غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری

محترم لیاقت بلوچ ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستا ن، کا کہنا ہے کہ غزہ فلسطین پر اسرائیلی وحشیانہ انسانیت ک±ش بمباری کو 350 دِن ہوگئے۔ 43000 انسان صیہونی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہیید ہوگئے۔ اِن شہداء میں سے 13500 خواتین اور 17300 بچے ہیں، جو صیہونی اسرائیلی دہشت گردی، انسانی نسل کشی کے نتیجے میں لقمہ اجل بنا دیے گئے۔ 07 اکتوبر کو اسرائیل کے ظلم و جبر، وحشت و سفاکیت عالمی اداروں کی بے بسی اور عالمِ اسلام کی بزدلی، بےحسی کو ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ جماعتِ اسلامی کے تحت یکم اکتوبر سے 07 اکتوبر تک یکجہتی غزہ فلسطین کے سلسلے میں ملک بھر میں جلسے، ریلیاں، مارچ اور سیمینارز منعقد کیے جائیں گے۔ عالمی برادری بے حسی، بے بسی اور مجرمانہ غفلت ترک کرے اور غزہ پر تاریخ کی بدترین جارحیت، قتلِ عام کا سدِباب کرے۔ حکومتِ پاکستان عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کے حل پر فعال، جاندار کردار ادا کرے۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں ناجائز قابض بھارتی فاشزم کے سائے میں نام نہاد انتخابات کی عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات، فاشسٹ اقدام سے حالات میں استحکام نہیں آئے گا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد پائیدار حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حصول میں ہے۔ مودی فاشسٹ جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کے اقدامات سنگین بین الاقوامی جرم تھا۔ دو کروڑ کشمیریوں پر بھارت یا پاکستان یکطرفہ طو رپر کوئی حل مسلط نہیں کرسکتے۔ انسانی اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرکے جنوبی ایشیاءمیں امن ممکن نہیں۔ بھارت خطہ میں تنہا ہورہا ہے، امریکہ اور یورپ بھارت کی بربادی کا باعث بنیں گے۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر عالمِ اسلام کی رگِ جاں ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی سے ہی عالمِ اسلام محفوظ ہوگا۔ غزہ میں اسرائیلی صیہونی ظلم و جبر انسانون کا بےدریغ قتلِ عام اور جموں و کشمیر میں مودی فاشزم انسانیت سوز اور انسان کشی کے اقدامات ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی کی دوسری قرارداد پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ جموں و کشمیر کے عوام متحد رہیں، بےلوثی، جانفشانی، محنت سے جدوجہد جاری رکھیں، آزادی کشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، لاکھوں مخلص اور آزادی کے مجاہدوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ مظلوم کشمیریوں او ر مظلوم فلسطینیوں نے ان دونوںغاصبوں (بھارت اور اسرائیل) سے اپنی جان آزاد کروانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت اور جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ایک طرف فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے انتفاضہ کی تحریک کا آغاز کیا تو دوسری جانب کشمیریوںنے انتفاضہ کی تحریک کا دامن تھام لیا اور غاصب بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہو ئے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مزاحمت کرنے لگے۔دشمن اسی مزاحمت سے خوفزدہ ہوتا ہے کیونکہ غاصب بھارتی ہوں یا اسرائیلی دونوں ہی مزاحمت اور جہاد سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کی مزاحمت ہو یا فلسطینیوں کی مزاحمت دونوں ہی کے نتیجے میں مظلوموں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی ہے اور غاصب درندوں(بھارت اور اسرائیل) کو بد ترین شکست کا سامنا رہاہے۔ صدر مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور،لیاقت بلوچ نے کہا کہانتخابات 2024ء کے نتائج متنازع ہیں۔ اب مخصوص نشستوں پر حکومت کے فیصلے نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کا عَلمِ بغاوت بلند کردیا ہے۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے آئینی اداروں میں بڑا تصادم پیدا کردیں گے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، آئینی ادارے آئین کی پابندی کرکے اپنا وجود تسلیم کراسکتے ہیں۔ دہشت گرد بھی آئین کے باغی ہیں اور ریاستی ادارے بھی آئین سے بغاوت کریں گے تو ملک کی سلامتی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کی مفادات کی غلامی کی بنیاد پر آلہ کار بن کر بھرپور حملہ آور ہے۔ سیاسی جمہوری قیادت کا یہ عمل جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لیے بڑے خطرات اور نقصانات کا باعث بنے گا۔ جماعتِ اسلامی بدنیتی پر مبنی قانون سازی اور آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کو مسترد کرتی ہے۔ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے سیاسی مخالفین یا اداروں پر انتخابی فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔کبھی فوج پر مداخلت کا الزام لگتا ہے تو کبھی کسی مخصوص جماعت پر ووٹوں کی چوری کا۔ کبھی ’35 پنکچرز‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ چوری کرنے کی بات کی گئی تو کبھی امیدواروں کے اغوا اور تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔ غرض ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ جاتا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور کامیاب ہونے والے امیدوارں کا جوڑ توڑ اس کے علاوہ ہے۔جب 1990 کے عام انتخابات ہوئے تو فوجی جرنیلوں پر الزام لگا کہ انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی مالی مدد کی تھی۔ 1993 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ پی پی پی کے حق میں مبینہ الیکشن دھاندلی ہوئی، 1997 میں یہی الزام پاکستان مسلم لیگ پر لگا۔ 2002 کے عام انتخابات فوجی جنرل پرویز مشرف کے زیرِ سایہ ہوئے اور اس وقت جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعتوں پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں۔