صحافی كالونی كے نام پر صحافیوں سے فراڈ

پاكستان میں اہل حكومت كا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے كہ وہ ان قوتوں كو نوازتے ہیں جو ان كی حكومت كے قدم مضبوط كرنے اور اسے دوام بخشنے كے لیے ان كے ممد و معاون ثابت ہوں۔اس كے لیے وہ مختلف اوقات میں منظم گروپس كی حمایت حاصل كرنے كی خاطر عوامی مفاد كے نام پر مختلف منصوبوں كا اعلان كرتے ہیں۔لیكن جب ان حكومتوں كے برے دن آتے ہیں تو پھر ان كے سارے منصوبے دھرے كے دھرے رہ جاتے ہیں۔كل كے حكمران آج كے محكوم ٹھہرتے ہیں۔ جیلوں میں بند جیلوں سے باہر آجاتے ہیں اور باہر والے اندر كر دیے جاتے ہیں۔گزشتہ76 برسوں سٌے ملك عزیزمیں یہی چكر دیكھنے كو مل رہا ہے۔ یہ سن 2005 كی بات ہے ۔ اس وقت جناب چودھری پرویز الٰہی ایك فوجی ڈكٹیٹر كے دور میں پنجاب كی كرسی وزارت عالیہ پر رونق افروزتھے۔ صحافی حضرا ت كا ایك وفد انھیں ملتا ہےاور لاہور میں صحافی كالونی بنانے كا مطالبہ كرتا ہے۔ پنجاب كے تخت نشیں كمال فیاضی كا مظاہرہ فرماتے ہیں۔ریونیو ڈیپارٹمنٹ پنجاب كے كرتا دھرتاؤں كو فوری طور پر سركار ی رقبہ ڈھونڈ نے كا حكم دیتے ہیں ۔ وقت كے سیكریٹری كالونییز ،پنجاب، شاہ سے زیادہ شاہ كے وفادار بنتے ہوئے تجویز دیتے ہیں كہ موضع ہربنس پورہ، لاہور میں سنٹرل گورنمنٹ (سابقہ متروكہ) كا رقبہ تعدادی 952 كنال اور 15 مرلہ موجود ہے۔ اس پر صحافی كالونی بنا دی جائے تو مناسب ہو گا۔تجویز منظور كر لی جاتی ہے ۔شہنشاہ وقت حكم دیتے ہیں كہ صحافی حضرات كو یہ رقبہ بحساب =/ 35000 روپے فی مرلہ فروخت كر دیا جائے ۔ اس طرح سیكریٹری كالونیز كے حكم سے رقبہ مذكورہ بالا بروئےانتقال نمبری 22928 مورخہ 23-ستمبر 2005 پنجاب جرنلسٹ ہاوسنگ فاونڈیشن كو منتقل كر دیا جاتا ہے ۔یوں سیكریٹری كا لونیز صاحب حاكم وقت كے ہاں سرخرو ہو جاتے ہیں۔اور اپنا مستقبل محفوظ بنا لیتے ہیں۔حالاں كہ موصوف كے پاس ایسا كرنے كا كوئی قانونی اختیار نہیں ہوتا ہے۔ كیونكہ یہ رقبہ سنٹرل گورنمنٹ (سابقہ متروكہ) كا تھا اورحسب قانون اس كی ڈسپوزل كا اختیار جناب چیف سیٹلمنٹ كمشنر/ نوٹیفائیڈ افسر كے پاس تھا اور ہے۔ اس غیر قانونی اقدام كی روشنی میں وزیر اعلیٰ صاحب كے حكم پر ایل ڈی اے ڈویلپمنٹ كا كام مكمل كرتی ہے ۔ فاونڈیشن مذكور بیلٹنگ كے ذریعے صحافی حضرات كو پلاٹ الاٹ كرتی ہے۔ موقع پر كچھ صحافی حضرات تو گھر بنا لیتے ہیں ، اور كچھ الاٹ شدہ پلاٹ دیگر لوگوں كو فروخت كر دیتے ہیں ۔ ہمارے ریونیو ڈیپارٹمنٹ (میرا سابقہ محكمہ)كی نا اہلی ملاحظہ فرمائیے كہ اس رقبہ پر پہلے سے بنی ہوئی دو عدد پرائیویٹ رہائشی سكیموں —پیراڈائزپوائنٹ اور آصف ٹاون---كو بھی صحافی كالونی میں شامل كر لیا جاتا ہے۔حالاں كہ ہر دو سكیموں میں سولنگ لگے ہوئے تھے، بجلی چالو حالت میں تھی اور سیوریج سسٹم بھی موجود تھا۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ صحافی كالونی بننے سے ایك دن پہلے تك ان كالونیوں كے پلاٹوں كی رجسٹریاں پاس كر رہا تھا اور ان كے انتقالات بھی تصدیق كر رہا تھا۔پیراڈا ئیزپوائنٹ میں بنے ہوئے چند گھروں میں لوگ رہائش پذیر تھے ،جب كہ آصف ٹاون میں ایك كثیر تعداد میں لوگ گھر بنا كر ان میں رہا ئش پذیر تھے۔ان دونوں كالونیوں میں زیادہ تر پانچ پانچ مرلہ كے پلاٹ تھے ۔ یہ پلاٹ سوسا ئٹی مالكان نے لوگوں كو اقساط پر بیچے تھے۔جب ریونیو ڈیپارٹمنٹ كو پتہ چلتا ہے كہ ان كے گلے میں پھندا پڑنے والا ہے تو ڈی او (ریونیو) ،جو اس وقت ڈسٹركٹ كلكٹر ، لاہور، ہوا كرتے تھے، ان دونوں كالونیوں كے رہائشیوں كے نام كیے گئے انتقالات منسوخ كردیتے ہیں۔ جب كہ ان لوگوں كی رجسٹریاں ابھی تك قائم و دائم ہیں، كیوں كہ انہیں منسوخ كرنے كا اختیار صرف اور صرف عدالت دیوانی كے پاس ہے۔انہیں تادم تحریركسی بھی دیوانی عدالت میں چیلنج نہیں كیا گیا ہے ۔ جب حكومت مذكورہ بالا دونوں رہائشی سكیموں میں بنے ہوئے گھروں اور دیگر تعمیرات كو مسمار كرنے كی كوشش كرتی ہے تو ان كالونیوں سے پلاٹ خریدنے والے متاثرین لاہور ہائی كورٹ سے رجوع كر لتے ہیں۔ عدالت مذكور كا ڈویژن بینچ آئی سی اے نمبر:272/06 میں بروئے حكم مورخہ 10- دسمبر 2009 معاملہ فیصلہ كے لیے چیف سیٹلمنٹ كمشنر كو بھجوا دیتا ہے۔ جناب چیف سیٹلمنٹ كمشنر بروئے فیصلہ مورخہ 20-اپریل 2010 صحافی كالونی كے نام تصدیق شدہ انتقال نمبری 22928 مصدقہ 26-ستمبر 2005 اس بنا پر منسوخ كر نے كا حكم دیتے ہیں كہ كالونیز ڈیپارٹمنٹ ، بورڈ ٓف ریونیو، پنجاب كے پاس سیٹلمنٹ كی زمین كسی كو دینے كوئی اختیار نہیں ہے۔ ریونیو اٹھارٹیز مذكورہ بالا انتقال كو عدالتی حكم پر مورخہ 24-جنوری 2019 كو منسوخ كر دیتی ہیں ۔ اس طرح پوری صحافی كالونی كا رقبہ دوبارہ سے سنٹرل گورنمنٹ (سابقہ متروكہ) كا ہو جاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا كہ حكومت كا لونیز ڈیپارٹمنٹ ، بورڈ ٓف ریونیو كے متعلقہ افسران سے یہ پوچھتی كہ جب ان كے پاس اختیار ہی نہیں تھا تو انہوں نے نمبر ٹانگنے كے لیے زمین صحافی كالونی كو غیر قانونی طور پر كیوں الاٹ كی؟۔ ان كے خلاف انكوائری ہوتی۔ انہیں یہ غلط كام كرنے كی سزا ملتی۔ان كے خلاف صحافی برادری كے خلاف فراڈ كرنے كی پاداش میں مقدمہ بھی درج ہوتا۔ لیكن انہیں پوچھنے كی كسی كو بھی جرات نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی ریونیو ڈیپارٹمنٹ كے ان اہلكاروں اور افسران كے خلاف كوئی تادیبی كاروائی كی گئی ،جو سركاری رقبہ كی فردیں جاری كرتے رہے، ان پر رجسٹریاں پاس كرتے رہیں اور انتقال بھی تصدیق كرتے رہے ۔ نہ ہی ان ریونیو افسران و اہلكاران كے خلاف كوئی كاروائی كی گئی جنہوں نے وقت كے وزیر اعلی كو رقبہ كی كیفیت كے بارے میں غلط اور گمراہ كن رپورٹ دی۔اگر وہ حكومت كو مبنی بر حقائق رپورٹ دیتے تو حكومت متنازعہ رقبہ (بی ۔بلاك والا ) كبھی بھی صحافی كالونی كو الاٹ نہ كرتی۔ یاد رہے یہ دونوں پرائیویٹ كالونیاں اب بھی بی۔ بلاك صحافی كالونی میں موجود ہیں۔ سن 2005 سے متاثرین كی طرف سے دائر كردہ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نتیجے كے طور پر جن صحافیوں كو بی بلاك میں پلاٹ الاٹ ہوئے تھے وہ خواہ مخواہ خجل ،خراب اور پریشان ہو رہے ہیں۔ ان كا پرسان حال كوئی نہیں۔ ان میں سے اگركچھ لوگ پلاٹوں كو بیچنے كی كوشش كرتے ہیں تو انھیں اونے پونے ریٹ كی پیش كش ہوتی ہے۔اور اگر وہ گھر بنانے كی كوشش كرتے ہیں تو عدالتوں كے حكم امتناعی آڑے آجاتے ہیں۔پھر پولیس ہیلپ لائن 15 پر كال چلتی ہے۔موقع پر پولیس وارد ہو جاتی ہے۔ بندے اٹھا كر لے جاتی ہے اور پھر انھیں شاید كچھ نذرانہ لیے بغیر ہی انسانی ہمدردی كی بنیاد پر رہا بھی كر دیتی ہے۔یہ صحافی بھائیوں كے ساتھ فراڈ نہیں تو اور كیا ہے؟ لیكن صحافی بھائیوں كو اس فراڈ كی سمجھ نہیں آرہی ۔ اگر سمجھ آر ہی ہوتی تو وہ حكومتوں سے یہ ضرور كہتے كہ انہیں كوئی متبادل جگہ دے دی جائے ۔ یا ان كے مسئلے كا كوئی مستقل اور پائیدار حل نكالا جائے۔ان كا قصور كیا ہے كہ وہ گذشتہ انیس سال سے خواہ مخواہ كے عذاب میں پڑے ہوئے ہیں؟ تكلیف دہ امر یہ ہے كہ جناب چیف سیٹلمنٹ كمشنر صاحب نے اپنے حكم مورخہ 20-اپریل 2010 میں نہ صرف صحافی كالونی كو دیے گئے رقبہ تعدادی 952 كنال 15 مرلہ كاانتقال منسوخ كرنے كا حكم دیا بلكہ كل رقبہ پر موجود قابضین كو ناجائز قابض بھی ڈیكلیر كر دیا۔ انہیں یہ بھی پیش كش بھی كر ڈالی كہ وہ حكومت سے رقبہ خرید لیں۔ صحافیوں سے كہا گیا كہ وہ ڈسٹركٹ پرائس اسیسمنٹ كمیٹی كے طے كردہ ریٹ كے مطابق اپنے زیر قبضہ رقبہ خرید سكتے ہیں ۔جب كہ بقیہ ناجائز قابضین سے یہ كہا گیا كہ وہ ماركیٹ كی موجودہ قیمت كے ساتھ 50% جرمانے كے ساتھ اپنے زیر قبضہ رقبہ كو خرید سكتے ہیں۔حكم مذكورہ بالا كی روشنی میں ڈسٹركٹ پرائس اسیسمنٹ كمیٹی ، لاہور نے اپنی میٹنگ مورخہ 15-جون 2010 میں زیر بحث رقبہ كی فی مرلہ قیمت مبلغ =/1،50،000 روپے طے كی۔صحافی حضرات نے اس حوالے سے كوئی بھی تحرك نہ كیا ،كیونكہ انہیں ان كی صحافتی تنظیموں اور مختلف حكومتوں كی طرف سے مختلف اوقات میں دیے گئے مختلف لولی پاپ ایسا كرنے سے روكتے رہے۔ وہ خوابوں كی دنیا میں مست خواب خرگوش كے مزے لوٹتے رہے۔ جب كہ دوسرے ناجائزقابضین نے چیف سیٹلمنٹ كمشنر صاحب كے مذكورہ بالا فیصلہ كو بروئے رٹ پیٹیشن نمبری : 146-آ ر،اور 147-آر لاہور ہائی كورٹ میں دوبارہ چیلنج كر دیا۔ عدالت نے بروئے حكم مورخہ 29-نومبر 2016 كو پرائیویٹ قابضین كو لگایا گیا جرمانہ معاف كردیا اور مقدمہ دوبارہ چیف سیٹلمنٹ كمشنر كو برائے فیصلہ بھیج دیا۔ حالات نے پلٹا كھایا۔اس وقت كے چیف سیٹلمنٹ كمشنر صاحب نے فریقین كی توقعات كے برعكس ایك عجیب و غریب فیصلہ سنایا۔ انھوں نے بروئے حكم مورخہ 20 -اكتوبر 2023 جناب ڈپٹی كمشنر ،لاہور كو حكم دیا كہ كل رقبہ تعدادی 952 كنال 15 مرلہ كوبذریعہ نیلام عام فروخت كر دیا جإئے ۔ اور سب سے زیادہ آنے والی بولی پر قابضین كو بطور ''پہلا حق '' رقبہ خریدنے كی پیش كش كی جائے ۔ موصوف نے اسی حكم كے پیرا نمبر :59 میں یہ بھی تحریر كیا كہ ان كے علم میں یہ بات بھی آئی ہے كچھ الاٹی صحافیوں نے الاٹ شدہ پلاٹ غیر قانونی طور پر دیگر افراد كو فروخت كر دیے ہوئے ہیں ۔اس امر كی بھی انكوائری كی جائے ۔اور ایسا غیر قانونی كام كرنے والوں كے خلاف بھی قانونی كاروائی عمل میں لائی جائے ۔ چیف سیٹلمنٹ كمشنر صاحب مذكورہ بالا فیصلے كے خلاف پیراڈائز ہاوسنگ سكیم ،آصف ٹاون اور دیگر پرائیویٹ ناجائز قابضین نے پھر سے ایك رٹ نمبری: 32149/2021 لاہور ہائی كورٹ میں دائركردی ۔ جس كا فیصلہ جناب جسٹس طارق سلیم شیخ نے مورخہ 15-دسمبر 2023 كو سنایا ۔ اس فیصلے كی رو سے جناب چیف سیٹلمنٹ كمشنرصاحب كا رقبہ كو نیلام عام كرنے والا حكم منسوخ كر دیا گیا۔ اور معاملہ دوبارہ سے چیف سیٹلمنٹ كمشنر كو 60 دن كے اندر اندر نمٹانے كے لیے بھیج دیا گیا،تاكہ وہ رقبہ تعدادی 952 كنال 15 مرلہ كے ریٹ كا تعین كریں ، اور ناجائز قابضین (صحافی حضرات اور دیگر ناجائز قابضین ) سے مقررہ ریٹ وصول كر كے ان كے زیر قبضہ رقبہ ان كو بیچ دیں۔ ساتھ ساتھ ایڈووكیٹ جنرل پنجاب سے یقین دہانی بھی لی گئی كہ ہائی كورٹ كی طرف سے جاری كردہ حكم امتناعی كی روشنی میں موقع پر كسی بھی شخص كو بھی تعمیراتی كام نہ كرنے دیں۔ تازہ ترین صورتحال كے مطابق اب یہ كیس بورڈ آف ریونیو كے بینچ نمبر :1،كے روبرو زیر سماعت ہے۔ اس بینچ نے لاہور ہا ئی كورٹ كے حكم مورخہ 15-دسمبر 2023 كی روشنی میں مقبوضہ زمین مذكورہ بالا (صحافی كالونی كے بلاك۔اے، بی اور سی)كی فی مرلہ قیمت طے كرنی ہے ۔اگر بورڈ كوئی قیمت طے كرتا ہے تو یقینی طور پرصحافی حضرات، پیراڈائز سكیم ، آصف ٹاون اور دیگر ناجائز قابضین كو پیش كش كی جائے گی كہ وہ حكومت سے مقررہ قیمت پر رقبہ خرید لیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ اگر صحافی حضرات نے بھی دیگر ناجائز قابضین والے نرخوں پر سركار سے رقبہ خریدنا ہے تو انھیں صحافی كالونی بنوانے كا كیا فائدہ ہوا؟ كیا یہ ان كے ساتھ فراڈ نہیں ہے؟ جو صحافی حضرات موقع پر مكان بنا كر رہائش پذیر ہیں۔ان كے پاس زیر قبضہ زمین كا كوئی ملكیتی ثبوت نہ ہے۔ ان كے پاس جو الاٹمنٹ لیٹر ہیں ان كی قانونی حیثیت بھی كوئی نہیں ہے كیوں كہ ان كی بیك پر جو انتقال تھا وہ تو منسوخ ہو چكا ہے۔ اورپورا رقبہ سنٹرل گورنمنٹ كو واپس جا چكا ہے۔ مزید یہ كہ جن لوگوں كو صحافی حضرات نے الاٹمنٹ لیٹر كی بنیاد پر پلاٹ فروخت كر دیے ہوئے ہیں ان بے چاروں كے پاس ملكیت كے ثبوت كے طور پر كون سی قانونی دستاویزات موجود ہیں؟ ان معروضی حالات میں صحافی حضرات اور ان كی تنظیموں كو چاہیے كہ وہ حكومتی وعدوں پر اب مزید تكیہ كرنا چھوڑ دیں۔بہت ہو چكا۔انیس سال انتظار كا عرصہ كم نہیں ہوتا ۔ اس عرصہ میں ایك نئی نسل پیدا ہو كر جوان بھی ہو چكی ہے۔ انہیں چاہیے كہ وہ اپنی آنے والی نسلوں كا كچھ سوچیں ۔جائیداد كے جھگڑے انہیں وراثت میں نہ دے كر جائیں۔ سمجھداری كا مظاہرہ كریں۔ اس كیس كے قانونی پہلو ؤں كو سمجھنے كی كوشش كریں۔ہٹ دھرمی سے كچھ حاصل نہیں ہو گا۔وہ بورڈا ٓف ریونیو میں زیر سماعت مقدمہ میں پارٹی بنیں۔عدالت كے رو برواپنا موقف پیش كریں۔انھیں بتائیں كہ صحافیوں كے ساتھ 2005 میں حكومت نے جو فراڈ كیا تھا،اس كی سزا صحافی حضرات ابھی تك بھگت رہے ہیں۔ اس كا كوئی حل نكالا جائے۔تو اس كا كوئی نہ كوئی حل ضرور نكلے گا۔ قانون میں ایك سكیم كی ایسی شق بھی موجود ہے جس پر عمل كر كے اس رقبہ كی انتہائی واجبی سے قیمت مقرر كی جا سكتی ہے۔ اس كا فائدہ اٹھائیں ۔ورنہ مزید نقصان ہونے كا خدشہ ہے۔كیونكہ سیٹلمنٹ كے قوانین كے مطابق سنٹرل گورنمنٹ (سابقہ متروكہ) كا رقبہ كی ڈسپوزل كے صرف دو آپشنز ہیں: یا تو یہ رقبہ مہاجرین كو الاٹ ہو سكتا ہے یا ناجائز قابضین كو بیچا جا سكتا ہے۔اس كے علاوہ حكومت كے پاس بھی كوئی چارہ كا رنہیں ہے۔