جنرل ضیاءالحق، عوام کے دلوں کے صدر نشیں

فیصل مسجد کے پہلو میں سبزہ زاروں کے درمیان ایک مزار ہے۔ یہ مرقد پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاءالحق (شہید) کا ہے۔ جہاں فیصل مسجد کو دیکھنے کے لیے آنے والے ہزاروں پاکستانی اور ملکی و غیر ملکی سیاح حاضری دیے اور فاتحہ پڑھے بغیر ہرگز واپس نہیں جاتے۔ جنرل ضیاءالحق شہید پاکستان کے مقبول ترین صدر اور حکمران تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستانی عوام میں جو مقبولیت حاصل کی اور جس طرح عوام نے ان سے ٹوٹ کر محبت کی اس کی مثال شاید ہی پاکستانی تاریخ میں کہیں ملتی ہو۔ 17 اگست 1988ءکو جب اچانک ان کی شہادت کی خبر نشر ہوئی تو گویا یہ پاکستانی عوام اور عالم اسلام کے کروڑوں مسلمانوں کے دل پر بجلی بن کر گری۔ جہاں پورے عالم اسلام میں ان کی شہادت کی خبر نے فضا کو سوگوار کر دیا وہاں پاکستان میں بالخصوص رنج و الم اور دکھ کے گہرے بادل چھا گئے۔ شہید اسلام صدر پاکستان محمد ضیاءالحق اس وقت ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے جب وہ ملٹری کے سی 130 طیارے میں اپنے 30 ساتھیوں کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کے لیے محو پرواز تھے۔ ان کے طیارے کو بہاولپور کے قریب حادثہ پیش آیا۔ یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو چکی ہے کہ ان کے جہاز کا اچانک کریش کر جانا ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا۔ ان کی اچانک رحلت کی خبر کو جس دکھ اور رنج و الم کے ساتھ پاکستان کے ہر گھر میں سنا اور دیکھا گیا اور پھر پاکستان کے دور دراز علاقوں سے، بڑے چھوٹے شہروں اور ملک کے طول و عرض سے جس انبوہ کثیر نے ان کے جنازے میں شرکت کے لیے اسلام آباد کا رُخ کیا، وہ منظر دیدنی اور اس بات کا ثبوت ہے کہ شہید صدر کو پاکستانی عوام میں کس قدر مقبولیت، محبت اور احترام حاصل تھا۔ وہ پاکستانی عوام کے ایسے صدر تھے جو ان کے دلوں میں ”صدر نشیں“ تھے۔ یہ مقبولیت، محبت اور احترام انھیں عوام میں اس لیے حاصل ہوا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مکمل اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کا عزم اور یقین رکھتے تھے۔ وہ آج کے حکمرانوں کی طرح ”ریاست مدینہ“ کا ذکر صرف اپنی تقریروں اور خطابات میں ہی نہیں کرتے تھے بلکہ انھوں نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی وطن عزیز کے سماجی، معاشی اور قانونی سٹرکچر کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ شہید صدر کے جنازے میں شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا گیا۔ پی ٹی وی کے جناب اظہر لودھی مرحوم جنازے کی کوریج کرتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہو گئے۔ لوگ جنازے میں شرکت کے لیے میلوں لمبے جلوس میں پیدل چل کر جنازہ گاہ کی طرف جا رہے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاءالحق پاکستانی عوام کے دلوں میں بستے تھے، بستے ہیں اور ہمیشہ عوام کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ابھی چند دن پہلے پاکستان کے ایک سابق صدر کے انتقال کی خبر آئی، جسے عوام نے نیوز بلیٹن میں معمول کے مطابق نشر ہونے والی خبر سے زیادہ اہمیت اور توجہ نہ دی اور پھر جس خاموشی اور مختصر سی نمازِ جنازہ کے بعد ان کی تدفین کر دی گئی۔ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آ جاتی ہے کہ کسی ملک کا صدر ہونا زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ کسی ملک کے عوام کے دلوں میںصدر نشیں ہونا ہی اصل اہمیت کا حامل ہے اور جب دلوں میں براجمان کوئی شخص دنیا سے جاتا ہے تو پھر لوگ اسی طرح رنج و الم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں جس طرح صدر (جنرل) محمد ضیاءالحق شہید کے جام شہادت نوش کر جانے کے بعد پاکستان کے مرد و زن، طالب علموں، بچوں بوڑھوں اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر طبقے کے افراد نے کیا۔ صدر ضیاءالحق کو عوام میں یہ مقبولیت کیوں اور کس طرح حاصل ہوئی؟ اس کا سیدھا اور سادہ جواب تو یہ ہے کہ عوام کے صدر تھے، کسی خاص گروہ، جماعت یا اشرافیہ کے صدر نہ تھے بلکہ وہ پاکستان کی عام ”عوام“ کے صدر تھے اور یہ مقبولیت انھیں اپنی ذاتی زندگی کی خوبیوں، یعنی سادگی، ملنساری، اسلام پسندی، قناعت، حسن اخلاق، تقویٰ و پرہیزگاری اور سخاوت جیسے اوصاف کی موجودگی کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے، اسلام کے لیے اور وطن عزیز پاکستان کے لیے ان کی بے پناہ اور مخلصانہ کوششوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے جس یقین اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے وہ صدر محمد ضیاءالحق کو ہمیشہ حاصل رہا۔ وہ عوامی صدر تھے اور یہ رُتبہ اور اعزاز انھیں آخری دم تک حاصل رہا۔ بھارت کے شہر جالندھر کے مضافات کی ایک بستی ”شیخ درویش“ کے ایک متوسط گھرانے میں 12 اگست 1922ءکو پیدا ہونے والا یہ ”درویش صفت“ شخص جسے آج دنیا ”جنرل محمد ضیاءالحق“ کے نام سے جانتی ہے، جو آگے چل کر پاکستان کا صدر بنا، ان کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے تھا۔ ان کے والدین سچے، کھرے اور سیدھے سادے لیکن راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن سے ہی صوم و صلوة کے پابند تھے۔ اپنے گھر کے مذہبی ماحول نے ضیاءالحق کو بھی مذہبی روایات کا پابند بنا دیا تھا۔ پھر وہ ساری زندگی ان روایات پر کاربند رہے اور ہمیشہ نماز، روزے اور دیگر مذہبی امور کی پابندی کی۔ پہلی سے چوتھی جماعت تک کی تعلیم انھوں نے جالندھر کی قریبی بستی کے ایک پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ پھر گورنمنٹ ہائی اسکول شملہ میں داخل ہوئے اور یہاں وہ بوائے اسکاﺅٹ تحریک میں شامل ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دوسری عالمگیر جنگ کی وجہ سے انھیں اس وقت تعلیم کو خیر آباد کہہ کر انڈین آرمی میں کمیشن لینا پڑا جب وہ سالِ چہارم کے طالب علم تھے۔ اگست کا مہینہ ان کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی پیدائش اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو، ان کی شہادت اسی ماہ کی 17 تاریخ اور ماہِ اگست ہی کی 15 تاریخ کو ان کی شادی اپنی خالہ زاد شفیق ضیا سے 1950ءمیں ہوئی۔ ان کی زوجہ محترمہ مرحومہ بیگم شفیق ضیا کا کہنا ہے کہ میں نے شادی کے وقت سے ہمیشہ انھیں نماز کی پابندی کرتے دیکھا۔ وہ گرمیوں سردیوں میں رمضان المبارک کے روزے پابندی اور اہتمام و ذوق سے رکھتے اور تہجد کی نماز پابندی سے پڑھتے۔ ان کی ذاتی زندگی میں ایک خاص نظم و ضبط اور ڈسپلن کا عنصر نمایاں تھا۔ وہ بظاہر سخت گیر اور کرخت نظر آتے لیکن وہ ایسے ہرگز نہ تھے۔ وہ رحم دل اور نرم مزاج تھے، دوسروں کے دکھ درد بانٹنے والے، اپنے بچوں اور اہل خانہ سے بے حد پیار کرنے والے تھے۔ انصاف پسندی ان کے مزاج کا ایک خاص حصہ تھی۔ وہ بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور اپنے قریبی لوگوں سے یکساں سلوک روا رکھتے۔ اپنے ہمسائیوں، خدمت گاروں اور ماتحت عملے سے نرم مزاجی اور محبت سے پیش آتے، انہوں نے کبھی کسی سے زیادتی اور سختی نہ کی۔ انھیں مارچ 1976ءمیں جنرل کے عہدے سے ترقی دے کر بری فوج کا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا۔ 5 جولائی 1977ءانہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک سخت گیر حکمران تھے۔ اس وقت ملک میں بھٹو کی پالیسیوں کے خلاف ملک گیر مہم چل رہی تھی اور وطن عزیز انتشار اور بدامنی کا شکار تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطاب میں بہت حقیقت پسندانہ انداز میں قومی مسائل کی نشاندہی کی۔ جس سے عوام میں ایک مسرت اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور جب انھوں نے قوم سے ملک کو از سر نو جمہوری راہ پر ڈالنے اور جلد از جلد شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تو لوگوں نے ان کے اس عزم کو سراہا۔ ان کے لہجے کے عزم اور سچائی کو ناقدین نے بھی تسلیم کیا۔ کسی کے دل میں جگہ بنا لینا آسان کام نہیں۔ ان کی ذات میں جو انکساری اور عاجزی تھی، وقار اور بردباری تھی وہ انھیں دوسرے حکمرانوںسے منفرد کرتی تھی۔ تحمل اور برداشت کے ساتھ اپنے مخالف کی بات کو بھی مسکرا کر سن لینا ان کا خاصا تھا۔ یہی وصف تھے کہ وہ لوگوں کے دلوںمیں گھر کرتے گئے لیکن عوام الناس نے ان سے محبت صرف ان کی ذاتی صفات کی وجہ سے نہیں کی بلکہ پاکستان کے لیے ان کی خدمات اور نفاذِ اسلام کے لیے ان کی کوششوں نے بھی عوام کے دلوں میں ان کے عزت و احترام میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ان کے دورِ اقتدار میں جس قدر خلوص اور نیک نیتی سے پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی، ویسی کوشش اور جدوجہد دوبارہ کبھی نظر نہ آئی۔ ایک وقت میں تو ایسا لگتا تھا کہ پاکستان اب درست سمت میں گامزن ہے اور یہاں بسنے والے مسلمان اپنی زندگی اس صاف شفاف اور ستھرے اسلامی معاشرے میں گزارنے کے قابل ہو جائیں گے جس کے لیے یہ ملک معرضِ وجود میں آیا تھا۔ جنرل محمد ضیاءالحق نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی اپنی شاندار کارکردگی سے فوج میں جنرل اور بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہوئے۔ وہ بہاولپور میں فوجی جہاز کے حادثے میں شہادت تک چیف آف آرمی سٹاف رہے۔ اس عہدے پر عسکری تاریخ میں وہ سب سے طویل عرصہ یعنی ۲۱ برس تک متمکن رہے۔ اس دوران انھوں نے فوج کو پیشہ ورانہ طور پر بہت مضبوط کیا۔ وہ جب بھی اپنے سپاہیوں یا افسروں سے خطاب کرتے تو ان کی تقریر میں قرآن پاک کے حوالے ہوتے جس سے ان کی بات لوگوں کے دلوں میں اُتر جاتی اور اس سے ان کی مذہبی وابستگی کا اظہار بھی ہوتا۔ انہوں نے ہمیشہ سپاہیوں کی عسکری تربیت اور ان کے فلاح اور بہبود کے منصوبوں کو اوّلیت دی۔ یہی وجہ تھی کہ فوج میں ان کے احکامات کو خوش دلی سے بجا لایا جاتا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل محمد ضیاءالحق نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی بھرپور مدد کی۔ 1975ءمیں انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مدد کے لیے دو اعلیٰ فوجی افسران لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر خان اور میجر جنرل انیس علی سیّد کی خدمات ڈاکٹر صاحب کے سپرد کیں۔ بحیثیت فوجی جرنیل انھوں نے اپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز رکھی کہ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں کہوٹہ میں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں، لیکن اقتدار کی راہداریوں میں بھی انھوں نے ایٹمی حصول کے پروگرام کو فراموش نہیں کیا اور ہر طرح کی حمایت اور وسائل ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کو مہیا کیے۔ ان کے انہی کارناموں اور اقدامات کی وجہ سے انھیں عوام نے اپنے دل میں بسا لیا تھا۔ اسلام سے ان کی گہری وابستگی انھیں عالم اسلام میں اور بین الاقوامی اسلامی اداروں میں مقبول بناتی ہے۔ مسلمان سربراہ کی حیثیت سے ان کا کردار مثالی تھا۔ وہ عالم اسلام میں قوت کا سرچشمہ سمجھے جاتے تھے۔ پاکستان سمیت تمام مسلمہ اُمہ میں انہیں اسلام کا سچا اور باکردار سپاہی سمجھا جاتا تھا۔ اُمت مسلمہ انھیں اس لیے بھی پسند کرتی تھی کہ وہ دنیا کی بہترین عسکری قوت کے سربراہ بھی تھے۔ پاکستان کی فوج کے سپہ سالار کی اور پاکستان کے سربراہ کی حیثیت میں انھوں نے مسلم اُمہ میں اتحاد اور یگانگت کے لیے لازوال جدوجہد کی۔ فلسطین اور افغانستان کے عوام انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ یہ حقیقت کس سے چھپی ہے کہ انھوں نے کس خوش دلی سے 35 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی۔ انھیں پاکستان میں پناہ دی، یہ الگ بات ہے کہ آج افغانستان کے عوام احسان فراموشی میں سب سے آگے ہیں اور پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق پہلے پاکستانی سیاست دان تھے جنھوں نے پاکستان کو ایک مضبوط اسلامی ریاست بنانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو شب و روز صرف کیا۔ انھوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ اگر ایمان کی قوت اور سچے جذبے سے ارادہ کیا جائے تو روس جیسی سپر پاور کو بھی ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے 25 دسمبر 1977ءکو قوم سے اپنے خطاب میں فرمایا ”پاکستان کے بنیادی نظریہ کو کمزور کرنا پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں کسی غیر ملکی نظریے کو شامل کرنا اس کا حلیہ بگاڑنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں اسی نظریہ پر قائم رہنا ہے جو نظریہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے پیش کیا تھا“ جنرل ضیاءالحق مسلم امہ کے روشن اور چمکتا دمکتا ستارہ تھے۔ جنھوں نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ، عالم اسلام میں اتحاد اور یگانگت کے لیے بے پناہ کوششیں کیں۔ ان کا وجود ہر طرح کی کرپشن سے پاک تھا، انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اگر کچھ چرایا یا لوٹا تو وہ لوگوں کی محبت چرائی لوگوں کے دل لوٹے، ان کی ذات پر حکمران کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کا ایک بھی الزام نہیں۔ اگر آپ ان کی ذات پر کوئی الزام دھرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی مسکراہٹ سے مخالفین کے دل بھی ”چرا“ لے جاتے تھے اور خود بلااجازت ہی لوگوں کے دلوں میں جا سماتے تھے۔ وہ پاکستان کے ایسے صدر تھے، جو عوام کے دلوں کی محفل میں ”صدر نشیں“ تھے۔ اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے، عجب آزاد مرد تھا، جس کی محبت میں پاکستانی عوام اب بھی قید ہیں۔