تاریخ پر تاریخ

ڈی ایس پی کے ماتحت اہلکاروں کے زیر استعمال ایک آفس میں رکھی میز پر میری آنکھوں کے سامنے پڑا ایک کٹا ہوا خربوزہ دیکھ کر مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ اس ملک میں قانون کی بھی اسی طرح کٹائی اور پھر بعد میں صفائی کی جاتی ہے ۔مدعی فریق کو انصاف کے حصول تک ایسے بہت سے ٹکڑوں میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ رکاوٹ اور غلطی کہاں پر ہے ؟ میں شروع سے قانون کا بہت احترام اور سکیورٹی فورسز کو پسند کرتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ پولیس حکام اور ان کے ماتحت اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے کام کو سراہا ہے ، ان تمام قانون دانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جو دن رات ملک و قوم کی حفاظت اور امن و امان کیلئے انتھک محنت کر رہے ہیں پچھلے کچھ دنوں سے مجھے ایک قانونی مسئلہ درپیش تھا اسی سلسلہ میں مجھے زندگی میں پہلی بار دو تین مرتبہ لاہور کے مضافات میں ایک ڈی ایس پی کے آفس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ایک مخصوص روٹین میں ڈی ایس پی اور ایس پی کے دفاتر میں جانا پڑا ہو ، ہمیشہ فون پر ہی کام ہو جاتے ہیں لیکن اس بار پہلی مرتبہ سوچا کہ چل کر دیکھا جائے کہ عوام کن مسائل سے دوچار ہیں اور پولیس حکام کا عام آدمی کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے۔ کیوں لوگ پولیس سے ناخوش ہیں اور باامر مجبوری انصاف کیلئے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ مانا کے وہاں بیٹھے اہلکار ہماری ہی رہنمائی اور مدد کے لئے ہیں لیکن یہاں کسی عام سائل کی کون سنتا ہے ، شاید اسی لئے ہر فرد پولیس حکام سے شکوہ کرتا نظر آتا ہے ۔اتنی طاقت رکھنے کے باوجود قانون شکنوں کے حوصلے بلند نظر آتے ہیں ۔مدعیان کو حق پر ہونے کے باوجود بار بار پولیس حکام کے دفاتر اور تھانوں میں طلب کیا جاتا ہے جبکہ ملزمان کو قانون کی پرواہ تک نہیں کہ قانون کس کھیت کی مولی ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر انصاف حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ، ایک یہ کہ اپنی طاقت کے ساتھ اپنا حق چھین لیا جائے اور دوسرا یہ کہ صرف ایک اپلیکیشن دائر کروانے کے لئے بار بار دفاتر اور تھانوں کے چکر لگائے جائیں۔ چونکہ میں قانون کا احترام کرتی ہوں اس لیے قانون کا احترام کرتے ہوئے میں دو سے تین بار ڈی ایس پی اور ایس پی کے دفاتر میں جاتی رہی جو کہ میری کمزوری نہیں بلکہ قانون کے احترام کا نتیجہ تھا ۔میں ہمیشہ اچھے کام کرنے والے پولیس آفیسرز کی تحسین کرتی ہوں ، ان کے ہر اچھے کام کو سراہتی ہوں لیکن صرف ایک اپلیکیشن کی خاطر کتنے چکر لگوانا سراسر مایوسی ہے ۔ میں نے بہت سوچا بہت سوچا بہت سوچا ، وہاں جس بھی آفیسر سے ملاقات ہوئی سب اپنا کام بڑی ذمہ داری سے نبھا رہے تھے لیکن ملزمان کی شان بے نیازی پر مجھے شدید حیرت ہے۔ ہر غیر قانونی کام کے لیے مختلف سزائیں متعین ہیں لیکن انصاف تک رسائی کی خاطر ایک عام شکایت کنندہ شہری کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ پیسے اور قیمتی وقت کا ضیاع مایوس ، دل برداشتہ اور شاید کچھ کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پولیس حکام سائل کو تاریخ پر تاریخ دینے کی بجائے اس کی فوری دادرسی کیلئے ٹھوس اقدامات کریں ۔ بہترین سازی کے ساتھ ساتھ انصاف تک رسائی بھی آسان کی جائے سب ٹھیک ہے قانون نافذ کرنے والے اہلکار' بہترین قانونی نظام مگر شاید قصور اس ٹیبل پر پڑے کٹے ہوئے ہوئے خربوزے کا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ زیر غور خربوزہ 'قانون 'یا عوامی رویے کوئی بھی خود کو غلط نہیں کہے گا اس لیے بات خربوزے پر ختم ہوئی ۔ #Sana Agha Khan #Police #Popolitices #Pakistan #Awam #Insaaf