ملک بھر میں جماعت اسلامی کے احتجاجی مظاہرے

رواں سال جولائی میں جماعت اسلامی نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس لگانے کے خلاف راولپنڈی میں احتجاج شروع کیا تھا، جس کی قیادت جماعت کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان نے کی تھی۔دو ہفتوں تک جاری رہنے والا احتجاج وفاقی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کے مطالبات کا جائزہ لینے کی غرض سے اگست میں ٹاسک فورس کے قیام کے اعلان کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ راولپنڈی معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے لاہور کے مختلف علاقوں میں احتجاج اور مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 45 دن گزر نے کے باوجود معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ اسلام آباد کے چھ مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بعد ازاں لہتراڑ روڈ پر مظاہرین نے حسن نصراللہ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ، مظاہرین نے اسرائیل اور امر یکہ کے خلاف اور فلسطین اور حسن نصر اللہ کے حق میں زبر دست نعرے بازی بھی کی۔ احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر پوری قوم اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ کے الیکٹرک نے بھی کراچی کے عوام کاجینا مشکل کردیا ہے۔ محترم حافظ نعیم الرحمن، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ مسلم امہ کے حکمران ہوش کے ناخن لیں،عالمی دہشت گرد امریکہ و اسرائیل کے مظالم کو روکنے کے لیے منظم ہوجائیں،ایسا نہ ہو کہ آپ کی دولت اور فوجیں بھی آپ کے کام نہ آسکیں۔شہباز شریف کو یو این او میں دو ٹوک انداز میں بات کرکے مو¿قف پیش کرنا چاہیے تھا ، دو ریاستی حل کی بات کرکے اسرائیل اور امریکہ کو کو خوش کرنا چاہتے ہیں،معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قائد اعظمؒ نے کہا تھا، اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے ،حکمران ایجنٹ کا کردار ادا نہ کریں بلکہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔مسلم حکمران آئرش وزیراعظم کی تقریر سے سبق سیکھ لیں،جماعت اسلامی یکم تا سات اکتوبر اہل فلسطین سے ہفتہ یکجہتی منائے گی،کراچی اور اسلام آباد میں بڑے ملین مارچز کا انعقاد کرے گی ، سات اکتوبر کو تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے کارکنوں سے دن بارہ بجے سڑکوں پر آنے کی اپیل کرتے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ سرکاری سطح پراس کا اہتمام کیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکسوں کو کم کرے،ملک میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ ہے۔ ان علاقوں میں بھی 14،14گھنٹے لوڈشیڈنگ ہے جو لوڈشیڈنگ فری علاقے تھے۔ کے الیکٹرک 70فیصد علاقوں میں لوڈشیڈنگ نہ ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے، جبکہ کے الیکٹرک پاکستان میں سب سے مہنگی بجلی بناتا ہے۔ ملک بھر میں شدید بحران ہے بجلی کے بل بجلی بن کر گرے ہیں جس سے سب تڑپ رہے ہیں۔ خواتین اپنے زیورات بیچ کر بجلی کے بل دے رہی ہیں۔پیٹرول و گیس کی قیمت میں اضافہ کیا پھر آئی ایم ایف کے ٹیکسز لائے جا رہے ہیں۔ یہ عوام کو مزید ٹیکسوں کے نیچے دبانا چاہتے ہیں۔ جاگیر داروں سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جا رہا بڑے لوگ مزے کررہے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں جو ٹیکس اور پیٹرول پر جو لیوی لگی ان کا پیٹ بھریں گے جو پہلے ہی اربوں روپے کھا گئے ہیں۔ ملک کی صورتحال اچھی نہیں ہے، بدامنی ہے بد انتظامی ہے، معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ عام لوگ غریب مڈل کلاس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تنخواہ دار طبقہ مزدور کسان کہاں جائیں۔ ہر گزرتے دن عوامی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں تعلیم بھی برائے فروخت بنا دی گئی ہے۔ ہر دن آئی ایم ایف کا ڈو مور کا مطالبہ غلام نہ صرف تسلیم کر رہے ہیں بلکہ قوم کو بتاتے ہیں پروگرام میں جانے کی خوش خبری مل گئی ہے۔ وزیر اعظم، وزیر خزانہ بتائیں جاگیرداروں پر ٹیکس کیوں نہ لگایا، عام لوگوں کو سمیں بند کر کے افراتفری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ اس طرح محاصل کا تیس فیصد بھی ٹارگٹ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ سوشل میڈیا کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ عوامی مطالبات کو سیاست کا رنگ دینے والے قوم کو گمراہ کر رہے ہیں، قوم کے اصل مسائل مہنگی بجلی، بے روزگاری، اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ، کرپشن اور ٹیکسوں کا بوجھ شامل ہے۔ صرف2 فیصد اشرافیہ 98فیصد عوام کی تقدیر کے فیصلے کر رہی ہے اور سفید و سیاہ کی مالک بن بیٹھی ہے۔ عیاشیاں یہ لوگ کرتے ہیں اور ان کے اخراجات عوام بر داشت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب نہیں چلے گا۔ جماعت اسلامی فرسودہ نظام اور مہنگائی، بے روزگاری، مہنگائی کے خلاف سٹرکوں پر ہے۔ قو م کے ساتھ ظلم کرنے والوں کا انجام قریب ہے۔ وزیراعظم بجلی کے بل کم کر دیں اسی میں نجات ہے، یہ نہ ہو آپ کی حکومت ہی چلی جائے۔ آئی پی پیز کا دھندا پیپلزپارٹی کے دور سے شروع ہوا، ایم کیو ایم ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی، آج ایم کیو ایم والے کہتے ہیں آئی پی پیز نہیں ہونے چاہئیں۔آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدے قوم کے سامنے لائے جائیں۔ آئی پی پیز کو بچانے کے لئے ہمیں ڈرایا جاتا ہے، لوگ بجلی کا بل ادا کرنے کے لئے گھر کا فرنیچر بیچنے پر مجبور ہیں، ایک ہی راستہ ہے عوام کو ریلیف دو۔