بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا۔ کبھی گاو¿ رکشا کے نام پر تو کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا ۔ بھارت مسلمانوں پر ظلم کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی صورتحال کو بدتر کر رہا ہے اور مسلمانوں کے انسانی اور آئینی حقوق سے بھی انکار کررہا ہے۔ ارون دھتی رائے نے کرونا کی موجودہ صورتحال میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے راز فاش کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس تنظیم سے وزیراعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور یہی آر ایس ایس حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے۔ آرایس ایس عرصے سے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کی خواہشمند ہے۔اسی لیے اس تنظیم کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ نائنٹین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ کار ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص علاقوں میں ہی محصور کردیا تھا۔ کرونا وائرس کو بہانہ بناکر بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کی گرفتار یوں میں مصروف ہے۔ وکلائ، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ متعدد کو جیلوں میں ڈالا جاچکا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جھوٹے دعوو¿ں سے بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ اقلیت مخالف کارروائیوں سے مودی کی ذہنیت عیاں ہو چکی ہے۔ بھارت کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اقلیتی اسٹیٹ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی دلی سے نقل مکانی دیکھی گئی تھی۔ بھارت میں لاک ڈاو¿ن پر توجہ نہیں۔ دنیا کو نوٹس لینا چاہیے۔ کورونا اور معاشی چیلنجز کے باوجود بھارت اقلیتوں کو دبانے میں مصروف ہے۔ گزشتہ 5 سال کے دوران بھارتی اشتعال انگیزیوں میں اضافہ ہوا۔ مودی سرکار ہندو توا کے نظریے پر گامزن ہے۔ گزشتہ برس دہلی فسادات میں پولیس نے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا اور ان پر اپنے خلاف ہی تشدد کا الزام لگایا۔ماہر انسانی حقوق تیستا سیتلواڈ نے کہا کہ بھارتی مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ گائے کا گوشت فروخت کرنے کے جھوٹے الزامات پر ہجوم انہیں تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ماہر انسانی حقوق ڈاکٹر الیاس کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت اپنی 14 فیصد آبادی کو دبارہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ مودی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جانب سے فرد جرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مندرجات ہندواتا کے فروغ اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی گواہی دیتی ہے۔رپورٹ میں مسلمانوں پر بی جے پی کی حکومت کی جانب سے مظالم کی ہوشربا تفصیلات منظر عام± پرآئی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے عالمی برادری کو سٹیزن ایکٹ کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کیں ۔کشمیریوں کو ہندوستانی حکومت نے لاک ڈاو¿ن میں رکھ کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی۔ہندوستان اور کشمیر میں جاری ظلم و ستم± کے خلاف امریکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی مودی حکومت کو امتیازی پالیسیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئترس نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشکلات کی شکار اقلیتوں کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ نوجوان، خواتین، بیمار، مشکلات میں گھرے افراد کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ باعزت زندگی کے لیے معاشروں میں نیا عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں نوجوان باوقار انداز سے رہ سکیں اور جس میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہوں۔ ایسا معاشرہ جہاں بیمار، مشکل میں پھنسے اور تمام اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں پورے ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں اور اسے بھی بھارت میں مذہب کے نام پر ہونے والی تفریق کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ریاست آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری کی گئی جس کے بعد 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ گیا کیونکہ ان کا نام شہریوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں کہا تھا کہ پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا لیکن جب پورے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج تیز ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک انتخابی ریلی اور بعد میں حکومت نے پارلیمان میں بیان دیا کہ حکومت کا فی الحال پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔