگر ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، اگر اُنہیں پیغام مل رہا ہے کہ آپ 9مئی کے واقعات میں اپنی غلطی تسلیم کر لیں، تو میرے خیال میں کر لیں! کیوں کہ معاملہ اگر اَنا اور پہل کا ہے تو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کو لچک دکھا کر پہل کرنا ہو گی‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ طویل انتظار ایک راستہ ضرور ہے مگر کیا پی ٹی آئی طویل عرصہ تک انتظار کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی قیادت کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جارحیت اور تصادم کا راستہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے غیر موثر اور نقصان دہ طریقہ ہے۔ یہ تقسیم اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے ملکی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور عوام کا سیاسی عمل سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہم آہنگی اور تعاون کا ماحول مسائل کے حل کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ جب مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے جامع اور بہتر حل نکل سکتے ہیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی پیچیدہ ترین سیاسی مسائل کو حل کیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی میں نیلسن منڈیلا کی حکمت عملی اور مذاکراتی کوششوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون اور اتفاقِ رائے ہی سے وہاں مستحکم جمہوری نظام قائم ہے۔ اگرچہ سیاسی اختلافات ناگزیر ہیں مگر ان اختلافات کو جارحیت اور تصادم کے ذریعے حل کرنے کے بجائے‘ انہیں ایک موقع سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنے اور مل کر بہتر حل تلاش کرنے کا موقع ہے‘ حکمت و بصیرت سے پیچھا ہٹنا پی ٹی آئی کو دوبارہ سیاسی زندگی دے سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو یوٹرن نہیں لیتا‘ وہ اچھا قائد نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت میں ہٹلر اور نپولین کی مثال دی تھی کہ دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دونوں نے صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں انہیں شکست ہوئی۔ بہرکیف دنیا کے لیڈران میں اگر لچک نہ ہوتی تو یہ کب کی تباہ ہو چکی ہوتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکی صدر روزویلٹ، ٹرومین، روس کے اسٹالن، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال،چین میں ماﺅزے تنگ اور چو این لائی،برصغیر میں قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی،ملائشیا میں تنکو عبد الرحمن،انڈونیشا کے سویکارنو،مصر کے جمال عبد الناصر،چیکوسلواکیہ کے مارشل ٹیٹو،،شمالی کوریا کے کم ال سنگ،اور ویتنام کےہو چی من ایسے عالمی لیڈر تھے جنہوں نے اپنے ملک وقوم کی خاطر کئی بار لچک دکھائی۔اسوقت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ مزاحمت کی،حالات سے مصالحت کے بجائے ان کا مقابلہ کیا آج نہ صرف وہ اقوام سر اٹھا کر جیتی ہیں بلکہ اپنے ہیروز کا نام آتے ہی لوگ احترام سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے دو ٹوک انکار کے بجائے اس قسم کا رویہ اختیار کیا کہ انکار بھی ہوگیا اور اپنا مقصد بھی پورا کر لیا۔ لہٰذاعمران خان کے ساتھ اس وقت ملک بھر کے کروڑوں لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔عمران خان نے قوم کو اپنے حق کیلئے بولنا سکھایا ہے لوگ انہیں ہی امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں،قوم یقین رکھتی ہے کہ وہ ان کے بہتے ہوئے آنسو پونچھے گا،اور ان کے زخم پر مرہم رکھے گا۔عمران خان نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران بہت کم اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیا،،، لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ دوبارہ سٹینڈ لینے اور دوبارہ عوام کی خدمت کرنے کے لیے اُنہیں ایک بار سرنڈر کرنا چاہیے، یہی وقت کی ضرورت ہے، اُس کے بعد دیکھیے گا یقینا پوری تحریک انصاف جب اقتدار میں آگئے گی تو ان میں نکھار آ چکا ہوگا!