کورونا کے نام پر مذہبی پا بندی قبول نہیں !

دنیا میں خوف کے سائے پھیلانیوالے خوفناک وائرس کرونا کے وارجاری ہیں، اس موذی مرض کاشکار بننے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافے نے کرہ ارض کی واحد سپر پاورامریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کو ہلاکررکھ دیاہے،اس بیسویں صدی کی نئی وبا کے سامنے تمام ترقیافتہ ممالک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ہیں،کورونا وائرس کی ویکیسین اورعلاج کے دعوے بھی تاحال دعوے ہی ہیں اور موت کا ایسا خونی کھیل جاری ہے کہ جس میں حضرت انسان مکمل طور پر پسپا ہو چکا ہے،تاہم ایک در توبہ استغفار کا ابھی کھلا ہے ،اگر رب ذلجلال کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں اور کتاہیوں کی سچے دل سے معافی مانگ لی جائے تواللہ تعالی کی مدد شامل حال ہونے سے ہر وباسے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ کورونا وبا قدرت کی جانب سے حضرت انسان کیلئے بڑی آزمائش ہے ،اس آزمائش سے نکلنے کیلئے احتیاطی تدابیر واعلاج جہاں ناگزیر ہے ،وہیں اپنی کوتاہیوں پر توبہ استغفار بھی لازم ہے ،لیکن ہم بحیثیت مسلمان توبہ کے لازمی عمل سے نہ صرف غافل ہیں،بلکہ عالمی وبا کی آڑ میں مذہب پر پابندیاں بھی لگارہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے رمضان المبارک سے متعلق جو اعلان ہوا ہے، اس کے مطابق مساجد میں اعتکاف، سحری اور افطاری پر پابندی ہوگی، ایک بار پھر نماز کی صفوں میں چھ فٹ کا فاصلہ اور مساجد کے ہال کے اندر نماز پر پابندی ہوگی، قالین اور دریاں بھی نہیں بچھائی جائیں گی۔ اس کے ساتھ 6 اپریل سے دو ہفتے کے لیے تعلیمی ادارے بند کیے جائیں گے، یعنی وہی سب کچھ شروع ہو گیا جو گزشتہ برس کیا گیا تھا،گزشتہ برس بھی انتظامیہ نے اپنی کار گزاری مذہبی مقامات اور تعلیمی اداروں پر پابندی لگا کر دکھائی تھی ،اس بار بھی انہیں دونوںجگہوں پر قانون کی عملداری دکھا کر خانہ پری کی جائے گی۔ دنیا کے کسی ملک میں عالمی وبا کے خلاف کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے،دنیا بھر میںسب سے زیادہ ویکسین لگانے والے اور سب سے زیادہ سائنس اور میڈیکل سائنس جاننے والے ملکوں میں حالت نہایت خراب ہے۔ امریکا اور بر طانیہ میں ریکارڈ ہلاکتیں ہوئی ہیں، اس کے علاوہ بھی دیگر ترقیافتہ ممالک میں طویل عرصے سے سب کچھ بند ہے،لیکن پھر بھی وہاںمریضوں کی تعداد میں اضافہ اور ہلاکتیں ہورہی ہیں ،لیکن یہ ممالک اپنی سیاست میںکورونا وبا کو اس طرح استعمال نہیں کرتے کہ جس طرح پاکستان میںکیا جاتا ہے، پاکستان میں تو اس وباکو وفاق اور صوبے سندھ اپنے سیاسی جھگڑے کے لیے استعمال کررہاہے، وفاق پابندی کی بات کرتا ہے تو صوبہ تیار نہیں ، وفاق جب رعایت دیتا ہے تو صوبہ ازخود پابندی لگا دیتا ہے ، اس سیاست کے کھیل میں کورونا وباکو بھی شامل کرلیا گیا ہے جو فنڈز کے حصول تک جاری رہتا ہے اور فنڈ کے حصول کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔کورونا وبا کی بڑھتی شدت میں احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن اس وبا کی آڑ میں مذہبی اجتماعات، مساجد اور نمازوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے،مارکیٹوں کے اوقات کار محدود کیے جاتے ہیں،تعلیمی ادارے بند کر دئے جاتے ہیں ،یہ سب کچھ کرکے حکومت سمجھتی ہے کہ کورونا وبا پر قابو پا لے گی ،جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے،حکومت اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے عہدا برا نہیں ہورہی ہے، اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے ، اسپتالوں میںصفائی سے لے کرعملے کی عدم دستیابی تک برا حال ہے ،ملک کے بیشتر اسپتالوں میںعملے کی کمی کے ساتھ تربیت یافتہ عملے کا فقدان ہے ، ادویات نہ حفاظتی سہولیات میسر ہیں،تربیت یافتہ ڈاکٹر پرائیویٹ اسپتالوں میں خدمات دے رہے ہیں ،جبکہ سفارشی عملہ سرکاری اسپتالوں میںموت بانٹ رہے ہیں ، حکومت شعبہ صحت کے نظام کو بہتربنانے کی بجائے ایس او پیز کی آڑ میں صرف مذہب اور تعلیمی اداروںپر پا بندیاں لگانے میں لگی ہے۔ خوش قسمتی سے کورونا وائرس کی دونوں لہروں میں ہمیں اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ جتنا اِس وبا کی وجہ سے کئی ایک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں ہوا ہے، اس لیے حکومت اور انتظامیہ لاک ڈاﺅن اور کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے مزید سختی کر رہی ہیں ،کیو نکہ ملک بھر میں ہر فرد کو کورونا سے بچاﺅ کی ویکسین لگنے تک احتیاطی تدابیر ہی بچاﺅکا ذریعہ ہے،لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو سوا سال سے پوری دنیا کو اس وبا کے سہارے کنٹرول کیا جا رہا ہے،کورونا وبا کے بارے میں ۔ پچھلی تحقیق کو بھول کرہر روز نئی بات کہی جاتی ہے، اب ویکسین پر سیاست ہو رہی ہے، حکومت نہایت اسمارٹ اقدامات کر رہی ہے،اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسے عوام کی بہت فکر ہے، لیکن اگر عملی اقدامات دیکھے جائیںتو ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ یہ بات کچھ عرصے بعد ہی پتا چلے گی کہ ویکسین سے لے کر ماسک اور وینٹی لیٹر تک وزراءنے کتنا مال بنایا ہے ، سارے اقدامات عوام کے خلاف ہوئے اور سارا جرمانہ عوام نے ہی ادا کیا ہے۔ کورونا وباکی ایک کے بعد ایک شدید لہرکی دھائی ہے،لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس انداز میں ردعمل نہیں آرہا کہ جس شدت سے آنا چاہیے ،بلکہ مختلف اعتراضات کیے جا رہے ہیں،اگرحکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسپتالوں میں تر بیت یافتہ عملے کے ساتھ حفاظتی آلات اور آکسیجن سلینڈرز فراہم کرے اور ساری دنیا سے ویکسین کی بھیک نہ مانگی جائے،عوام کو ہر قسم کی ویکسین لگا کر تجر بات کی بھینٹ چڑھانا درست عمل نہیں ہے، ایک عرصے سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان مقامی طور پر ویکسین بنانے کے قریب پہنچ گیا ہے،لیکن پاکستان ویکسین بنانے کے قریب پہنچ کر بھی ویکسین نہیں بنا سکا ہے، یہ سارے معاملات بتا رہے ہیں کہ اصل مسئلہ کورونا نہیں،بلکہ وبا کے نام پر مفادات سمیٹناہے،آخر کب تک عوام کو یو نہی بے وقوف بنایا جاتا رہے گا،کورونا قدرتی وبا ہے ،اس کا حقیقی اعلاج توبہ استغفار میں پو شیدہ ہے ، حکومت مذہبی مقامات پر پا بندیاں لگانے کی بجائے، انہیں آباد کرتے ہوئے اللہ تعالی کو راضی کرنے کی کوشش کرے ،حکومت جب تک اپنی قبلہ درست نہیں کرے گی ،تب تک ملک و عوام کی بھلائی اور کو رونا سے نجات ممکن نہیںہے۔